ذرا تصوّرکیجیے… جب کسی گھر میں کوئی معزز مہمان آنے والا ہو توگھر والوں کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ یقیناً گھر والوں کی خوش دیدنی ہوگی۔ ہر کوئی مہمان کو دیکھنے اور ان سے ملنے کے لیے بے تاب وبے چین نظر آئے گا۔ گھر کے سارے ہی افراد کو آپ تیاریوں میں مصروف پائیں گے۔ ان کے چہروں پر مسرّت کے آثار صاف دکھائی دیں گے۔ اور یہ مہمان کے قابلِ قدر اور قابلِ احترام ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
تم آگئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں
ابھی ابھی تو یہاں پر بڑا اندھیرا تھا
غرض یہ کہ مہمان کا بھرپور استقبال کیا جاتا ہے۔ مہمان کی شان کے مطابق استقبالیہ دیا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی رمضان المبارک بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کے لیے ایک مہمان کے طور پر عطا کیا جانے والا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک کی عظمت کے سبب ضروری ہے کہ اس کی شان کے مطابق اس کا استقبال کیا جائے۔ اس کی تیاری کی جائے۔
چشم بارہوکہ مہمان آگیا
دامن میں الہٰی تحفۂ ذیشان آگیا
بخشش بھی، مغفرت بھی، جہنم سے بھی نجات
دستِ طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا
سیدنا سلمانؓ سے مروی ہے کہ شعبان کا مہینہ ختم ہونے کے قریب تھا، نبی اکرمؐ نے ہمیں خطاب فرمایا: ’’لوگو! تم پر عظمت اور رحمت والا مہینہ آنے والا ہے۔ اس میں ایک رات ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبرکا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے‘‘۔
ایسے عظیم الشان مہینے کی تیاری کے سلسلے میں مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم یہ کہ اپنے روزمرہ کے امور کی تقسیم اور تنظیم کرلی جائے۔ رمضان سے قبل سحر وافطار کے لوازمات کی خریداری کرلی جائے تاکہ رمضان کی بابرکت ساعات کا ضیاع نہ ہو۔ مسجد میں زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی عبادت میں گزارا جائے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک روئے زمین پر سب سے پسندیدہ جگہ مسجد ہے۔ رمضان سے قبل شعبان کے مہینے میں گزشتہ سال کے روزوں کی قضا اور نفلی روزوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ رمضان سے قبل روزوں کی مشق ہوجائے۔ کھانے کی مقدار میں کمی لائی جائے تاکہ دورانِ روزہ بھوک کا احساس کم سے کم پیدا ہو۔ اہلِ خانہ کی رمضان سے متعلق ذہن سازی کی جائے، ان کے لیے رمضان المبارک کے اوقات کی تقسیم کے ساتھ قرآن سرکل اور دیگر دعوتی سرگرمیاں مرتب کی جائیں کیوں کہ اپنے علاوہ اپنے گھر والوں کی نجاتِ اْخروی کی فکر بھی ہمارے ذمّے ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، خود کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘۔
اور رمضان المبارک سے بڑھ کر جہنم سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
اس کے علاوہ اپنے دوستوں اور اہل خانہ کو صبر کی تلقین کی جائے کیوں کہ صبر ایسی صفت ہے، جس کو اپنا کر اعمالِ صالحہ کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ اور یہ خدا کی قدرتِ کاملہ پر یقین کی علامت ہے۔
کیجیے ہر بات پرصبر وشکر
بہت حسیں ہے خدا پہ یقین کا سفر
ہمارے روزے معیارِ مطلوب کے مطابق ہوں اس کے لیے روزوں کے مسائل سے واقفیت حاصل کی جائے۔
سب سے اہم بات یہ کہ موبائل اور انٹرنیٹ کا غیرضروری استعمال ترک کیا جائے کیوں کہ یہ نہ صرف ضیاعِ وقت کا باعث ہے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد سے غافل کرنے والا ہے۔ اس کے نتیجے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم وساوس کا شکار ہوکر رمضان کے بابرکت لمحات ضائع کر بیٹھیں۔ لہٰذا اس کے لیے ابھی سے کوشش کیجیے کہ اپنا وقت ذکرِ الہٰی میں، تلاوتِ قرآن میں، دینی مسائل سیکھنے میں، دینی حلقہ جات میں، فرض نمازوں کے علاوہ دیگر نفلی نمازوں میں گزاریے اور اس کے ذریعے قربِ خداوندی کا حصول ممکن بنائیں۔
ایک خاص پہلو یہ کہ اگر کوئی فرد آپ سے ناراض ہو تو اسے منالیجیے۔ اگرآپ کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو اس سے معافی مانگ لیجیے۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ لکھتے ہیں:’’اگرکوئی بندوں کے حقوق سے بے پروا ہو تواس کی عبادت قطعاً سود مند نہیں ہوسکتی‘‘۔
لہٰذا روٹھے ہوئے لوگوں کو مناکر حقیقت میں رب کو منالیجیے۔
عہدکیجیے کہ اس رمضان کو زندگی کا یادگار رمضان بناتے ہوئے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اللہ تعالی گھر والوں کی جائے کیوں کہ کے لیے
پڑھیں:
وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے قصر الیمامہ میں ملاقات، دوطرفہ تعلقات پرتبادلہ خیال
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے ریاض میں واقع قصرِ الیمامہ میں ملاقات کی، جس میں دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سعودی سرکاری ٹی وی کے مطابق، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے قصرِ الیمامہ کے شاہی دیوان میں وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کا پرتپاک استقبال کیا اور ان کے اعزاز میں سرکاری استقبالیہ تقریب بھی منعقد کی گئی۔
قصرِ الیمامہ ریاض میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے علاقائی و عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
اس سے قبل بدھ کو وزیراعظم شہباز شریف اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ریاض پہنچے تھے، جہاں ان کا استقبال ریاض کے نائب گورنر شہزادہ محمد بن عبدالرحمان بن عبدالعزیز نے کنگ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کیا۔
استقبال کرنے والوں میں وزیر سرمایہ کاری انجینیئر خالد الفالح، پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی اور ریاض میں پاکستان سفیر احمد فاروق بھی شامل تھے۔
اس موقع پر وزیرِاعظم کو 21 توپوں کی سلامی اور سعودی عرب کی افواج کے چاق چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔
اس سے پہلے وزیراعظم شہباز شریف کے طیارے کو سعودی عرب کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی سعودی ایئر فورس کے ایف 15 جہازوں نے اپنے حفاظتی حصار میں لے کر استقبال کیا۔
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق توقع ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں مختلف شعبوں میں تعاون کو باضابطہ شکل دی جائے گی جو دونوں ممالک کے دیرینہ برادرانہ تعلقات کو مزید بڑھانے اور گہرا کرنے کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
بیان کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی تعلقات ہیں جس کی جڑیں مشترکہ مذہبی اقدار اور باہمی اعتماد پر مبنی ہیں۔