حماس نے اسرائیلی بمباری سے ہلاک4 اسرائیلیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کردیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
غزہْ/واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک+اے پی پی) فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 4 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی ہیں۔ یہ یرغمالی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوئے تھے۔حماس نے چاروں لاشیں خان یونس میں ریڈ کراس کے سپرد کیں۔ اس موقع پر حماس کی جانب سے بینرز بھی آویزاں کیے گئے، جن پر لکھا تھا کہ “نیتن یاہو اور اس کی نازی فوج نے صیہونی طیاروں سے
بمباری کر کے یرغمالیوں کو قتل کیا۔”حماس کا کہنا ہے کہ “ہم نے جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر کے لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔” میڈیا رپورٹس کے مطابق یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کرنے کے دوران اسٹیج پر لاشوں کے ساتھ امریکی ساختہ بم بھی رکھے نظر آئے۔عرب میڈیا کے مطابق یرغمالیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کرنے کی تقریب میں اسٹیج پر رکھے امریکی بم فضا سے زمین پر مار کرنے والے جی بی یو 39 بم تھے۔حماس کی جانب سے ان امریکی ساختہ بموں پر ایک تحریر بھی درج تھی جس میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی یرغمالیوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ امریکی بموں سے ہلاک ہوئے۔دوسری جانب وائٹ ہاس نے فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز کو دی جانے والی تمام فنڈنگ روک دی ہے۔ ادھر فلسطینی صدر محمود عباس نے کہاہے کہ فلسطین فروخت کے لیے نہیں ہے اور اس کی زمین کا کوئی حصہ ترک نہیں کیا جائے گا۔شنہوا کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے گزشتہ روز رام اللہ میں فتح سینٹرل کمیٹی کے اجلاس کے بعد بیان میں کہا کہ فلسطین فروخت کے لئے نہیں ہے اور اس کی زمین کا کوئی حصہ، چاہے وہ غزہ، مغربی کنارے یا مقبوضہ بیت المقدس میں ہو ترک نہیں کیا جائے گا،فلسطینی عوام کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی قانون اور عرب امن اقدام کو کسی بھی سیاسی حل کی بنیاد کے طور پر ماننے پر زور دیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے
پڑھیں:
غزہ میں شدید غذائی بحران: بچے بھوک سے مرنے لگے، لوگ چلتی پھرتی لاشیں بن گئے
غزہ میں اسرائیل کے جاری محاصرے اور حملوں کے باعث بدترین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے، جہاں غذائی قلت کی وجہ سے پانچ میں سے ایک بچہ غذائی کمی کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ، بین الاقوامی امدادی تنظیمیں، اور خود مقامی افراد اس صورتحال کو "انسانی پیدا کردہ قحط" قرار دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ میں لوگ نہ زندہ ہیں نہ مردہ بلکہ ’’چلتی پھرتی لاشیں‘‘ بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک 100 سے زائد افراد صرف بھوک کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔
انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرے تاکہ خوراک، دوا اور پینے کا پانی بروقت غزہ میں پہنچ سکے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، مقامی شہری ہانا المدہون نے بتایا کہ مارکیٹوں میں کھانا دستیاب نہیں اور اگر ہو بھی تو وہ اتنا مہنگا ہے کہ لوگ سونا اور ذاتی سامان بیچ کر آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔
ایک ماں نے بتایا کہ اس نے بچوں کو کچرے کے ڈھیر سے کھانے کے ٹکڑے تلاش کرتے دیکھا ہے، جب کہ ایک امدادی کارکن طہانی شہادہ نے کہا کہ ’’کھانا پکانا اور نہانا بھی اب پرُتعیش کام بن چکے ہیں۔‘‘
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ میں بھوک کی ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور یہ ’’انسانوں کی بنائی ہوئی قحط‘‘ ہے۔
دیئرالبلح سے حاملہ خاتون ولا فتحی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ دعا کر رہی ہیں کہ ان کا بچہ ان حالات میں دنیا میں نہ آئے، کیونکہ یہ حالات ’’ناقابلِ تصور آفت‘‘ سے کم نہیں۔
غزہ میں امدادی مراکز کے قریب اسرائیلی حملوں میں صرف گزشتہ دو ماہ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ امداد کے لیے جانے والے عام شہریوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ خوف کے مارے امدادی مراکز تک جانے سے بھی قاصر ہیں۔
برطانوی فلاحی ادارے سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے کہا کہ غزہ قحط کے قریب نہیں بلکہ "قحط زدہ" ہو چکا ہے۔