عالمی طرز حکمرانی میں اصلاحات تاخیر کی متحمل نہیں ہو سکتی، چینی وزیر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اقوام متحدہ : چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عالمی حکمرانی میں اصلاحات اور بہتری کے بارے میں چین کا موقف اجاگر کیا۔بدھ کے روز اجلاس کے حوالے سے میڈیا بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ چین نے کثیرالجہتی کے احیاء اور ایک منصفانہ اور معقول عالمی گورننس سسٹم کی تعمیر کے حوالے سے چار تجاویز پیش کیں جن پر تمام فریقین کی جانب سے مثبت ردعمل آیا اور چار نکات پر اتفاق کیا گیا ۔ اول ، اقوام متحدہ کا کردار ناگزیر ہے۔ دوسرا، کثیرالجہتی کا رجحان ناقابل واپسی ہے۔ تیسرا، اتحاد اور ترقی کے رجحان کو نہیں روکا جا سکتا۔ چوتھا، عالمی طرز حکمرانی میں اصلاحات اور بہتری کسی تاخیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
وانگ ای نے اس بات پر زور دیا کہ چین کے صدر شی جن پھنگ کے تجویز کردہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے تصور ، گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو ، گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو نے عالمی حکمرانی کی اصلاحات اور بہتری میں چین کی دانشمندی کا کردار ادا کیا ہے۔ چاہے بین الاقوامی صورتحال میں جو بھی تبدیلیاں رونما ہوں ، چین کثیرالجہتی پر عمل جاری رکھے گا، اقوام متحدہ کے اختیارات کو مضبوطی سے برقرار رکھے گا اور ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے، قبضہ ختم کرنے کا وقت آ گیا، یو این سیکرٹری جنرل
نیویارک:اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازع کو خطرناک حد کو چھوتا ہوا بحران" قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری اور مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
وہ اقوام متحدہ میں منعقدہ دو ریاستی حل اور فلسطین کے پرامن حل سے متعلق اعلیٰ سطحی عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
انتونیو گوتریس نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے نام پر دہائیوں سے صرف عملدرآمد کی بجائے عمل کا بہانہ بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق بیانات، تقاریر اور قراردادوں کا ان لوگوں پر کوئی اثر نہیں رہا جو برسوں سے تباہی، قبضے اور جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے زور دیا کہ اس تنازع کا واحد منصفانہ اور دیرپا حل یہی ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کو دو آزاد، جمہوری ریاستوں کی شکل میں 1967 کی سرحدوں کے مطابق قائم کیا جائے، جہاں یروشلم دونوں کے لیے دارالحکومت ہو، اور یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ممکن ہو۔
انہوں نے ان عناصر کو تنقید کا نشانہ بنایا جو اس حل کی مخالفت کرتے ہیں اور کہا کہ متبادل کیا ہے؟ ایک ایسی ریاست جہاں فلسطینیوں کو برابر حقوق سے محروم رکھا جائے؟ جہاں وہ مسلسل قبضے اور عدم مساوات کے تحت زندگی گزاریں؟ جہاں انہیں ان کی زمین سے بے دخل کر دیا جائے؟ یہ امن نہیں، یہ انصاف نہیں، اور یہ ہرگز قابل قبول نہیں۔
کانفرنس کی ابتدائی نشست سے خطاب میں گوتریس نے کہا کہ یہ تنازع نسل در نسل جاری رہا ہے، اور بین الاقوامی قانون، قراردادوں اور سفارتی کوششوں کو مسلسل چیلنج کرتا رہا ہے۔ لیکن انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ مسئلہ ناقابلِ حل نہیں، اگر سیاسی قیادت اور جرات مند فیصلے سامنے آئیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ محض خیرسگالی کے بیانات سے آگے بڑھیں اور اس کانفرنس کو ایک فیصلہ کن موڑ بنائیں، تاکہ قبضے کا خاتمہ ممکن ہو اور دو ریاستی حل کی جانب ٹھوس پیش رفت کی جا سکے۔