پاکستانی خارجہ پالیسی کو ’’ست‘‘ سلام
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اڑوس پڑوس میں دشمن گنیں تانے کھڑا ہے،بھارت نے ہمیں دل سے تسلیم ہی نہیں کیا وہ ہماری کب خیر چاہے گا اب افغانستان جو ہماری سب سے محفوظ ترین سرحد تھی میں بھی فتنہ سر اٹھانے لگا ہے انڈیا افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان مخالف قوتوں کو فنڈنگ کر رہا ہے کالعدم تنظیمیں اس کی آلہ کار بنی ہیں،آئے روزافغان بارڈرپرہمارے جوان وطن پر قربان ہو رہے ہیں دوسری طرف سپہ سالار کا عزم ہے کہ جب تک قوم اور بالخصوص نوجوان ساتھ کھڑے ہیں پاک فوج کبھی نہیں ہارے گی، ہمارے لیے پاکستانیت سب سے اہم ہے، ہم فتنہ الخوارج کے فسادیوں سے لڑ رہے ہیں، اسلام کی غلط تشریح کرنے والے گمراہ کن گروہ کو کبھی ملک پر اپنی اقدار مسلط نہیں کرنے دیں گے،ہم کامریڈز کی طرح لڑتے ہیں، فوج کا یہی تو مزہ ہے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون سندھی، کون پنجابی، کون بلوچی اور کون پٹھان ہے، ہم بس ساتھیوں کی طرح لڑتے ہیں، ہمارے لیے صرف پاکستانیت ہی اہم ہے اور ہمیں اس سے محبت ہے،آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ گمراہ گروہ کو ہم کبھی ملک پر اپنی اقدار مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے پاکستانی فوج دہشت گردی کو کچلنے کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے اور ہزاروں پاکستانی خود دہشت گردی کا شکا ر ہو چکے ہیں، پاکستان کے بہترامیج کو دنیا کے سامنے کس کوپیش کرنا ہوتا ہے اوریہ سب کام وزارتِ خارجہ کے ہوتے ہیں لیکن ایسا نہ کر کے موجودہ حکومت پاکستان کی رسوائی کا باعث بن رہی ہے، سیاستدان اپنے اپنے مفادات میں گم ایک دوسرے کی ٹانگیں توڑنے میں مصروف ہیں امریکہ بھارت گٹھ جوڑہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے جارحانہ جنگی عزائم رکھنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکا کے پہلے سرکاری دورے میں جوہری توانائی، لڑاکا طیارے اور اربوں ڈالر کے فوجی معاہدے کرلیے جس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑے گا، امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم سے ملاقات میں لڑاکا طیارے اور جدید فوجی ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدے طے پاگئے ہمارا دفتر خارجہ ایک آدھ بیان دیکر سمجھتا ہے بڑا معرکہ مار لیاٹرمپ ممبئی حملوں کے ملزمان مانگ رہا ہے دفتر خارجہ کوچاہیے تھا کہ سمجھوتہ ایکسپریس جلانے کے ملزم بھی مانگے ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا حال یہ ہے کہ آج اپنے بھی پرائے ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے آج افغانستان بھی ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے جس کی ہر مشکل میں مدد کی اور 40 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی بدلے میں دہشت گردی آئی،منشیات فروشی کا دھندا شروع ہوا،جرائم بڑھے ہمارے نوجوان غلط پٹری پرچل پڑے احسانوں کا بدلہ اس طرح چکایا گیا کہ آج کرکٹ کے میدانوں میں پاکستانیوں کی تذلیل معمول ہے پاکستانی سیاستدانوں کو ملک کی کوئی فکر نہیں اقوام متحدہ نے بھی افغانستان سے پاکستان مخالف سرگرمیوں کی تصدیق کی ہے اس کے باوجود ہم نے کوئی قدم نہیں اٹھایا غیر ملکی دورے بھی سیر سپاٹے کیلئے کیے جا تے ہیں پی ڈی ایم کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو پج پج کے امریکہ اور دیگر ممالک میں جاتے تھے لیکن افغانستان جانا گوارہ نہ کیا کہ جو افغانستان سے دہشت گردی ہو رہی ہے کے خلاف لائحہ عمل طے کیا جا سکے وزیر خارجہ اسحاق ڈارہی بتا دیں کہ بڑھتی دہشت گردی کے سلسلے میں افغان حکومت سے ملاقات کیوں نہیں کی کیوں طالبان سے احتجاج ریکارڈنہیں کروایا گیا پاکستان ایک واحد ملک ہے کہ جس کا جہاں جی چاہے منہ اٹھائے چلا آتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی موبائل سمز کا سنگین جرائم کے لیے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے، سائبر کرائمز میں غیر ملکی موبائل سمز کا استعمال ہو رہا ہے،دہشت گردی، مالی فراڈ، چائلڈ پورنوگرافی سمیت دیگر سنگین جرائم میں غیرملکی موبائل سمز کا استعمال کیا جارہا ہے اور یہ سمز مارکیٹ میں عام دستیاب ہیں، جرائم پیشہ افراد یہی سمز استعمال کررہے ہیں، پاکستان میں سب سے زیادہ انگلینڈ کی سمز استعمال ہورہی ہیں، جرائم پیشہ افراد خود کو چھپانے کے لیے غیرملکی سمز کا بڑے پیمانے پر استعمال کررہے ہیں جس سے ناکام خارجہ پالیسی پر ست سلام بھیجنے کو دل کرتا ہے مولوی حقانی اور ملاں ہیبت اللہ کو ہم اپنا سمجھتے ہیں تو ان سے کیوں نہ اس بارے میں بات کی گئی ؟کیوں نہ چین سے اس بارے میں مدد نہ لی گئی یہ سب ناکام خارجہ پالسی کی بدولت ہے آج سعودیہ جیسا دوست ملک بھی اسی وجہ سے ہم سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے اور جب وہ کاسہ نہیں بھرتا تو سپہ سالار کو بھیجتے ہیں یہ ان کی مہربانی ہے کہ وہ ہر بار’’وردی‘‘ کی لاج رکھ لیتا ہے ورنہ سیاسی جماعتوں نے ملک کا جو ستیا ناس کیا ہے جس طرح ملک کی ٹانگیں اور بازو مروڑے ہیں جس طرح ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے جس طرح عدلیہ کا حلیہ بگاڑا ہے جس طرح زباں بندی کیلئے پیکا ایکٹ لایا گیا ہے یہ ملک کے مفاد میں نہیں اورتو اورسیاستدانوں اورآئی ایم ایف کی مہربانی سے آج ملکی قرضے 88 ہزار ارب تک جا پہنچے ہیں اب تو آئی ایم ایف دیگر اداروں پرتسلط کے بعد اعلیٰ عدلیہ کو بھی تابع کرنا چا ہتا ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے خود مختار ہیں اور ہماری خارجہ پالیسی کہاں گھاس چرنے گئی ہے انگریز ناول نگار چارلس لٹویج ڈجسن کا 1865ء میں تحریر کردہ ناول جس میں ایلس نامی لڑکی خرگوش کے بل میں گھُس کر ایک عجیب و غریب دنیا میں پہنچ جاتی ہے جہاں اس کا واسطہ مختلف قسم کی مخلوق سے پڑتا ہے ہمیں آج تک اپنی منزل کاہی پتہ نہ چل سکا اور یہی چیز ہماری خارجہ پالیسی کا پہلا المیہ ثابت ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: خارجہ پالیسی سمز کا ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
ریاض میں پاکستان انویسٹرز بزنس فورم کی پروقار تقریب
ریاض(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 جولائی 2025ء)سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پاکستان انویسٹرز بزنس فورم کے زیر اہتمام ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی سفیر پاکستان برائے سعودی عرب احمد فاروق تھے۔تقریب میں پاکستانی بزنس کمیونٹی کی سرکردہ شخصیات، سفارت خانے کے افسران اور دیگر معزز مہمانوں نے بھرپور شرکت کی، جب کہ جدہ سے صدر پاکستان انویسٹرز فورم، چوہدری شفقت محمود نے بھی اپنے وفد کے ہمراہ خصوصی طور پر شرکت کی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سفیر پاکستان احمد فاروق، چیئرمین فورم رانا عبدالروف، وائس چیئرمین خالد محمود راجا، صدر غلام صفدر، صدر انویسٹرز فورم جدہ چوہدری شفقت محمود اور منسٹر برائے ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ ڈاکٹر سغفتہ زرین نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی، سرمایہ کاری اور کاروباری روابط کو مزید مستحکم بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔(جاری ہے)
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب میں موجود پاکستانی بزنس کمیونٹی ملک کی معیشت میں مثبت کردار ادا کر رہی ہے، اور اس تعاون کو مزید وسعت دینے کے لیے پاکستان انویسٹرز بزنس فورم جیسے پلیٹ فارمز کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔تقریب کے دوران پاکستان انویسٹرز بزنس فورم کی جانب سے ایک جدید آن لائن پورٹل کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا گیا، جس کا مقصد پاکستانی کاروباری برادری کو ایک پلیٹ فارم پر لانا، ان کے درمیان روابط مضبوط بنانا اور مختلف سہولیات کو ڈیجیٹل انداز میں فراہم کرنا ہے۔ تقریب کے اختتام پر کمیونٹی کے اُن فعال اراکین کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں جنہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں اور فورم کی سرگرمیوں کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا۔