اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان  نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا سادہ لفظوں میں بات کروں تو سویلینز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے بھی خلاف ہے، بین الاقوامی تقاضا ہے کہ ٹرائل کھلی عدالت میں، آزادانہ اور شفاف ہونا چاہیے، بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے پبلک ہونے چاہئیں، دنیا بھر کے ملٹری ٹربیونلز کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں عدالتوں میں جاتی ہیں، یورپی عدالت کے فیصلے نے کئی ممالک کو کورٹ مارشل کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے استفسار کیا کہ اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا؟۔ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے سوال اٹھایا کہ کوئی ملک اگر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو کیا ہوگا؟۔ سلمان اکرم راجہ  نے جواب دیا کہ کچھ بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کی پابندی ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں، شفاف ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیا۔ جسٹس نعیم اختر افغان  نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔ سلمان اکرم راجا نے مؤقف اپنایا کہ یوکے میں کورٹ مارشل فوجی نہیں بلکہ آزاد ججز کرتے ہیں، ایف بی علی کیس کے وقت آئین میں اختیارات کی تقسیم کا اصول نہیں تھا، پہلے تو ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار فوجداری ٹرائلز کرتے تھے، کہا گیا اگر ڈی سی فوجداری ٹرائل کر سکتا ہے تو کرنل صاحب بھی کر سکتے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ میں یہی نکات اٹھائے ہیں،  ہزاروں افراد کا ٹرائل اے ٹی سی میں ہو سکتا تو ان 105 کا کیوں نہیں؟۔ دوران سماعت سلمان اکرم راجہ اور جسٹس نعیم اختر افغان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ سلمان راجہ نے کہا کہ یوکے میں ایک فیڈلی نامی فوجی کا کورٹ مارشل ہوا، یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے اس کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیدیا تھا، فیڈلی ذہنی تناؤ کا شکار تھا، اس نے فائرنگ کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیڈلی کی فائرنگ سے بھی ایک ٹی وی ٹوٹ گیا تھا، نو مئی واقعات میں بھی ایک ٹی وی توڑا گیا۔ سلمان راجا نے کہا کہ جس نے نو مئی واقعات میں ٹی وی توڑا میں اس سے ملا، میری اس سے  ملاقات ہوئی، وہ بیچارہ شرم سے ڈوبا ہوا تھا، ٹی وی توڑنے والا بیچارہ چار جماعتیں پاس بے روزگار تھا، ہمارے معاشرے نے ایسے لوگوں کو کیا دیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ انفرادی باتیں نہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان راجہ سے استفسار کیا آپ نے فیڈلی سے ملاقات بھی کی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نہیں سلمان راجہ نے پاکستانی فیڈلی سے ملاقات کی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ  آپ نے کہا میرا موکل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا تھا، نو مئی والے دن وہ کرکٹ کھیلنے تو نہیں گیا تھا ناں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس قانون کے تحت کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا گیا وہ قانون کیا ہمارے سامنے ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ میں وہ قانون ریکارڈ پر لے آؤں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا وہ قانون محض کلبھوشن کیلئے لایا گیا۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایسے جاسوس جنہیں عالمی عدالت انصاف سے اجازت ہو اسے اپیل کا حق ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہاں اور کتنے کلبھوشن ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ کلاسیفکیشن کی اجازت تو ایف بی علی میں بھی موجود ہے۔ سلمان راجہ نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، کوئی جج اخلاقیات اور ماضی کے حالات و واقعات کی بنیاد پر وہ الفاظ آئین میں شامل نہیں کر سکتا جو آئین کے متن میں نہ ہوں، اگر ایسا کرنے کی اجازت دیدی گئی تو یہ بہت خطرناک ہوگا، جج کو یہ اختیار نہیں ملنا چاہیے وہ ایسے الفاظ آئین میں شامل کرے جو آئین کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ دوران سماعت سلمان راجہ نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آرٹیکل 63 اے نظرثانی کا حوالہ دیا اور کہا کہ آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل میں بھی یہی اصول طے ہوا اپنی مرضی کے الفاظ کو آئین میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان  اکر م راجہ سے مکالمہ کیا کہ آپ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل فیصلے کو سراہا، یہ قابل ستائش ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ لگتا ہے آج کا دن عدالتی اعتراف کا دن ہے۔ وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ  اس آئینی بنچ نے صحیح معنوں میں تشریح کرنی ہے۔  وکیل بانی پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہلکے پھلکے انداز میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں، ہمارے استاد نے بلیک بورڈ پر لکھا توبہ توبہ شراب سے توبہ، استاد نے کہا ایک شخص اس جملے کو پڑھے گا توبہ توبہ شراب سے توبہ، دوسرا شخص یوں بھی پڑھ سکتا ہے، توبہ توبہ اور شراب سے توبہ، اس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک اور مثال بھی دی جاسکتی ہے، انار کلی بازار میں ایک دکان کے باہر لکھا تھا بڑھیا کوالٹی، ایک صاحب نے یوں پڑھ دیا بڑھیا کو الٹی، اس پر بھی کمرہ عدالت میں قہقہے لگے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منیب اختر نے تو اکثریتی فیصلے میں فوجی عدالتوں کو متوازی عدالتی نظام تصور کیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے آئین کی یہ تشریح تاریخ کو دیکھتے ہوئے کی، جسٹس منیب اختر نے لکھا کہ فوجی عدالتوں کی ایک تاریخ ہے، تاریخ کی بنیاد پر آئین کی تشریح کرنے کے نتائج انتہائی خوفناک ہوں گے، یہ آئین کو پڑھنے کا انتہائی خطرناک طریقہ ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس نعیم اختر افغان بین الاقوامی اصولوں نے ریمارکس دیے کہ کورٹ مارشل نہیں کا کورٹ مارشل سلمان اکرم نے کہا کہ کے فیصلے کہا کہ ا نہیں ہو ا رٹیکل ہو سکتا

پڑھیں:

ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟

پاکستان میں ایوی ایشن کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ (IIAP) کی مینجمنٹ متحدہ عرب امارات (UAE) کو گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ (G2G) معاہدے کے تحت آؤٹ سورس کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کراچی (جناح انٹرنیشنل) اور لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل) ایئرپورٹس کو بھی اسی ماڈل پر آؤٹ سورس کیا جا سکتا ہے۔

یہ اقدامات ملکی معاشی بحران، عالمی معیار کی سہولیات کی ضرورت، اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کی پالیسی کے تحت کیے جا رہے ہیں، لیکن اس پر شفافیت اور قانونی تقاضوں پر سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔

 ایئرپورٹس کی آمدنی: فیصلہ کیوں اہم ہے؟

پاکستان کے 3 بڑے ایئرپورٹس — اسلام آباد، کراچی، اور لاہور — ملک کی ایوی ایشن آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ نے پچھلے 3 مالی سالوں میں تقریباً 46 ارب روپے ریونیو کمایا۔ لاہور ایئرپورٹ کی آمدنی 44 ارب روپے اور کراچی ایئرپورٹ کی آمدنی 40 ارب روپے رہی۔

مجموعی طور پر تینوں ایئرپورٹس نے 130 ارب روپے کی کمائی کی ([National Assembly Data, 2024]).

مارچ 2025 میں اسلام آباد ایئرپورٹ نے صرف کارگو آپریشنز سے 72 کروڑ روپے کمائے، جو کہ ایک ماہ میں سب سے بڑی وصولی تھی۔ ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ اربوں روپے کے مالی مفاد سے جڑا ہوا ہے۔

اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ: کیا ہوا؟

حکومت نے پہلے IFC (International Finance Corporation) کی مشاورت سے اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ ایک ترک کنسورشیم (TERG) نے 47.25 فیصد ریونیو شیئر کی پیشکش کی، لیکن حکومت کا مطالبہ 56 فیصد تھا۔ ناکامی کے بعد یہ ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا۔

اب حکومت براہ راست UAE کے ساتھ G2G معاہدے کی طرف جا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی موجودگی میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں، جو ایک اہم سیاسی اور معاشی سگنل ہے۔

کراچی اور لاہور ایئرپورٹس: اگلا مرحلہ؟

اسلام آباد کے بعد حکومت نے واضح کیا ہے کہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس بھی آؤٹ سورسنگ کے عمل میں شامل ہوں گے۔

کراچی ایئرپورٹ، جو کارگو اور بزنس ٹریفک کے لیے سب سے اہم سمجھا جاتا ہے، کا سالانہ ریونیو 13 ارب روپے کے قریب ہے۔

لاہور ایئرپورٹ، جو سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی پروازوں کا بڑا مرکز ہے، اس کی آمدنی بھی اسلام آباد کے قریب قریب ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک مشترکہ آپریشنل ماڈل بنایا جا رہا ہے، جس کے تحت تینوں بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی غیر ملکی ادارے کو 15 سالہ آؤٹ سورسنگ کنٹریکٹ پر دیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے میں ریونیو شیئرنگ، کارگو آپریشنز، ڈیوٹی فری زونز، اور پارکنگ سروسز شامل ہوں گی، جبکہ ایئر ٹریفک کنٹرول اور رن وے آپریشنز CAA کے پاس رہیں گے۔

ممکنہ فوائد (Merits) 1. عالمی معیار کی سروسز

دبئی اور ابو ظہبی جیسے ایئرپورٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، UAE کا انتظام جدید سہولیات، جدید ٹیکنالوجی اور کسٹمر کیئر کے معیار کو بلند کرے گا۔

2. سرمایہ کاری میں اضافہ

آؤٹ سورسنگ معاہدوں سے حکومت کو فوری ایڈوانس فیس اور ریونیو شیئرنگ کی صورت میں سالانہ اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔

3. کمرشل ترقی

ریٹیل، ہوٹل، ڈیوٹی فری زونز اور پارکنگ سہولیات کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے، جس سے ایئرپورٹ کی مجموعی کمائی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔

4. بوجھ میں کمی

CAA کے لیے روزمرہ آپریشنز کی بجائے ریگولیٹری اور سیکیورٹی کردار پر توجہ دینا آسان ہو جائے گا۔

 ممکنہ نقصانات (Demerits) 1. قانونی شفافیت کے خدشات

اگر PPRA قوانین کو نظر انداز کیا گیا تو یہ اقدام متنازع ہو سکتا ہے اور شفافیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔

2. قومی خودمختاری پر اثر

ایئرپورٹس اہم اسٹریٹجک تنصیبات ہیں؛ ان کی مینجمنٹ کسی غیر ملکی حکومت کو دینا طویل مدتی خطرات رکھتا ہے۔یاد رھے کہ UAE کے تقریبا تمام ائر پورٹ برطانیہ امریکہ اور دوسرے ممالک کے لوگ چلا رھے ھین

3. ریونیو شیئرنگ کے مسائل

اگر معاہدے کی شرائط غیر واضح یا غیر متوازن ہوئیں تو طویل مدت میں قومی خزانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

4. ملازمین کا مستقبل

اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ کسی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، لیکن نجی یا غیر ملکی انتظامات سخت پرفارمنس پالیسیز نافذ کرتے ہیں۔

5. سیکیورٹی خطرات

حساس اداروں کی نگرانی اور انفارمیشن سیکیورٹی پر غیر ملکی اثرات ایک نازک معاملہ ہیں۔

 بین الاقوامی مثالیں

قطر نے Hamad International Airport کو اپنی سرکاری کمپنی QACC کے ذریعے جدید بنایا، لیکن تمام فیصلے پارلیمانی منظوری کے بعد کیے۔

سعودی عرب نے ریاض اور جدہ کے ایئرپورٹس کے لیے بین الاقوامی کنسورشیمز کو شامل کیا، لیکن معاہدے شفاف ٹینڈرنگ کے ذریعے طے پائے۔

ترکی میں Istanbul Airport کی آؤٹ سورسنگ ایک بڑے عالمی آپریٹر کو دی گئی، لیکن مکمل مسابقتی بولی کے بعد۔

امریکہ میں DP World کا بندرگاہ معاہدہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا — یہ ایک سبق ہے کہ عوامی اعتماد کے بغیر G2G معاہدے کامیاب نہیں ہوتے۔

 کیا یہ قدم درست ہے؟

اسلام آباد، لاہور اور کراچی ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ بظاہر ایک اسٹریٹجک مالی اقدام ہے۔ دوست ملک UAE کے ساتھ شراکت عالمی معیار، سرمایہ کاری، اور بہتر مینجمنٹ کی جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔

تاہم، حکومت کو چاہیے کہ:

معاہدے کی شفاف تفصیلات پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے رکھے۔

ریونیو شیئرنگ کے واضح اور متوازن اصول بنائے۔

ملازمین کے حقوق اور قومی سیکیورٹی کے تقاضے قانونی دستاویزات میں محفوظ کرے۔

کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ سے پہلے اسلام آباد کے ماڈل کے نتائج کا جائزہ لے۔

نتیجہ

یہ فیصلہ پاکستان کے ایوی ایشن سیکٹر کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی مکمل طور پر شفافیت، قانونی فریم ورک، اور عوامی اعتماد پر منحصر ہے۔ اگر حکومت نے صحیح حکمت عملی اختیار کی تو یہ ماڈل نہ صرف اسلام آباد بلکہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کو بھی عالمی معیار تک لے جا سکتا ہے۔ تاھم قومی ماہرین نے یہ  خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہم اپنے بندرگاہوں کے ہوائی اڈے اور دیگر ادارے نہیں چلا سکتے اور بیرونی دنیا سے ان قیمتی اشیاء منافع بخش تنظیموں کو چلانے کے لیے کہتے ہیں جو کہ ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔آنے والے وقتوں میں شاید  ارباب اختیار کو  جواب دینا پڑے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

آؤٹ سورسنگ ایئرپورٹس سول ایوی ایشن

متعلقہ مضامین

  • یقین دلاتا ہوں ہر ایمان دار جوڈیشل افسر کے ساتھ کھڑا ہوں گا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟
  • عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
  • ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے،چیف جسٹس  پاکستان  نے فیصلہ جاری کردیا
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • زیر التوا اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کی بنا پر فیصلے پر عملدرآمد روکا نہیں جا سکتا، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • موجودہ مون سون سسٹم کراچی کومتاثر نہیں کرے گا: ڈی جی محکمۂ موسمیات
  • روسی سپریم کورٹ کی چیف جسٹس 72 برس کی عمر میں چل بسیں
  • نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !