پی ٹی آئی کے لئے مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ بہت سارے دیہاڑی باز جوسوشل میڈیا پر ہر مہینے بلکہ ہر ہفتے رہائی کی ایک نئی تاریخ دیتے تھے غائب ہوچکے ہیں۔ اب ان کیلئے اْمید کی کوئی کرن نہیں ہے۔ ایک چراغ جو حکومت سے مذاکرات کے ذریعے پی ٹی آئی نے خود ہی جلایا تھا اسے بْجھا بھی خود ہی دیا۔ آرمی چیف کو خطوط لکھ کے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی مگر اس پر بھی صاف جواب آ گیا اور اب ایک ٹرک کی بتی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد کوئی گرینڈ الائنس بنایا جائے گا اوراس کے بعد کوئی تحریک۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کچھ مقاصد اور کچھ مفادات پر اکٹھے ہیں توا س کے اعلان کے لئے رمضان المبارک کے گزرنے کا انتظار کیوں ہے یعنی کوئی ڈیڑھ دو ماہ بعد۔ میں جب یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے دھوپ چمک رہی ہے اور لگ رہا ہے کہ اس مرتبہ گرمی شائد گذشتہ برسوں کی نسبت کچھ پہلے آجائے اور شائد کچھ زیادہ بھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سنگ جانی اور کاہنہ کے جلسوں سے اپنی عوامی حمایت کا اندازہ بھی لگا لیا ہے اور اس نے خیبرپختونخوا کے جلسوں میں اپنی حاضری بھی دیکھ لی ہے، کسی ایک جگہ بھی یہ تعداد دس ہزار نہیں تھی۔ اس کی مزاحمت میں کتنا دم ہے وہ اکتوبر میں ایس سی او کانفرنس سے پہلے احتجاج اور نومبر کی فائنل کال میں چیک کیا جا چکا ہے جب بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں فرار ہوئے۔اب پی ٹی آئی والے احتجاج کے لئے مولانا فضل الرحمان کی مذہبی اور سیاسی طاقت پر انحصار کرنا چاہ رہے ہیں مگر کیا مولانا ان کی چال میں آ جائیں گے اور اپنے کارکنوں کو حکومت کے سامنے اور اپنی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک ایسی جنگ میں کھڑا کر دیں گے جس کا فائدہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی اٹھالیں۔ اگر کسی کو اس حوالے سے کوئی غلط فہمی ہے تو وہ چھبیسویں آئینی ترمیم کی پوری ڈویلپمنٹ پر غور کر سکتا ہے جس میں جمعیت العلمائے اسلام کے ارکان اسمبلی نے پی ٹی آئی کی اس موو کو ناکام بنایا جو وہ اعلیٰ عدالتوں میں تقسیم کے ذریعے کرنا چاہتی تھی۔ یہ حکومت کی ایک شاندار سیاسی، پارلیمانی اور قانونی مہم تھی۔ یہ درست ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے آئینی عدالت بننے کا راستہ روکا مگر آئینی بینچ قائم ہوا اور وہ تمام مقاصد حاصل ہوئے جو حکومت نے طے کر رکھے تھے۔ یہ شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی مشترکہ جیت تھی۔
کوئی بھی سیاسی جماعت اگر کوئی بھی تحریک چلانا چاہتی ہے تواس کے لئے اس کے اندر قیادت اور نظرئیے کی یکسوئی ضروری ہے۔ پی ٹی آئی میں بہت سارے لوگ قائل ہیں کہ مزاحمت کی سیاست سے انہیں کچھ نہیں ملے گا اور اگر کچھ ملے گا تو وہ صرف اور صرف مشکل اور رسوائی جیسے نو مئی کے بعد ملی اور جیسے چھبیس نومبر کی رات۔پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر شور مچاتے ہیں مگر عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتے۔ پی ٹی آئی اس وقت بہت سارے گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے جیسے مرکزی سطح پر علیمہ بی بی اور بشریٰ بی بی کے گروپ۔ بات یہاں تک محدو د نہیں ہے بلکہ ایک سوشل میڈیا کا گروپ بھی ہے اور ایک وکلا کا گروپ بھی۔ ایک گروپ پارٹی سے نکالے ہوئے رہنماؤں کا ہے جیسے فواد چوہدری اورشیر افضل مروت وغیرہ۔ یہ لوگ سوشل ہی نہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی رش لے رہے ہیں۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ اختلاف رائے ہے جو پارٹیوں میں ہوجاتا ہے مگر یہ محض اختلاف رائے ہوتا تو یہ لوگ ایک دوسرے کو تھپڑ نہ مار رہے ہوتے، علیمہ بی بی نے عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ چلانے والے جبران الیاس پر جو الزامات عائد کئے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ یہ اختلاف رائے نہیں، نفرتیں اور دشمنیاں ہیں۔
پی ٹی آئی کا ہوم گراؤنڈ خیبرپختونخوا ہے اور وہاں پر اس کی تنظیمی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔علی امین گنڈا پور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹا کے جنید اکبر کو لایا جا چکا ہے اور ان دونوں کے درمیان جو معاملات چل رہے ہیں وہ آٹھ فروری کے جلسے کے موقعے پر واضح رہے۔ خیبرپختونخوا میں گروپ بندی علی امین اور جنید اکبر سے بھی اوپر کی ہے یعنی مراد سعید، اسد قیصر، علی محمد خان اور شیر افضل مروت وغیرہ کے گروپ۔ شیر افضل خان مروت کے ساتھ بہت سارے رہنماؤں اور کارکنوں نے سوشل میڈیا پر باقاعدہ جانے کے اعلانات کر دئیے ہیں۔ سندھ اوربلوچستان میں پی ٹی آئی کا کوئی حال نہیں ہے اور پنجاب میں حماد اظہر،شاہ محمو د قریشی اور چوہدری پرویز الٰہی کے علاوہ میاں اسلم اقبال کے بھی گروپ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو بھی پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ ہوجائے گا کہ اس پر بھرپور مہم چل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک طاقتور گروپ حماد اظہر کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹانے کے لئے سرگرم ہے اور یہ واحد پارٹی ہے جو اپنے عہدوں اور پالیسیوں کا فیصلہ سوشل میڈیا کو دیکھ کے کرتی ہے۔ میں نے یہاں سلمان اکرم راجا کے گروپ کی بات نہیں کی کیونکہ ان کا کوئی گرو پ نہیں اور میں نے انہیں چوبیس نومبر کو اپنی گاڑی میں اکیلے گھومتے اور ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھا ہے۔ پنجاب میں فواد چوہدری بھی کارکنوں کی توجہ لے رہے ہیں مگر وہ مرکزی سیاسی کمیٹی کو منی لانڈرنگ کمیٹی بھی کہہ رہے ہیں، شعیب شاہین کو تھپڑ مار رہے تووقاص اکرم پر پوری کے پی حکومت بیچنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔
ایک کاؤنٹر آرگومنٹ یہ ہے کہ ووٹ تو عمران خان کا ہے اور وہی ووٹ آٹھ فروری کو بھی پڑاسو ان اختلافات سے فرق نہیں پڑتا مگرتب کیا ہو اگر عمران خان خود جیل میں بیٹھ کے یہ گیم کررہے ہوں، انہیں آپس میں لڑوا رہے ہوں۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوتی ہے جب وہ بشریٰ بی بی کی بھی تعریفیں کرتے ہیں اور علیمہ بی بی کو بھی ہلہ شیری دیتے ہیں، اسی طرح تھپڑ کھانے والے شعیب شاہین سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں اور تھپڑ مارنے فواد چوہدری سے بھی۔ کیا یہ وہی بڑی گیم ہے جس کا ذکر پی ٹی آئی کے کارکن کرتے ہیں کہ وہ میں جیل میں بیٹھ کے کر رہے ہیں، خیر، اب تو یہ باتیں کہنے والے بھی نہیں رہے ورنہ وہ کیا دن تھے جب روزانہ بتایا جاتا تھا کہ جیل کا پچھلا دروازہ کھلا اور فلاں، فلاں نے عمران خان کے پاؤں پکڑ لئے۔ اب تو اپنے وکیلوں تک ملاقاتیں نہ ہونے کے رونے دھونے ہیں جو اس برس تو اسی طرح چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ رہ گئی تحریک تو یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں، یہ منہ اور مسور کی دال؟
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر پی ٹی ا ئی بہت سارے یہ ہے کہ رہے ہیں ہے اور کے لئے
پڑھیں:
پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-6
متین فکری
بظاہر سطح آب پر کوئی زیرو بم نظر نہیں آتا، حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ملکی حالات سے مطمئن مسلسل بیرونی دوروں میں مصروف ہیں اور سنا ہے کہ انہوں نے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ ان دوروں کے نتیجے میں بڑی حوصلہ افزا باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن رزلٹ بالکل الٹ نکل رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے حالات ناساز پا کر دھڑا دھڑا پاکستان چھوڑ رہی ہیں اور اب تک سترہ بڑی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر پاکستان سے رخصت ہوچکی ہیں۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف مطمئن ہیں کہ حالات قابو میں ہیں اور معیشت ترقی کررہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ شہباز شریف ہر بات مقتدرہ سے پوچھ کر کرتے ہیں اس لیے ان کی جانب سے غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے امریکا سے بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان میں کسی امریکا مخالف حکومت کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر وہ حکومت سیدھے طریقے سے رخصت نہ ہو تو وہ پاکستانی حکمران کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا جیسا کہ اس نے لیاقت علی خان اور جنرل ضیا الحق کے معاملے میں کیا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ سے رخصت ہوگئے اور انہیں جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔
بات لمبی ہوگئی ہم پھر اپنے اصل موضوع یعنی پاکستانی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ ان دنوں پختون خوا کی سیاست نے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس صوبے کی سیاست پر تحریک انصاف کا غلبہ ہے۔ پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی قطعی اکثریت ہے اس لیے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی صوبے میں اس کی حکومت چلی آرہی ہے حالانکہ دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں فارم 47 کا جادو ایسا چلا کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا۔ ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں صرف سترہ سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن فارم 47 کے بَل پردہ اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی اور وفاق میں اقتدار اسے مل گیا۔ یہی معاملہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی پیش آیا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہاں بھی فارم 47 کے طفیل اکثریت حاصل کرلی اور مریم نواز ہار کر بھی صوبے کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ سندھ کو سمجھوتے کے تحت پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا گیا، بلوچستان میں بھی ملا جلا معاملہ رہا۔ البتہ پختون خوا میں فارم 47 کا جادو نہ چل سکا۔ عوام نے جسے ووٹ دیا وہی کامیاب قرار پایا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے پختون خوا اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھی اور حکومت بھی اس کی قائم رہی۔ واضح رہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے بھی خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان تو جیل میں تھے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں معرکہ سر کرلیا۔ نئی حکومت علی امین گنڈا پور کی قیادت میں تشکیل دی گئی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان سے معاملات طے کرلیے اور گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے لگے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور عمران خان نے محسوس کیا کہ اب گنڈاپور کو تبدیل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو انہوں نے گنڈا پور سے استعفا طلب کرلیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنسوں میں بالعموم یہ بات شدت سے باور کراتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر کوئی صحافی کوئی سیاسی سوال کر بیٹھے تو وہ ’’نو پالیٹکس‘‘ کہہ کر اس کا جواب دینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن جب خیبر پختون خوا میں گنڈاپور کے استعفے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر فوراً پشاور پہنچے اور وہاں ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خیبر پختون خوا میں کوئی مخالف حکومت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ شاید یہ بھی فوج کو سیات سے دور رکھنے کی قابل تحسین کاوش تھی۔ الیکشن کمیشن تو ہمیشہ مقتدرہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ اشارہ ملتے ہی اس نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ارکان پی ٹی آئی سے ان کی سیاسی شناخت چھین کر انہیں آزاد ارکان قرار دے دیا۔ اس طرح انہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کی منڈی میں زبردستی دھکیل دیا گیا اور حکومت کا دھندا کرنے والوں کو دعوت دی گئی کہ منڈی میں مال موجود ہے جو چاہے خریدے۔ اِدھر مولانا فضل الرحمن بھی خیبر پختون خوا میں وزارتِ علیہ کے اُمیدوار تھے اور اپنے بھائی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں بیس ووٹ خرید کر دے دے تا کہ وہ اپنی حکومت بناسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگرچہ ان کے تعلقات ہمیشہ اُتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں لیکن آخری مرحلے میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی جیتتی ہے اور مولانا فضل الرحمن ہمیشہ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہایت اچھا موقع تھا وہ مولانا فضل الرحمن کو بیس ووٹ دے کر اپنا ممنونِ احسان بنا سکتی تھی۔ اگر پنجاب ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بیس کیا سو پچاس ووٹ بھی حاصل کرنا دشوار نہ تھا لیکن خیبر پختون خوا کا معاملہ مختلف ہے یہاں جو ووٹ خریدتا اس کی جان کے لالے پڑجاتے اس لیے ووٹوں کی خریدو فروخت کی کوشش ناکام رہی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی کثرت رائے سے پختون خوا کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ شکر ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔
اب سنا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے الیکشن کمیشن بہت ڈھیٹ ہے ممکن ہے کہ وہ یہ درخواست منظور کرلے اور سہیل آفریدی کو نااہل قرار دے دیا جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسمبلی میں تو پی ٹی آئی کی اکثریت برقرار ہے وہ نیا وزیراعلیٰ لے آئے گی۔ اسے کہتے ہیں ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا کرنا۔ لیکن اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، فوج کے لیے سیاست شجر ممنوع ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کورکمانڈر پشاور نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کرکے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بڑے دبنگ فیصلے کررہے ہیں، انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی درخواست دی تھی عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا چونکہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سیاسی معاملہ تھا اس لیے وزیراعلیٰ کی اپنے قائد سے ملاقات نہیں کرائی گئی حالانکہ اسے ملاقات میں کوئی حرج نہ تھا جس کمرے میں ملاقات کرائی جاتی اس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلات نصب ہیں پھر ڈر کس بات کا تھا۔ یہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حکومت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا مخالف سیاستدان سب اس کام میں بہت ماہر ہیں۔