اسلام ٹائمز: لبنان کے وزیراعظم نواف سلام، صدر جوزف عون اور اسپیکر نبیہ بری نے گذشتہ دن غاصب صیہونی رژیم کا فوجی قبضہ ختم کرنے کے لیے ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ صدر کی جانب سے جاری کردہ بیانیے میں کہا گیا ہے کہ لبنان نے اب تک قرارداد 1701 پر پوری طرح پابندی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ اسرائیل مسلسل اس قرارداد کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے اور اس کی نظر میں اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لبنان کے تینوں سربراہان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ لبنان آرمی اور اقوام متحدہ کی فورسز یونیفل بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور وہ قومی حاکمیت کے تحفظ اور جنوبی لبنان کے عوام کی حمایت کے ذریعے ان کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنائیں گے۔ لبنانی عوام اسلامی مزاحمت کو اپنی جان اور مال کا قانونی محافظ سمجھتے ہیں۔ تحریر: علی احمدی
غاصب صیہونی فوج نے گذشتہ روز تل ابیب کے سیاسی و فوجی حکام کی جانب سے پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت جنوبی لبنان سے فوجی انخلاء کا آغاز کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنوبی لبنان کے پانچ حصوں میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گی۔ ان پانچ علاقوں میں صیہونی فوج نے واچ ٹاور قائم کر رکھے ہیں۔ صیہونی فوج کے ترجمان نادو شوشانی نے ان پانچ واچ ٹاورز میں فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان پانچ جگہوں پر واچ ٹاورز کی موجودگی مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصوں میں اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ یاد رہے حزب اللہ لبنان سے جنگ کے بعد مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصوں سے 60 ہزار کے لگ بھگ یہودی آبادکار نقل مکانی کر کے جنوبی حصوں کی طرف جانے پر مجبور ہو گئے تھے جو اب تک واپس نہیں آ سکے۔
نقل مکانی کرنے والے یہ یہودی آبادکار صیہونی حکومت کے لیے شدید بحران کا باعث بن چکے ہیں۔ عبری ذرائع ابلاغ نے جنوبی لبنان کے ان پانچ علاقوں کو اسٹریٹجک قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: "سرحدی یہودی بستی شلومی کے سامنے لبونہ کے قریب پہاڑی، زاریت کے سامنے جبل بلاط پہاڑی، ایویوم اور ملکیا کے سامنے ایک اور پہاڑی، مارگیلوت کے سامنے پہاڑی اور متولا کے قریب پہاڑی۔" لبنان کے المنار ٹی وی نے پیر کے دن اعلان کیا کہ جنوبی لبنان اسلامی مزاحمت کے شہداء کے خون کی برکت سے آزاد ہو جائے گا۔ اسی دن لبنان کے صدر جوزف عون نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ 18 فروری تک تمام قابض فوجیوں کو نکال باہر کرنے کے لیے تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لائے جائیں گے۔ اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی معاہدے میں طے پایا تھا کہ 60 دن کے اندر تمام صیہونی فوجی لبنان سے نکل جائیں گے۔
7 اکتوبر 2023ء کے دن انجام پانے والے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد غاصب صیہونی رژیم نے اپنی جنگی مشینری کا رخ غزہ کی پٹی کی جانب موڑ دیا اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف کسی قسم کے انسانیت سوز ظلم سے دریغ نہیں کیا۔ اس موقع پر شہید سید حسن نصراللہ کی سربراہی میں حزب اللہ لبنان نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر صیہونی دباو کم کرنے اور حماس کی حمایت کی خاطر اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں اور فوجی ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائل حملوں سے نشانہ بنانے کا آغاز کر دیا۔ حزب اللہ لبنان کے مجاہدین کے مقابلے میں کمزوری کے باعث صیہونی رژیم اپنی فوج کا بڑا حصہ شمالی محاذ پر تعینات کرنے پر مجبور ہو گئی اور کچھ عرصے بعد لبنان پر بھرپور فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا جو ایک ماہ تک جاری رہی۔
اگرچہ صیہونی فوج لبنان کی جنوبی سرحد سے 8 کلومیٹر تک اندر گھسنے میں کامیاب ہو گئی لیکن وہ دریائے لیتانی تک نہ پہنچ سکی اور جنگ کے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔ یوں اسے جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ پہلی بار نہیں کہ لبنان پر صیہونی رژیم کا غاصبانہ قبضہ انجام پایا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی صیہونی رژیم 18 سال تک جنوبی لبنان پر قابض رہ چکی ہے اور 2000ء میں حزب اللہ لبنان کی مزاحمتی کاروائیوں سے تنگ آ کر لبنان سے فوجی انخلاء پر مجبور ہو گئی تھی۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران تل ابیب کے فوجی اور سیاسی حکام نے لبنان کی سرحد کے قریب مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصوں میں حزب اللہ لبنان کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف قسم کے منصوبے پیش کیے ہیں جن میں سابق صیہونی وزیراعظم یائیر لاپید کی جانب سے جنوبی لبنان کی فوج دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
غاصب صیہونی رژیم نے جنوبی لبنان سے فوجی انخلاء اور اس علاقے کو لبنانی فوج کے سپرد کر کے ایک نئی چال چلی ہے جو لبنانی فوج کو حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں لا کھڑا کرنے پر مشتمل ہے۔ اس سازش کے تحت موساد کے ایجنٹ لبنان آرمی کی آڑ میں حزب اللہ لبنان کے خلاف کاروائیاں انجام دینے کی کوشش کریں گے۔ صیہونی رژیم اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اگر اس نے جنوبی لبنان پر براہ راست غاصبانہ قبضہ کیا تو لبنانی عوام کی جانب سے وسیع ردعمل سامنے آئے گا لہذا اس نے جنوبی لبنان کے پانچ ایسے علاقے تلاش کیے ہیں جو آبادی سے دور ہیں اور ان علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان پانچ جگہوں پر صیہونی فوج نے واچ ٹاور نصب کر رکھے جن کے ذریعے وہ حزب اللہ لبنان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا چاہتے ہیں اور موقع ملنے پر مجاہدین کو فضائی حملوں کا نشانہ بھی بنا سکتے ہیں۔
لبنان کے وزیراعظم نواف سلام، صدر جوزف عون اور اسپیکر نبیہ بری نے گذشتہ دن غاصب صیہونی رژیم کا فوجی قبضہ ختم کرنے کے لیے ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ صدر کی جانب سے جاری کردہ بیانیے میں کہا گیا ہے کہ لبنان نے اب تک قرارداد 1701 پر پوری طرح پابندی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ اسرائیل مسلسل اس قرارداد کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے اور اس کی نظر میں اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لبنان کے تینوں سربراہان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ لبنان آرمی اور اقوام متحدہ کی فورسز یونیفل بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور وہ قومی حاکمیت کے تحفظ اور جنوبی لبنان کے عوام کی حمایت کے ذریعے ان کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنائیں گے۔ لبنانی عوام اسلامی مزاحمت کو اپنی جان اور مال کا قانونی محافظ سمجھتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں حزب اللہ لبنان غاصب صیہونی رژیم جنوبی لبنان کے مقبوضہ فلسطین اس قرارداد کی ہے کہ لبنان کرنے کے لیے پر مجبور ہو صیہونی فوج کی جانب سے کے سامنے لبنان کی پوری طرح ہیں اور ان پانچ کر دیا اور اس اس بات فوج نے کیا ہے
پڑھیں:
نیتن یاہو سے مارکو روبیو کا تجدید عہد
اسلام ٹائمز: مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔" تحریر: علی احمدی
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایسے وقت مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا جب قطر کے دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس جاری تھا۔ اس کا خیال ہے کہ غزہ پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ مستقبل پر مرکوز کرنی چاہیے۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے غزہ پر جارحیت کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور غزہ شہر کے رہائشی ٹاورز یکے بعد از دیگرے اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر مٹی کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی فوج نے اب تک غزہ شہر میں کم از کم 30 رہائشی ٹاورز کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہری بے گھر ہو گئے ہیں۔ ایسے وقت امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کا دو روزہ دورہ کیا اور غزہ پر صیہونی جارحیت کی حمایت کی۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا لہذا ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس نے کہا: "میں نے اسرائیلی حکام سے مستقبل کے بارے میں بات چیت کی ہے۔" مارکو روبیو نے دیوار ندبہ کی زیارت بھی کی اور امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کے ہمیشگی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے بھی زور دیا۔ معروف تجزیہ کار مائیکل کرولی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے ملاقات میں کہا کہ غزہ جنگ کے بارے میں سفارتی معاہدے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریات سے مکمل طور پر تضاد رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ "بہت جلد" غزہ میں جنگ بندی کا راہ حل حاصل ہو جائے گا۔
مائیکل کرولی مزید لکھتے ہیں: "حماس کے بارے میں مارکو روبیو کا موقف دراصل نیتن یاہو کے موقف کو دوبارہ بیان کرنا تھا جس میں حماس کے مکمل خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ روبیو نے اپنے بیان میں صرف اتنا کہا کہ صدر چاہتے ہیں یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو جائے۔" نضال المراکشی اور سائیمن لوئس نے پیر کے دن رویٹرز میں اپنی رپورٹ میں لکھا: "اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ شہر پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے اس شہر میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسرائیل نے غزہ شہر کو حماس کا آخری مورچہ قرار دے کر اس پر فوجی جارحیت شدید کر دی ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں شدت نے جنگ بندی سے متعلق قطر مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔"
مغربی ایشیا میں فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے جنرل کمشنر فلپ لازارینی نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "غزہ میں پانی کا نظام 50 فیصد کم سطح پر کام کر رہا ہے اور گذشتہ چار دنوں میں غزہ شہر میں انروا کی 10 عمارتیں اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے اس نے غزہ شہر میں پانچ فضائی حملے انجام دیے ہیں جن میں 500 سے زیادہ جگہیں نشانہ بنائی گئی ہیں۔ اس کے بقول ان جگہوں پر ممکنہ طور پر حماس کے اسنائپر تعینات تھے جبکہ کچھ عمارتیں حماس کی سرنگوں کے دروازوں پر بنائی گئی تھیں اور کچھ میں حماس کے اسلحہ کے ذخائر تھے۔" ابراہیم دہمان، تیم لستر اور چند دیگر رپورٹرز نے سی این این پر اپنی رپورٹس میں کہا: "صیہونی فوج نے تازہ ترین حملوں میں غزہ شہر میں کئی رہائشی ٹاورز کو تباہ کر دیا ہے۔"
آگاہ ذرائع کے مطابق کل اسرائیلی وزیر خارجہ، وزیر جنگ، انٹیلی جنس سربراہان اور اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کا ایک اہم اجلاس ہو گا جس میں زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کی صورتحال اور غزہ شہر پر زمینی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا۔ دو اعلی سطحی اسرائیلی عہدیداروں نے سی این این کو بتایا کہ غزہ شہر پر زمینی حملہ بہت قریب ہے جبکہ ایک عہدیدار نے کہا کہ ممکن ہے یہ حملہ کل سے شروع ہو گیا ہو۔ صیہونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ایال ضمیر نے نیتن یاہو کو اطلاع دی ہے کہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کے لیے آپریشن کو چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا اور حتی مکمل فوجی قبضہ ہو جانے کے بعد بھی حماس کو نہ تو فوجی اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے شکست نہیں دی جا سکے گی۔
اس بارے میں فلپ لازارینی نے کہا: "اسرائیل کی جانب سے شدید حملے شروع ہو جانے کے بعد غزہ میں کوئی جگہ محفوظ باقی نہیں رہی اور کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ کل تک غزہ شہر کے کئی رہائشی ٹاورز جیسے المہنا ٹاور، غزہ اسلامک یونیورسٹی اور الجندی المجہول ٹاور اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر تباہ ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے ان حملوں کے لیے یہ بہانہ پیش کیا ہے کہ حماس ان عمارتوں کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے اور وہاں سے اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اصل مقصد فلسطینیوں کو جبری طور پر وہاں سے نقل مکانی کروانا ہے اور انہیں جنوب کی جانب دھکیلنا ہے تاکہ غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کا زمینہ فراہم ہو سکے۔" یاد رہے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اب تک اس اسرائیلی دعوے کی تردید کر چکی ہے کہ غزہ شہر میں رہائشی عمارتیں حماس کے زیر استعمال ہیں۔