Daily Ausaf:
2025-11-03@05:56:56 GMT

ادھورا سچ اور جھوٹے سچے وعدے

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

کس کس کے منہ پر ہاتھ رکھو گے ؟ کس کس کی زبان بندی کے پروانے جاری کروگے ؟ کس کس کو دنیا کی نظروں سے غائب کروگے ؟
انسانی فطرت ہے وہ زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکتا ،فقط اپنے واسطے ہی سے نہیں ،اس جیسے اور انسانوں پر جیتے جی قدغن لگانے پر دنیا چپ کی دائمی بکل مار کر نہیں رہ سکتی ،فطرت کے قا نون کو توڑنے کی بھی کچھ حد ہوتی ہے پھر قانون خود بول اٹھتا ہے ۔جیسے حاضر سروس جج جناب جسٹس محسن اختر کیانی بول اٹھے ہیں ۔
شہرت بخاری نے کہا تھا کہ دروغ مصلحت آمیز جب عروج پہ ہوتو آس پاس کہیں چیختی ہے سچائی عدلیہ کے خاموش اژدہام میں سے ایک شخص جسٹس محسن اختر کیانی آخر بول ہی پڑے ہیں کہ’’انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں ،عدلیہ ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ سمیت سب ستون گر چکے ہیں، عدلیہ ہوا میں معلق ہے،مگر ہم مایوس نہیں ‘‘ جناب محسن اختر کیانی مایوس نہیں ہونگے ،نہ ہوں ، مگر پورا سچ یہ ہے کہ پوری قوم ہی مایوس ہے ،ہاں مگر جناب سپیکر کتنے دیدہ دلیر ہیں کہ ایک معزز جسٹس کے سامنے ہی نہیں ،پوری قوم کے روبرو ’’عدلیہ کی طرف سے پارلیمنٹ کی ہتک ہوئی ہے‘‘
اور رہی قوم ،تو اس کے سامنے تو وہ یا ان کی حکومت جوابدہ ہی نہیں کہ یہ ووٹ کے رستے نہیں کھوٹ کے رستے پارلیمنٹ میں پہنچا ئے گئے ہیں ۔یہ جب اپنے ضمیر کے سامنے ہی جوابدہ نہیں تو کسی اور کی بات تو بہت دور ہوجاتی ہے ۔اور یہ المیہ فقط جناب سپیکر کا نہیں پوری پارلیمنٹ کا ہے ، ریاست کے ہر منصبدار کا ہے ،اسٹیبلشمنٹ کے ہر فرد کا ہے جو جمہوریت کی ہی نہیں معیشت کی کشتی کو بربادی کے دہانے پر کھڑا کردینے والوں کو ملک کا کوتوال بنوانے کا ذمہ دار ہے۔
پہلے سیاستدان ضمیر کے قیدی ہوتے تھے اب فقط صحافی ضمیر کے قیدی ہیں مگر کچھ! جس ملک کا وزیراعظم ببانگ دہل دروغ گوئی کو عار نہ سمجھتا ہو ،اس ملک میں سچ کی زبان کیوں کر سلامت رہنے کا قانون روا رکھا جائے۔یہ ملک کالے کوٹ والے کی شب وروزکی محنت اور عوام کی بے پناہ قربانیوں سے بنا تھا ،اسے بنانے میں کسی جماعت کا کلیدی کردار نہیں تھا ہاں وہ نحیف نزار بوڑھا بیمار قائد،جاگیر داروں اور ساہوکاروں کے چنگل سے مظلوم مسلمانوں کو آزاد کرانے کے لئے وڈیروں کی جماعت مسلم لیگ کا پرچم ضرور استعمال کیا کرتا تھا اس اقرار کے ساتھ کہ’’میرے جیب میں کھوٹے سکے ہیں ‘‘ اور کھوٹے کو کھرا کون کرپایا یہ پون صدی کے سفر میں ایک پل بھی عیاں نہ ہوسکا اور نہ اس کا امکان ہے کہ اب کھوٹے سکے کسی ایک کی جیب میں نہیں،ٹکسال کے پیٹ میں ڈھلتے ہیں ۔اور ساری سیاسی جماعتیں ٹکسال ہی ہیں جس میں کھوٹے سکے ہی نہیں منافقت کی ساری کرنسیاں تیارہوتی ہیں جن سے ہارس ٹریڈنگ کا کام لیا جاتا ہے۔
ذکرعزت مآب جسٹس محسن اختر کیانی کا ہو رہا تھا جن کے سچ نے سےحکومت کا بھانڈا تو بیچ چوراہے کے پھوٹ گیا۔کل ایاز صادق بھی معذرت خواہانہ لہجے میں بات کریں گے جب ان کی باز پرس کا وقت آئے گا ۔یہ آخر سپیکر صاحب کو سوجھی ہی کیا کہ ایسا راگ الاپنے لگے جس کے ساز کا اختیار ان کے پاس تو کیا ان کے وزیراعظم تک کے اختیار میں بھی نہیں ۔ویسے نہ جانے عزت مآب جسٹس صاحب کے منہ سے حرف گیری کے الفاظ کیوں ادا ہو گئے ورنہ اس نظام بے سروپا میں بے خانماں جیتے ہیں، چپ کی چادر اوڑھ کے زندہ رہتے ہیں ۔رہے ہم تو :
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
پنجاب سے پولیس نہیں سنبھل رہی اور وفاق سے،معیشت، نعروں کی سیاست چل رہی ہے،اشتہاری مہم باباکی تصویر بغیر ممکن نہیں کہ انہیں بھی تو زندہ رکھنا ہی ہے جو جیتے جی مار دیئے گئے ہیں۔مریم نواز نوجوانوں کو بلا سود 10 لاکھ سے 3 کروڑ تک کا قرضہ دیں گی،سندر اقدام ہے مگر یہ پیسہ کس کے گھر جائے گا،ان امیر زادوں کے جو راتیں موویز دیکھنے میں گزارتے ہیں اور دن نیند کے مزے لینے میں ،کسی غریب پڑھے لکھے خاندان میں غربت ہی ناچے گی کہ اس خاندان کے بچے عرب ممالک میں عزت نفس لٹاتے پھرتے ہیں یا امریکہ ‘برطانیہ اور کینیڈا و نیوزی لینڈ میں گوریوں کے ہاتھوں نصیب بنانے کے چکر میں ،وہ بھی اپنے سے بیس ،تیس سال بڑی ۔
بہرحال اپنے ملک کے لئے وہ بھی زرمبادلہ بھیج کرخوشحالی کے خواب دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ہونہار بھتیجی ملکر نعروں کی سیاست کا جوسماں سجائے ہوئے ہیں ،دیکھیں وہ کب تک قائم رہتا ہے۔بہرحال اورکچھ ہو نہ ہو تخت لاہور کی شاہراہوں پر سے حکمرانوں کا دھیان نہیں ہٹتا بھلے دوسرے شہروں کی ادھڑی ہوئی سڑکیں تعفن کی آماجگاہ بنی رہیں ۔بھلا ہو عزت مآب جسٹس کاجنہوں نے بے زبانوں کو زباں دینے کا عندیہ بخشا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: محسن اختر کیانی ہی نہیں ہیں کہ

پڑھیں:

پارا چنار حملہ کیس: راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کی جسٹس مسرت ہلالی نے پارا چنار حملہ کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق پارا چنار قافلے پر حملے کے دوران گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔

دورانِ سماعت سی ٹی ڈی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ واقعے میں 37 افراد جاں بحق ، 88 افراد زخمی ہوئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اس واقعہ میں ایک ہی بندے کی شناخت ہوئی ہے کیا ؟ جو حملہ کرنے پہاڑوں سے آئے تھے، ان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا؟

کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، ڈی جی آئی ایس پی آر

وکیل نے جواب دیا کہ ان میں سے 9 لوگوں کی ضمانت سپریم کورٹ نے خارج کی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ اب کیا صورت حال ہے، راستے کھل گئے ہیں ؟ ، جس پر وکیل نے بتایا کہ صبح 9 بجے سے دن 2 بجے تک راستے کھلے رہتے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سی ٹی ڈی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، آپ اپنا دشمن پہچانیں، صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔

بعد ازاں عدالت نے ملزم کو وکیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • افغان ترجمان کے دعوے جھوٹے، وزارت اطلاعات: ایک اور بھارتی سازش بے نقاب: پاکستانی مچھیرے کو انڈین خفیہ اداروں نے دباؤ میں لا کر سکیورٹی فورسز کی وردیاں، سمز، کرنسی لانے کو کہا، وفاقی وزرا
  • افغان طالبان کے جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے، دہشتگردی کیخلاف اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل
  • پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
  • نئی گاج ڈیم کی تعمیر کا کیس،کمپنی کے نمائندے آئندہ سماعت پر طلب
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ
  • عمران، بشریٰ کو سزا سنانے والے جج کی تعیناتی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
  • بلوچستان ہائیکورٹ میں 2 ایڈیشنل ججز کی تقرری کے لیے نامزدگیاں طلب
  • سپریم کورٹ: پاراچنار حملہ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی
  • پارا چنار حملہ کیس: راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ