Nai Baat:
2025-07-26@01:11:31 GMT

پی ٹی آئی کے لئے مشکلات

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

پی ٹی آئی کے لئے مشکلات

پی ٹی آئی کے لئے مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ بہت سارے دیہاڑی باز جوسوشل میڈیا پر ہر مہینے بلکہ ہر ہفتے رہائی کی ایک نئی تاریخ دیتے تھے غائب ہوچکے ہیں۔ اب ان کیلئے اْمید کی کوئی کرن نہیں ہے۔ ایک چراغ جو حکومت سے مذاکرات کے ذریعے پی ٹی آئی نے خود ہی جلایا تھا اسے بْجھا بھی خود ہی دیا۔ آرمی چیف کو خطوط لکھ کے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی مگر اس پر بھی صاف جواب آ گیا اور اب ایک ٹرک کی بتی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد کوئی گرینڈ الائنس بنایا جائے گا اوراس کے بعد کوئی تحریک۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کچھ مقاصد اور کچھ مفادات پر اکٹھے ہیں توا س کے اعلان کے لئے رمضان المبارک کے گزرنے کا انتظار کیوں ہے یعنی کوئی ڈیڑھ دو ماہ بعد۔ میں جب یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے دھوپ چمک رہی ہے اور لگ رہا ہے کہ اس مرتبہ گرمی شائد گذشتہ برسوں کی نسبت کچھ پہلے آجائے اور شائد کچھ زیادہ بھی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سنگ جانی اور کاہنہ کے جلسوں سے اپنی عوامی حمایت کا اندازہ بھی لگا لیا ہے اور اس نے خیبرپختونخوا کے جلسوں میں اپنی حاضری بھی دیکھ لی ہے، کسی ایک جگہ بھی یہ تعداد دس ہزار نہیں تھی۔ اس کی مزاحمت میں کتنا دم ہے وہ اکتوبر میں ایس سی او کانفرنس سے پہلے احتجاج اور نومبر کی فائنل کال میں چیک کیا جا چکا ہے جب بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں فرار ہوئے۔اب پی ٹی آئی والے احتجاج کے لئے مولانا فضل الرحمان کی مذہبی اور سیاسی طاقت پر انحصار کرنا چاہ رہے ہیں مگر کیا مولانا ان کی چال میں آ جائیں گے اور اپنے کارکنوں کو حکومت کے سامنے اور اپنی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک ایسی جنگ میں کھڑا کر دیں گے جس کا فائدہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی اٹھالیں۔ اگر کسی کو اس حوالے سے کوئی غلط فہمی ہے تو وہ چھبیسویں آئینی ترمیم کی پوری ڈویلپمنٹ پر غور کر سکتا ہے جس میں جمعیت العلمائے اسلام کے ارکان اسمبلی نے پی ٹی آئی کی اس موو کو ناکام بنایا جو وہ اعلیٰ عدالتوں میں تقسیم کے ذریعے کرنا چاہتی تھی۔ یہ حکومت کی ایک شاندار سیاسی، پارلیمانی اور قانونی مہم تھی۔ یہ درست ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے آئینی عدالت بننے کا راستہ روکا مگر آئینی بینچ قائم ہوا اور وہ تمام مقاصد حاصل ہوئے جو حکومت نے طے کر رکھے تھے۔ یہ شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی مشترکہ جیت تھی۔
کوئی بھی سیاسی جماعت اگر کوئی بھی تحریک چلانا چاہتی ہے تواس کے لئے اس کے اندر قیادت اور نظرئیے کی یکسوئی ضروری ہے۔ پی ٹی آئی میں بہت سارے لوگ قائل ہیں کہ مزاحمت کی سیاست سے انہیں کچھ نہیں ملے گا اور اگر کچھ ملے گا تو وہ صرف اور صرف مشکل اور رسوائی جیسے نو مئی کے بعد ملی اور جیسے چھبیس نومبر کی رات۔پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر شور مچاتے ہیں مگر عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتے۔ پی ٹی آئی اس وقت بہت سارے گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے جیسے مرکزی سطح پر علیمہ بی بی اور بشریٰ بی بی کے گروپ۔ بات یہاں تک محدو د نہیں ہے بلکہ ایک سوشل میڈیا کا گروپ بھی ہے اور ایک وکلا کا گروپ بھی۔ ایک گروپ پارٹی سے نکالے ہوئے رہنماؤں کا ہے جیسے فواد چوہدری اورشیر افضل مروت وغیرہ۔ یہ لوگ سوشل ہی نہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی رش لے رہے ہیں۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ اختلاف رائے ہے جو پارٹیوں میں ہوجاتا ہے مگر یہ محض اختلاف رائے ہوتا تو یہ لوگ ایک دوسرے کو تھپڑ نہ مار رہے ہوتے، علیمہ بی بی نے عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ چلانے والے جبران الیاس پر جو الزامات عائد کئے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ یہ اختلاف رائے نہیں، نفرتیں اور دشمنیاں ہیں۔

پی ٹی آئی کا ہوم گراؤنڈ خیبرپختونخوا ہے اور وہاں پر اس کی تنظیمی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔علی امین گنڈا پور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹا کے جنید اکبر کو لایا جا چکا ہے اور ان دونوں کے درمیان جو معاملات چل رہے ہیں وہ آٹھ فروری کے جلسے کے موقعے پر واضح رہے۔ خیبرپختونخوا میں گروپ بندی علی امین اور جنید اکبر سے بھی اوپر کی ہے یعنی مراد سعید، اسد قیصر، علی محمد خان اور شیر افضل مروت وغیرہ کے گروپ۔ شیر افضل خان مروت کے ساتھ بہت سارے رہنماؤں اور کارکنوں نے سوشل میڈیا پر باقاعدہ جانے کے اعلانات کر دئیے ہیں۔ سندھ اوربلوچستان میں پی ٹی آئی کا کوئی حال نہیں ہے اور پنجاب میں حماد اظہر،شاہ محمو د قریشی اور چوہدری پرویز الٰہی کے علاوہ میاں اسلم اقبال کے بھی گروپ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو بھی پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ ہوجائے گا کہ اس پر بھرپور مہم چل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک طاقتور گروپ حماد اظہر کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹانے کے لئے سرگرم ہے اور یہ واحد پارٹی ہے جو اپنے عہدوں اور پالیسیوں کا فیصلہ سوشل میڈیا کو دیکھ کے کرتی ہے۔ میں نے یہاں سلمان اکرم راجا کے گروپ کی بات نہیں کی کیونکہ ان کا کوئی گرو پ نہیں اور میں نے انہیں چوبیس نومبر کو اپنی گاڑی میں اکیلے گھومتے اور ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھا ہے۔ پنجاب میں فواد چوہدری بھی کارکنوں کی توجہ لے رہے ہیں مگر وہ مرکزی سیاسی کمیٹی کو منی لانڈرنگ کمیٹی بھی کہہ رہے ہیں، شعیب شاہین کو تھپڑ مار رہے تووقاص اکرم پر پوری کے پی حکومت بیچنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔

ایک کاؤنٹر آرگومنٹ یہ ہے کہ ووٹ تو عمران خان کا ہے اور وہی ووٹ آٹھ فروری کو بھی پڑاسو ان اختلافات سے فرق نہیں پڑتا مگرتب کیا ہو اگر عمران خان خود جیل میں بیٹھ کے یہ گیم کررہے ہوں، انہیں آپس میں لڑوا رہے ہوں۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوتی ہے جب وہ بشریٰ بی بی کی بھی تعریفیں کرتے ہیں اور علیمہ بی بی کو بھی ہلہ شیری دیتے ہیں، اسی طرح تھپڑ کھانے والے شعیب شاہین سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں اور تھپڑ مارنے فواد چوہدری سے بھی۔ کیا یہ وہی بڑی گیم ہے جس کا ذکر پی ٹی آئی کے کارکن کرتے ہیں کہ وہ میں جیل میں بیٹھ کے کر رہے ہیں، خیر، اب تو یہ باتیں کہنے والے بھی نہیں رہے ورنہ وہ کیا دن تھے جب روزانہ بتایا جاتا تھا کہ جیل کا پچھلا دروازہ کھلا اور فلاں، فلاں نے عمران خان کے پاؤں پکڑ لئے۔ اب تو اپنے وکیلوں تک ملاقاتیں نہ ہونے کے رونے دھونے ہیں جو اس برس تو اسی طرح چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ رہ گئی تحریک تو یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں، یہ منہ اور مسور کی دال؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر پی ٹی ا ئی بہت سارے یہ ہے کہ رہے ہیں ہے اور کے لئے

پڑھیں:

معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!

بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر  انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔

کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟

کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔

کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟

اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟

یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !

بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔

قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔

تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔

نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟

یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راؤ علی

بلوچستان کوئٹہ لڑکیاں

متعلقہ مضامین

  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں،سینیٹر عرفان صدیقی
  • عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے
  • ملک میں عدلیہ اور انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں: اسد
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • مجھے فی الحال تحریک کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آ رہا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • شاہ محمود قریشی کا بری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں،جس کسی نے ان پر 9مئی کا کیس بنایا ہے وہ کوئی بیوقوف آدمی تھا،حامد میرکا تبصرہ