اسرائیل کے وزیر ِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق کام شروع کردیا گیا ہے۔ ۱۶ فروری کو امریکی وزیر ِخارجہ مارکو روبیو سے ملاقات میں نیتن یاہو نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کو محفوظ مستقبل سے ہم کنار کرنے کا ایک یہی طریقہ ہے۔ واضح رہے کہ امریکی وزیر ِخارجہ مارکو روبیو نے اتوار کو مشرقِ وسطیٰ کا دورہ اسرائیل میں قدم رکھ کر شروع کیا۔ اسرائیلی قیادت سے مشاورت کے بعد وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی جائیں گے اور امید کی جارہی ہے کہ وہ اس دورے میں صدر ٹرمپ کے مذموم منصوبے کے لیے بھرپور حمایت یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مارکو روبیو نے کہا کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات سے جنگ بندی سے متعلق دوسرے دور کی بات چیت کھٹائی میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر ِاعظم کا کہنا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا رضاکارانہ ہوگا تاہم ناقدین کچھ اور کہتے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ فلسطینیوں کو بزور نکالا جائے گا اور اسرائیل نے غزہ میں بہت زیادہ تباہی اِسی لیے یقینی بنائی کہ فلسطینیوں کو اُن کے علاقوں میں دوبارہ بسانا ممکن نہ ہوسکے۔ امریکا اور اسرائیل دونوں ہی غزہ کی تباہی کو فلسطینیوں کے انخلا کے جواز کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ غزہ کے حوالے سے امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر ِاعظم کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر حماس نے اسرائیل کے باقی ماندہ مغویوں کو نہ چھوڑا تو ایک بار پھر ویسی ہی تباہی واقع ہوگی جیسی ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کے بعد برپا کی گئی۔ حماس کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ نہ مانی تو پھر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ غزہ کی جنگ بندی کا پہلا مرحلہ دو ہفتوں میں ختم ہونے والا ہے۔ دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت دو ہفتے قبل شروع ہونے کا امکان تھا۔ اس دوسرے مرحلے میں حماس کی طرف سے باقی ماندہ درجنوں اسرائیلی مغوی چھوڑے جائیں گے۔ اِن کے بدلے مزید فلسطینی قیدی بھی رہائی پائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے ہونا ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی اور اسرائیلی فوجی علاقے سے نکل جائیں گے۔
مشرقِ وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے فاکس نیوز کو بتایا ہے کہ غزہ کی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت یقینی طور پر ہوگی۔ اسرائیل، مصر اور قطر سے مثبت کالز ملی ہیں۔ مصر اور قطر ثالت ہیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں جن اسرائیلیوں کو چھوڑا جائے گا اُن میں ۱۹ فوجی بھی شامل ہیں۔ نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ سیکورٹی کابینہ کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی بات چیت پر مشاورت ہوگی۔ یاد رہے کہ امریکا نے اسرائیل کو ۹۰۰ کلو گرام والے ایم کے ۸۴ بموں کی شپمنٹ دے دی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے یہ شپمنٹ روک دی تھی۔ رواں ہفتے غزہ پر اسرائیل کی طرف سے تھوپی جانے والی جنگ کے ۵۰۰ دن بھی پورے ہو رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے بعد لڑائی دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا تاہم ایسا کرنا باقی ماندہ مغویوں کے لیے ڈیٹھ وارنٹ کے مترادف ہوگا۔
مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ جب تک حماس سلامت ہے، تشدد اور دہشت گردی کا امکان باقی رہے گا۔ اور یہ کہ حماس حکومت بھی چلاسکتی ہے۔ حماس نے گزشتہ ماہ جنگ بندی کے آغاز پر غزہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے پر زور دیا۔ غیر معمولی تباہی کے باوجود حماس چاہتی ہے کہ غزہ اُس کے کنٹرول میں رہے۔ نیتن یاہو نے حماس کو ’’چانس‘‘ دیا ہے کہ وہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دے اور اپنے تمام قائدین کو جلا وطن کردے۔ حماس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وہ اب بھی اس بات پر زور دے رہی ہے کہ غزہ پر حکومت فلسطینیوں کی ہونی چاہیے۔ حماس کے ترجمان عبداللطیف القنوع نے ایسوسی ایٹیڈ پریس سے گفتگو میں کہا ہے کہ حماس چاہتی ہے کہ غزہ میں یا تو فلسطینیوں کی قومی حکومت ہو یا پھر کوئی ٹیکنوکریٹک کمیٹی غزہ کا نظم و نسق سنبھالے۔
امریکا بضد ہے کہ غزہ اُس کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ امریکی وزیر ِخارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر کسی کے پاس غزہ کے لیے زیادہ معقول پروگرام یا پلان ہے تو پیش کرے۔ انہوں نے عرب ریاستوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی جنگ کے بعد کی صورتِ حال کے لیے کوئی ایسا منصوبہ پیش کریں تو اسرائیل کے لیے قابل ِ قبول ہو۔ مارکو روبیو کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عرب دنیا کو حماس کے جنگجوؤں سے لڑنے کے لیے فوجی بھی بھیجنے چاہئیں! عرب دنیا مخمصے کا شکار ہے۔ وہ نہ تو فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر کہیں اور آباد کرسکتی ہے اور نہ ہی حماس کے جنگجوؤں سے لڑنے کے معاملے میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوسکتی ہے۔ یہ دونوں ہی منظرنامے اُس کے لیے ڈراؤنے خواب جیسے ہیں۔ اگر عرب حکمرانوں نے فلسطینیوں کے خلاف جانے کی کوشش کی تو اُنہیں اندرونِ ملک انتہائی نوعیت کے ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں خطے کے معاملات مزید غیر متوازن ہوجائیں گے۔ مصر ۲۷ فروری کو ایک کانفرنس منعقد کر رہا ہے۔ وہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کسی ایسے منصوبے پر کام کر رہا ہے جس کے تحت فلسطینی اپنے علاقوں سے نہ نکلیں اور تعمیر ِنو کی بھی گنجائش پیدا ہو۔ انسانی حقوق کے گروپس نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینیوں کو اُن کے علاقوں سے نکالنا بین الاقوامی قانون کی شدید خلاف ورزی پر مبنی اقدام ہوگا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر کہیں اور بسانے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ (انڈیا ٹوڈے)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو نیتن یاہو نے مارکو روبیو اور اسرائیل دوسرے مرحلے جنگ بندی کے اسرائیل کے کہنا ہے کہ ہے کہ غزہ جائیں گے بات چیت غزہ کی کے بعد کے لیے
پڑھیں:
اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
ریاض احمدچودھری
مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّٰہ نے خطبہ حج میں دعا کی کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، ان کے شہدا کو معاف فرما، زخمیوں کو شفا دے اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دے، فلسطین کے دشمن بچوں کے قاتل ہیں، ان قاتلوں کو تباہ کر دے۔حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کے دوران میدان عرفات کی مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّہ نے کہا کہ اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
زمین اور آسمان کا مالک صرف رب ہے، تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جنت کی نوید سنائی گئی ہے، اے ایمان والوں اپنے ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھو، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے دور رہو، اللہ اور اس کے دین پر قائم رہو، اللہ اور اس کے رسول ۖ کی تعلیمات پر عمل کرو۔’بدعت اور غیبت سے دور رہو۔ رب کے سوا غیر کو مت پکارو۔ رب کے سوا کسی غیر کی عبادت مت کرنا۔ نبی اکرم ۖ اللہ کے آخری رسول ہیں، وہ خاتم النبین ہیں۔ اللہ اور بندے کا تعلق نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ نے فرمایا تعاون کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے والدین سے نیکی کرنا اور سچ بولنا ہے۔’خطبہ حج میں کہا گیا کہ یتیموں، مساکین، بیواؤں اور ہمسایوں کے ساتھ شفقت فرماؤ، اللہ کسی تکبر اور غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، شیطان تمہارے درمیان دوریاں ڈالتا ہے۔’نماز قائم کرو، زکوة ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور حج کرو۔ روزہ صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ، اللہ تمہارا حج قبول کرے۔ خادم الحرمین شریفین نے ضیوف الرحمان کیلیے بہترین انتظامات کیے۔ حجتہ الوداع میں نبی پاک ۖ نے حج کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حضرت محمد ۖ نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کیا۔ حضرت محمد ۖ نے شیطان کو کنکریاں مار کر تزکیہ نفس کے بارے میں بتایا۔’امام مسجد الحرام نے کہا کہ ان دنوں میں اللہ کا تذکرہ کرو یہی تمہارے دن ہیں، اللہ خوش ہوتا ہے کہ میری خاطر جمع ہوئے ہیں، آپ اس مقام پر ہیں جس میں دعا قبول ہوگی، اللہ ہمارے مناسک حج کو قبول فرما، اے اللہ ہمارے گھروں میں عافیت فرما وطن کی حفاظت فرما۔ امت مسلمہ اسی صورت میں بام عروج تک پہنچ سکتی ہے جب قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے اورہرپہلومیں انہیں سرچشموں سے راہ ہدایت حاصل کریں ۔ امت مسلمہ اپنے اصلی منصب تبلیغ و دعوت کی طرف پلٹ کر اورجہادوقتال کے راستے کواپناکر اس دنیامیں اپنا ایک مقام حاصل کر سکتی ہے۔
آنحضرت محمد ۖ محسن انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپۖ کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اْس نے ہمیں آپۖ کا اْمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپۖ پر ایمان لائے گا اور آپۖ کی اطاعت و پیروی کرے گا اْسے دونوں جہانوں میں آپۖ کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ۖکا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم ۖ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ ۖکی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز ِفکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنمائوں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ « بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے۔”(النمل6)
آج امت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اشرافیہ کی غفلت، نادانی، عیاشی اور ملت فراموشی ہی ہے۔ جہاں تک متوسط و نادار طبقے کا تعلق ہے تو یہ بے چارے کسی طرح دو وقت کی روٹی کما کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنے معاملات کو اسلامی نہج پر ڈھالنے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو بڑے بڑے مذہبی فلسفوں سے غرض ہے نہ دین کے مقابلے میں دولت کا گھمنڈ، نہ ہی سیاست کے نام پر دین و ملت کی سودا گری کا ڈھنگ۔ اسلام کا سب سے بہتر گروہ عام مسلمان ہیں ،یعنی مسلمان عوام۔ وہ اسلام سے متعلق بحیثیت دین اور فلسفہ کے بہت کم جانتے ہیں اور ان کی بہت سی چیزیں اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن وہ ایک قابلِ شناخت اسلامی زندگی گزارتے ہیں ،جس کا سبب ان کا اسلام پر پختہ یقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔