کراچی میں ٹریفک حادثات، اصل ذمہ دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کراچی کو ’سٹیزن ٹریفک لائزن کمیٹی‘ کی ضرورت ہے جس میں سول سوسائٹی کے اراکین اور ماہرین کو شامل کیا جائے جو ٹریفک چیلنجز کا معائنہ کریں، حل تلاش کریں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ ہم اپنی سڑکوں پر مزید المناک سانحات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ تحریر: ڈاکٹر نعمان احمد
گزشتہ چند ہفتوں سے کراچی میں ٹریفک حادثات کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں بہت سے افراد تیز رفتار ڈمپر، ٹرک اور واٹر ٹینکر کی زد میں آئے ہیں۔ ایسے میں عوام میں غم و غصہ پایا جانا حیران کُن نہیں ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے کچھ ہیوی ٹریفک کو نذرِ آتش کرکے کیا۔ 1985ء میں ناظم آباد میں بشریٰ زیدی کے حادثے سے لے کر چند ماہ قبل کارساز روڈ پر عمران عارف اور ان کی بیٹی آمنہ عارف کی المناک اموات تک، کراچی میں ٹریفک حادثات کی فہرست بہت طویل ہے۔ جو لوگ ان حادثات میں زندہ بچ گئے، وہ عمر بھر کی معذوری یا ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت نے ’روڈ چیکنگ کمیٹی‘ بنائی ہے جو گاڑیوں کی فٹنس کی جانچ پڑتال اور سڑکوں کی مجموعی تحفظ کی صورت حال پر نظر رکھے گی۔
ٹریفک مینجمنٹ، شہری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شہر میں گاڑیوں کی آمد و رفت کو منظم کرنے، مال بردار گاڑیوں کو ریگولیٹ کرنا اور ٹریفک جرائم کے ارتکاب کے خلاف قانونی کارروائی کی ذمہ داری ٹریفک پولیس کی ہے۔ وہ پولیس کی اعلیٰ کمان اور متعلقہ صوبائی ڈپارٹمنٹ کو جوابدہ ہیں۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار اسنیپ چیکنگ پر لاپروائی برتتے ہیں۔ وہ موٹر سائیکلوں، رکشوں، چھوٹی گاڑیوں، پک اپ گاڑیوں اور ہیوی ٹریفک وغیرہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اپنے اعلیٰ حکام کو مطمئن کرنے کے لیے نامکمل کاغذات پر چالان کردیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز کی گاڑیاں جو عموماً ٹریفک قوانین کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں، بےمقصد سائرن کا استعمال کرتی ہیں انہیں ٹریفک پولیس کے اہلکار جانے دیتے ہیں۔
اکثر اوقات ان کم عمر، غیرلائسنس یافتہ مگر امیر خاندانوں کے بچوں کو روکا نہیں جاتا جو تیز رفتاری سے اپنی لگژری گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں۔ کالے شیشے والی گاڑیوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ بنا نمبر پلیٹ کی گاڑیوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مصروف شاہراہوں پر اکثر گاڑیاں اور موٹر سائیکلز مخالف سمت سے تیز رفتاری سے گزرتی نظر آتی ہیں۔ تیز رفتار گاڑیوں سے ٹکرانے کے بعد قانون کی پاس داری کرنے والے ڈرائیورز کی ایک نہیں چلتی۔ سڑکوں پر کیے جانے والے مباحثوں میں اکثر جیت اس کی ہوتی ہے جس کی آواز زیادہ بلند ہوتی ہے یا جو زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ پل اور اوورپاسز کے نیچے عوامی مقامات رکشہ اسٹینڈز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایسی گاڑیاں اکثر ٹین ایجرز چلاتے ہیں جو قوانین کا خیال نہیں رکھتے۔
اسی اثنا میں میئر کراچی کو حال ہی میں شکایت کرتے دیکھنا مضحکہ خیز تھا۔ میونسپلٹی عوامی مقامات اور مختص شاہراہوں کے تحفظ کی ذمہ دار ہے لیکن اہم شاہراہوں کے کناروں پرپیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ ٹوٹی ہوئی ہیں اور ان پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔ ایسے میں پیدل چلنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں اور والدین کو چلتی ہوئی گاڑیوں کے درمیان احتیاط سے اپنا راستہ بنانا پڑتا ہے تاکہ وہ صدر یا دیگر مصروف علاقوں میں واقع اسکولوں تک پہنچ سکیں۔ سڑکوں کو وسعت دینے کے منصوبوں کی وجہ سے گاڑیوں کے راستوں کو تو وسعت ملی ہے لیکن فٹ پاتھ تنگ ہوگئی ہیں۔
بی آر ٹی ریڈ لائن پروجیکٹ کی تعمیر نے کئی مقامات پر راہ گیروں کے لیے مختص راستے تباہ کیے ہیں۔ چند علاقوں جیسے ڈی ایچ اے میں تو سڑک کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی راستے ہی نہیں بنائے گئے۔ ڈی ایچ اے کو کلفٹن سے جوڑنے والی خیابانِ شاہین اس کی مثال ہے۔ اس کے علاوہ سائیکل سوار اور گاڑیوں کو آمد و رفت کے لیے استعمال نہیں کرنے والے افراد کا سفر کرنا محال ہے۔ سڑکوں پر مشتعل رویہ بہت عام ہے۔ لوگ تیز رفتار گاڑیوں کا پیچھا کرتے ہیں، سرِ راہ گاڑیاں روک کر جھگڑے کرتے ہیں، ٹریفک لائٹس کی پروا نہیں کی جاتی، ان ڈرائیورز کو ہراساں کیا جاتا ہے جو اسٹاپ سائن پر ٹریفک قوانین کی پاس داری کرتے ہیں، سڑک پار کرنے والے راہ گیروں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے جبکہ فٹ پاتھ پر پارکنگ جیسے مناظر اس شہر کا معمول ہیں۔
موٹر سائیکل سوار بھی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر انڈیکیٹر دیے بغیر تیز رفتاری سے لین تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا بہت زیادہ افراد سوار کرکے موٹر سائیکل چلاتے ہیں، ہیلمٹ نہیں پہنتے اور موٹر سائیکل روکے بغیر موبائل فونز استعمال کرتے ہیں۔ مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیورز اور موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ گفتگو کریں تو آشکار ہوگا کہ ان میں سے زیادہ تر کو تو ٹریفک قوانین اور ضوابط کی بنیادی معلومات بھی نہیں۔ اب تو سرکاری عمل سے گزر کر ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کو بھی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جب ٹریفک پولیس اہلکار ایسے لوگوں کو روکتے ہیں تو وہ باخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اہلکاروں کے ساتھ معاملات کیسے طے کرنے ہیں۔
ہیوی ٹریفک کے ڈرائیورز یا لگژری ایس یو وی کے مالکان تیز رفتار ڈرائیونگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں قابو سے باہر ہوجائیں تو سڑکوں پر سنگین زخموں یا اموات کا باعث بنتی ہیں۔ لگژری گاڑیوں کی پشت پر سوار گارڈز ٹریفک قوانین کی پامالی کرنے والے ڈرائیورز کو پوچھ گچھ سے بچا لیتے ہیں۔ یہ انتہائی خراب صورت حال ہے جس کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے نام نہاد کمیٹی کا قیام زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگا۔ اسٹیک ہولڈرز بشمول رہائشیوں، دکانداروں، اپنے بچوں کو اسکول لے جانے والے والدین یا روزانہ سڑکوں پر خوفناک حالات کا سامنا کرنے والے تمام عام شہریوں کو حل تلاش کرنے کے عمل میں حصہ لینا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ٹریفک قوانین ٹریفک پولیس موٹر سائیکل تیز رفتار کرنے والے سڑکوں پر ہوتے ہیں کرتے ہیں جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
8 لاکھ افراد پیرس کی سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار، ہڑتال سے کونسے شعبے متاثر ہوں گے؟
فرانسیسی ٹریڈ یونینز نے جمعرات کو ملک گیر ہڑتال اور احتجاج کی کال دی ہے تاکہ ان ’سخت‘ بجٹ اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی جا سکے جو موسم گرما میں متعارف کرائے گئے تھے۔ نئے وزیرِاعظم سباسشیئن لکورنو نے اب تک ان اقدامات کو مسترد کرنے سے انکار کیا ہے۔
پیر کو وزیراعظم سباسشیئن لکورنو سے ملاقات کے بعد سخت گیر سی جی ٹی یونین نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ پرعزم ہیں، حالانکہ حکومت نے 2 سرکاری چھٹیاں ختم کرنے کا متنازع منصوبہ واپس لے لیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق یونین رہنما صوفی بینے کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کسی چیز کی ضمانت نہیں دی، سابق وزیراعظم فرانسوا بایرو کے دور کی کوئی بھی تباہ کن پالیسی واپس نہیں لی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:فرانس میں ’بلاک ایوری تھنگ‘ مظاہرے، ہنگامہ آرائی اور تصادم
فرانسیسی وزیراعظم نے عہدہ سنبھالتے وقت ’بنیادی تبدیلیوں‘ کا وعدہ کیا تھا اور گزشتہ ہفتے زیادہ تر یونینز سے ملاقاتیں کیں، تاہم مزدور رہنما اپنے 18 ستمبر کے احتجاج کے اعلان پر ڈٹے ہوئے ہیں تاکہ آئندہ بجٹ پر اثرانداز ہو سکیں۔
پچھلے سال جون 2023 کے بعد پہلی مرتبہ 9 یونینز اکٹھا مارچ کریں گی، سی جی ٹی کے مطابق اب تک پورے فرانس میں 220 سے زائد ریلیوں کا اعلان ہو چکا ہے۔
یونین رہنما چاہتے ہیں کہ مظاہرین کی تعداد ’بلاک ایوری تھنگ‘ تحریک سے زیادہ ہو، جس نے رواں ماہ 10 ستمبر کو تقریباً 2 لاکھ افراد کو سڑکوں پر نکالا، لیکن ملک کو مکمل طور پر بند کرنے میں ناکام رہی۔
مزید پڑھیں:فرانسیسی حکومت کا انہدام: وزیرِاعظم فرانسوا بایرو عدم اعتماد کے بعد عہدے سے فارغ
سی ایف ٹی سی کے سربراہ سیریل شابانیے چاہتے ہیں کہ 10 لاکھ افراد احتجاج میں ساتھ دیں۔ حکام کو خدشہ ہے کہ شرکا کی تعداد 8 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے اور اس میں سینکڑوں شدت پسند مظاہرین بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
یونینز کا الزام ہے کہ حکومت کا بجٹ عوام پر ’غیرمعمولی بربریت‘ مسلط کر رہا ہے، جس میں عوامی خدمات میں کٹوتیاں، بیروزگاری انشورنس میں نئی اصلاحات، مراعات اور تنخواہوں پر منجمدی، پنشن میں کمی، علاج معالجے کے اخراجات میں اضافہ اور حتیٰ کہ تنخواہ کے ساتھ پانچویں ہفتے کی چھٹی ختم کرنے کی دھمکیاں شامل ہیں۔
ٹرانسپورٹ اور تعلیم پر بڑا اثرپیرس کے ٹرانسپورٹ ادارے کی 4 بڑی یونینز نے ہڑتال کی کال دی ہے، جس سے میٹرو اور آر ای آر لائنز پر بھاری خلل متوقع ہے، بعض لائنیں بند رہیں گی اور صرف خودکار میٹرو لائنز معمول کے مطابق چلیں گی۔ علاقائی ٹرینوں اور ایس این سی ایف کے نیٹ ورک پر بھی ہڑتال کا اثر پڑے گا۔
پرائمری اساتذہ کی سب سے بڑی یونین کے مطابق ایک تہائی اساتذہ ہڑتال میں شریک ہوں گے، جس سے اسکول کینٹین اور بعد از اسکول خدمات بھی متاثر ہوں گی۔
عجائب گھر اور تاریخی مقامات بندہڑتال سے ایک روز قبل ہی آرک ڈی ٹرایمف بند کر دیا گیا ہے جبکہ لوور میوزیم اور ورسائی کے محلات میں بھی داخلے پر پابندیاں متوقع ہیں۔
فارمیسیز کی شمولیتتقریباً 90 فیصد فرانسیسی فارمیسیز بھی جمعرات کو بند رہیں گی، یہ احتجاج بجٹ سے زیادہ اس پالیسی کے خلاف ہے جس کے تحت حکومت نے جنیرک دواؤں پر ریبیٹ کم کر دیا ہے، جس سے ہزاروں فارمیسیز کے بند ہونے اور ادویات کی فراہمی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احتجاج اسکول کینٹین انشورنس بیروزگاری ٹریڈ یونینز فرانس ملک گیر میٹرو لائنز ہڑتال