ادھورا سچ اور جھوٹے سچے وعدے
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
کس کس کے منہ پر ہاتھ رکھو گے ؟ کس کس کی زبان بندی کے پروانے جاری کروگے ؟ کس کس کو دنیا کی نظروں سے غائب کروگے ؟
انسانی فطرت ہے وہ زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکتا ،فقط اپنے واسطے ہی سے نہیں ،اس جیسے اور انسانوں پر جیتے جی قدغن لگانے پر دنیا چپ کی دائمی بکل مار کر نہیں رہ سکتی ،فطرت کے قا نون کو توڑنے کی بھی کچھ حد ہوتی ہے پھر قانون خود بول اٹھتا ہے ۔جیسے حاضر سروس جج جناب جسٹس محسن اختر کیانی بول اٹھے ہیں ۔
شہرت بخاری نے کہا تھا کہ دروغ مصلحت آمیز جب عروج پہ ہوتو آس پاس کہیں چیختی ہے سچائی عدلیہ کے خاموش اژدہام میں سے ایک شخص جسٹس محسن اختر کیانی آخر بول ہی پڑے ہیں کہ’’انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں ،عدلیہ ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ سمیت سب ستون گر چکے ہیں، عدلیہ ہوا میں معلق ہے،مگر ہم مایوس نہیں ‘‘ جناب محسن اختر کیانی مایوس نہیں ہونگے ،نہ ہوں ، مگر پورا سچ یہ ہے کہ پوری قوم ہی مایوس ہے ،ہاں مگر جناب سپیکر کتنے دیدہ دلیر ہیں کہ ایک معزز جسٹس کے سامنے ہی نہیں ،پوری قوم کے روبرو ’’عدلیہ کی طرف سے پارلیمنٹ کی ہتک ہوئی ہے‘‘
اور رہی قوم ،تو اس کے سامنے تو وہ یا ان کی حکومت جوابدہ ہی نہیں کہ یہ ووٹ کے رستے نہیں کھوٹ کے رستے پارلیمنٹ میں پہنچا ئے گئے ہیں ۔یہ جب اپنے ضمیر کے سامنے ہی جوابدہ نہیں تو کسی اور کی بات تو بہت دور ہوجاتی ہے ۔اور یہ المیہ فقط جناب سپیکر کا نہیں پوری پارلیمنٹ کا ہے ، ریاست کے ہر منصبدار کا ہے ،اسٹیبلشمنٹ کے ہر فرد کا ہے جو جمہوریت کی ہی نہیں معیشت کی کشتی کو بربادی کے دہانے پر کھڑا کردینے والوں کو ملک کا کوتوال بنوانے کا ذمہ دار ہے۔
پہلے سیاستدان ضمیر کے قیدی ہوتے تھے اب فقط صحافی ضمیر کے قیدی ہیں مگر کچھ! جس ملک کا وزیراعظم ببانگ دہل دروغ گوئی کو عار نہ سمجھتا ہو ،اس ملک میں سچ کی زبان کیوں کر سلامت رہنے کا قانون روا رکھا جائے۔یہ ملک کالے کوٹ والے کی شب وروزکی محنت اور عوام کی بے پناہ قربانیوں سے بنا تھا ،اسے بنانے میں کسی جماعت کا کلیدی کردار نہیں تھا ہاں وہ نحیف نزار بوڑھا بیمار قائد،جاگیر داروں اور ساہوکاروں کے چنگل سے مظلوم مسلمانوں کو آزاد کرانے کے لئے وڈیروں کی جماعت مسلم لیگ کا پرچم ضرور استعمال کیا کرتا تھا اس اقرار کے ساتھ کہ’’میرے جیب میں کھوٹے سکے ہیں ‘‘ اور کھوٹے کو کھرا کون کرپایا یہ پون صدی کے سفر میں ایک پل بھی عیاں نہ ہوسکا اور نہ اس کا امکان ہے کہ اب کھوٹے سکے کسی ایک کی جیب میں نہیں،ٹکسال کے پیٹ میں ڈھلتے ہیں ۔اور ساری سیاسی جماعتیں ٹکسال ہی ہیں جس میں کھوٹے سکے ہی نہیں منافقت کی ساری کرنسیاں تیارہوتی ہیں جن سے ہارس ٹریڈنگ کا کام لیا جاتا ہے۔
ذکرعزت مآب جسٹس محسن اختر کیانی کا ہو رہا تھا جن کے سچ نے سےحکومت کا بھانڈا تو بیچ چوراہے کے پھوٹ گیا۔کل ایاز صادق بھی معذرت خواہانہ لہجے میں بات کریں گے جب ان کی باز پرس کا وقت آئے گا ۔یہ آخر سپیکر صاحب کو سوجھی ہی کیا کہ ایسا راگ الاپنے لگے جس کے ساز کا اختیار ان کے پاس تو کیا ان کے وزیراعظم تک کے اختیار میں بھی نہیں ۔ویسے نہ جانے عزت مآب جسٹس صاحب کے منہ سے حرف گیری کے الفاظ کیوں ادا ہو گئے ورنہ اس نظام بے سروپا میں بے خانماں جیتے ہیں، چپ کی چادر اوڑھ کے زندہ رہتے ہیں ۔رہے ہم تو :
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
پنجاب سے پولیس نہیں سنبھل رہی اور وفاق سے،معیشت، نعروں کی سیاست چل رہی ہے،اشتہاری مہم باباکی تصویر بغیر ممکن نہیں کہ انہیں بھی تو زندہ رکھنا ہی ہے جو جیتے جی مار دیئے گئے ہیں۔مریم نواز نوجوانوں کو بلا سود 10 لاکھ سے 3 کروڑ تک کا قرضہ دیں گی،سندر اقدام ہے مگر یہ پیسہ کس کے گھر جائے گا،ان امیر زادوں کے جو راتیں موویز دیکھنے میں گزارتے ہیں اور دن نیند کے مزے لینے میں ،کسی غریب پڑھے لکھے خاندان میں غربت ہی ناچے گی کہ اس خاندان کے بچے عرب ممالک میں عزت نفس لٹاتے پھرتے ہیں یا امریکہ ‘برطانیہ اور کینیڈا و نیوزی لینڈ میں گوریوں کے ہاتھوں نصیب بنانے کے چکر میں ،وہ بھی اپنے سے بیس ،تیس سال بڑی ۔
بہرحال اپنے ملک کے لئے وہ بھی زرمبادلہ بھیج کرخوشحالی کے خواب دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ہونہار بھتیجی ملکر نعروں کی سیاست کا جوسماں سجائے ہوئے ہیں ،دیکھیں وہ کب تک قائم رہتا ہے۔بہرحال اورکچھ ہو نہ ہو تخت لاہور کی شاہراہوں پر سے حکمرانوں کا دھیان نہیں ہٹتا بھلے دوسرے شہروں کی ادھڑی ہوئی سڑکیں تعفن کی آماجگاہ بنی رہیں ۔بھلا ہو عزت مآب جسٹس کاجنہوں نے بے زبانوں کو زباں دینے کا عندیہ بخشا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: محسن اختر کیانی ہی نہیں ہیں کہ
پڑھیں:
انکار کیوں کیا؟
ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔
’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔
’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔
’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔
’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔
’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔
انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔
اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔
جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔
یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ، اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔
ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔
وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔
پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔
دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
یہ وہی ہیں جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔
جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔
دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟
یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔ خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔
کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔
کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔ وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔
انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔ جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی پر، اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔
یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔
انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔
کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟ کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں