Express News:
2025-07-26@15:22:56 GMT

اینٹی بائیوٹک مزاحمت، ایک سنگین بحران

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

عالمی ادارہ صحت نے اینٹی بائیوٹک مزاحمت کو انسانیت کے لیے سنگین عالمی مسائل میں شمار کیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت ( اے، ایم، آر ) سالانہ تیرہ لاکھ اموات کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں طبی پیچیدگیوں کے علاوہ یہ مسئلہ نظامِ صحت اور معیشت کے لیے بھی بڑا چیلنج ہے۔ امریکی سوسائٹی برائے مائیکروبیالوجی نے پاکستان میں ہونے والی اموات کی بڑی وجہ اینٹی بائیوٹک مزاحمت کو قرار دیا ہے۔

اینٹی بائیوٹک سے کیا مراد ہے؟

اینٹی بائیوٹکس ادویہ کو الیگزنڈر فلیمنگ نے 1928 ء میں دریافت کیا جو بیکٹیریا سے لاحق امراض میں مستعمل ہیں۔ ایک خاص کیمیائی عمل سے یہ جسم میں موجود بیکٹیریا کی نمو کو روکتی یا مکمل طور پر ختم کر دیتی ہیں۔ سائنسی دنیا میں اینٹی بائیوٹکس کو مختلف درجوں یا جنریشنز میں تقسیم کیا گیا ہے جو مخصوص انفیکشن میں موثر ثٓابت ہوتی ہیں۔

اینٹی بائیوٹک مزاحمت کیسے پیدا ہوتی ہے؟

بیکٹیریا اور انسانی خلیات میں ساخت کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹک جسم میں داخل ہوکر خون کے ذریعے مختلف حصوں میں پہنچتی ہیں اور انفیکشن پھیلانے والے بیکٹیریا کی نشونما کو روکتی ہیں۔ لیکن اگر ان اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری یا بے قاعدہ استعمال کیا جائے تو بیکٹیریا میوٹیشن کے ذریعے خاص جینیاتی تبدیلی کرکے ادویات کے خلاف اپنا دفاعی نظام مضبوط کرلیتے ہیں۔ نتیجتاً بیکٹیریا اس خاص اینٹی بائیوٹک سے مزاحم ہوجاتے ہیں اور ادویہ کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔

اینٹی بائیوٹک مزاحمت خطرناک کیوں؟

جب بیکٹیریا ایک مخصوص جنریشن کی اینٹی بائیوٹک سے مزاحم ہوجائیں تو وہ دوا بے فائدہ ہوجاتی ہے اور علاج کا عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں مرض کو اگلی جنریشن کی اینٹی بائیوٹک تجویز کی جاتی ہے جس کی مزاحمت کے بعد مزید اگلی جنریشن کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ ماہرین کے مطابق 2050ء تک بنی نوع انسان تمام دستیاب اینٹی بائیوٹکس سے مزاحم ہو جائے گا۔ یہ امر نہ صرف طبی لحاظ سے ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ عالمگیر سطح پر معاشی لحاظ سے بھی ایک سنجیدہ پہلو ہے۔

موسمی بیماریوں میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال درست؟

موسم اور آب و ہوا کی تبدیلوں کے باعث کھانسی، نزلہ اور زکام جیسے امراض بہت عام ہیں۔ ان امراض کو طبی دنیا میں مکمل بیماری کے طور پر نہیں لیا جاتا۔ یہ عموماً وائرل ہوتے ہیں اور جسم کے قدرتی مدافعتی نظام کی بدولت چند دن میں خود ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ان معمولی موسمی تبدیلیوں میں ہمارے ہاں پہلی یا دوسری کو چھوڑ کر تیسری یا چوتھی جنریشن کی اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ وائرل بخار سے اینٹی بائیوٹک ادویہ کا کوئی تعلق نہیں۔ اس بے قاعدہ اور غیر ضروری استعمال سے ہمارے مدافعتی نظام کو غیر معمولی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر کسی مریض کو شدید وائرل انفیکشن ہو تو وہ تب ہی ڈاکٹر یا فارماسسٹ کے مشورے سے ویکسین لگوا سکتا ہے۔

کیا ہر فرد اینٹی بائیوٹک لے سکتا ہے؟

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ہر انسانی جسم کا ایک خاص طبی مزاج اور بیکٹیریل فلورہ ہوتا ہے۔ لازمی نہیں کہ کوئی اینٹی بائیوٹک اگر کسی ایک فرد کے لیے درست ہے تو دوسرے کے لیے بھی فائدہ مند ہو گی۔ اس معاملے میں سب سے اہم اور بنیادی مرحلہ مرض کی مناسب تشخیص کا ہے۔ انفیکشن اور بیکٹیریا کی نشاندہی کے بعد ہی خاص جنریشن کی دوا استعمال کی جائے۔ ہر اینٹی بائیوٹک کا ایک مکمل کورس ہوتا ہے جس کی مقدار اور مدت انفیکشن کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ کورس عموماً تین، پانچ یا سات دن تک ہوسکتا ہے۔ بعض مرتبہ ایک ہی خوراک سے مرض کی علامات رفع ہوجاتی ہیں اور مزید دوائی لینے کی حاجت نہیں سمجھی جاتی۔ دراصل، ایک یا دو خوراک سے وقتی طور پر آرام تو مل جاتا ہے لیکن کچھ جرثومے رہ جاتے ہیں جو کورس مکمل نہ کرنے کی صورت میں دوبارہ پنپتے اور مزاحم ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی صورت میں نکلتا ہے اور انسانی قوتِ مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی وجوہ

نیشل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد سے زائد اینٹی بائیوٹک بغیر ضرورت کے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جدید طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث مرض کی مناسب اور بروقت تشخیص نہیں ہو پاتی اور جراثیم کش ادویات کو بے قاعدہ طریقے سے لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صاف پانی کی عدم دستیابی، نکاسی کا نامناسب انتظام اور مویشیوں میں ادویات کا بے جا استعمال بڑی وجوہ ہیں۔

قوانین کیا کہتے ہیں؟

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اینٹی بائیوٹک کنٹرول پروگرام کے تحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ( DRAP ) نے 2021 ء میں جراثیم کش ادویات کے غیر ضروری استعمال اور فروخت سے متعلق قوانین جاری کیے۔ مزید برآں اتھارٹی نے تمام اینٹی بائیوٹکس کی شیڈیول ڈی میں درجہ بندی کی ہے جس کے مطابق یہ ادویات مستند ڈاکٹر کی پرچی کے بغیر فروخت نہیں ہوسکتی اور ہر میڈیکل سٹور پر ان کی خرید و فروخت کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا۔

اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی عالمگیر سنگینی کے تحت ہر سال 18 سے 24 نومبر تک ہفتہْ آگاہی منایا جاتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عام عوام میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ مرض کی درست اور بروقت تشخیص کے بعد ہی ادویات کا استعمال کیا جائے۔ ہر فرد اپنے جسم کے مزاج اور ساخت کے مطابق ہی تجویز کردہ اینٹی بائیوٹک مقررہ مقدار میں استعمال کرے۔ اس کے علاوہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنا بھی بیماریوں سے دور رکھتا ہے اور ہم ادویات کے غیر ضروری استعمال سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

(مضمون نگار پنجاب یونیورسٹی ، لاہور کے کالج آف فارمیسی میں مدرس ہیں)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: استعمال کی ادویات کے جنریشن کی کے مطابق کیا جائے مزاحم ہو جاتا ہے ہیں اور کے لیے مرض کی

پڑھیں:

غزہ میں شدید غذائی بحران: بچے بھوک سے مرنے لگے، لوگ چلتی پھرتی لاشیں بن گئے

غزہ میں اسرائیل کے جاری محاصرے اور حملوں کے باعث بدترین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے، جہاں غذائی قلت کی وجہ سے پانچ میں سے ایک بچہ غذائی کمی کا شکار ہے۔ 

اقوام متحدہ، بین الاقوامی امدادی تنظیمیں، اور خود مقامی افراد اس صورتحال کو "انسانی پیدا کردہ قحط" قرار دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ میں لوگ نہ زندہ ہیں نہ مردہ بلکہ ’’چلتی پھرتی لاشیں‘‘ بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک 100 سے زائد افراد صرف بھوک کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔

انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرے تاکہ خوراک، دوا اور پینے کا پانی بروقت غزہ میں پہنچ سکے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، مقامی شہری ہانا المدہون نے بتایا کہ مارکیٹوں میں کھانا دستیاب نہیں اور اگر ہو بھی تو وہ اتنا مہنگا ہے کہ لوگ سونا اور ذاتی سامان بیچ کر آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔

ایک ماں نے بتایا کہ اس نے بچوں کو کچرے کے ڈھیر سے کھانے کے ٹکڑے تلاش کرتے دیکھا ہے، جب کہ ایک امدادی کارکن طہانی شہادہ نے کہا کہ ’’کھانا پکانا اور نہانا بھی اب پرُتعیش کام بن چکے ہیں۔‘‘

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ میں بھوک کی ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور یہ ’’انسانوں کی بنائی ہوئی قحط‘‘ ہے۔

دیئرالبلح سے حاملہ خاتون ولا فتحی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ دعا کر رہی ہیں کہ ان کا بچہ ان حالات میں دنیا میں نہ آئے، کیونکہ یہ حالات ’’ناقابلِ تصور آفت‘‘ سے کم نہیں۔

غزہ میں امدادی مراکز کے قریب اسرائیلی حملوں میں صرف گزشتہ دو ماہ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ امداد کے لیے جانے والے عام شہریوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ خوف کے مارے امدادی مراکز تک جانے سے بھی قاصر ہیں۔

برطانوی فلاحی ادارے سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے کہا کہ غزہ قحط کے قریب نہیں بلکہ "قحط زدہ" ہو چکا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • پاک فوج مزاحمت کی علامت اور خطے میں امن کی ضامن ہے، چین
  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • غزہ میں شدید غذائی بحران: بچے بھوک سے مرنے لگے، لوگ چلتی پھرتی لاشیں بن گئے
  • آزاد کشمیر میں آئینی اور سیاسی بحران سنگین ، ن لیگ نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کردیا
  • غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود
  • غزہ: سنگین غذائی قلت کے بعد برستے بارود نے ماحولیاتی بحران پیدا کردیا، مٹی اور پانی زہریلے ہوگئے
  • عمران خان مجبوری میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، ان کا کوئی اصولی موقف نہیں: اقرارالحسن
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی تو سخت مزاحمت کریں گے( ملی یکجہتی کونسل)
  • اسحاق ڈار نے بھی غزہ میں خوراک کی قلت دور کرنے کا مطالبہ کر دیا