89 فیصد والدین بچوں کو مصروف رکھنے کیلئے گیجٹس دیتے ہیں، سروے
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 فروری2025ء)ایک نئے سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ 89 فیصد والدین سفر کے دوران یا اپنے لیے کچھ فارغ وقت نکالنے کے لیے بچوں کی تفریح یا انہیں مصروف رکھنے کے لیے گیجٹس استعمال کرتے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل پرائیویسی کمپنی کاسپراسکائی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ، ترکیہ اور افریقہ (میٹا) خطے میں نصف سے زیادہ یعنی 53 فیصد بچے تین سے سات سال کی عمر کے درمیان اپنی پہلی ذاتی ڈیوائس، اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ حاصل کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بچوں نے خود اعتراف کیا کہ گیجٹس نے ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا، 78 فیصد نے کہا کہ وہ اپنے گیجٹس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور گیم کنسولز بچوں کے لیے انتہائی مطلوبہ آلات میں سے ہیں۔(جاری ہے)
سائبرسیکیورٹی ایجنسی نے کہا کہ گیجٹس کا مروجہ استعمال بچوں کے لیے ان خطرات کو سمجھنے کی اہم ضرورت پر زور دیتا ہے جو انہیں آن لائن لاحق ہوسکتے ہیں اور ڈیوائسز کے مناسب اصولوں اور رہنما خطوط کے ذریعے انہیں محفوظ طریقے سے کیسے کم کرنا ہے تاہم میٹا خطے میں تقریباً ایک چوتھائی جواب دہندگان (22 فیصد) نے کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ انٹرنیٹ کے حفاظتی اصولوں پر بات نہیں کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ بچے، جو اکثر اپنی ڈیوائسز کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں، ہمیشہ اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ آن لائن رہنے کے دوران محفوظ طریقے سے کیسے برتاؤ کیا جائے۔کاسپراسکائی کے مشرق وسطیٰ، ترکیہ اور افریقہ میں کنزیومر چینل کے سربراہ سیف اللہ جدیدی نے کہا کہ زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو تفریح فراہم کرنے، اپنے لیے کچھ وقت نکالنے یا اپنے بچوں کو پرسکون کرنے کے لیے گیجٹس دیتے ہیںتاہم بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسز کا بے قابو استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ والدین کو اپنے بچے کی ڈیجیٹل زندگی کی بہتر نگرانی کرنی چاہیے۔سیف اللہ جدیدی نے اسکرین کے وقت کو محدود کرنے، بچوں کو ڈیجیٹل سیکیورٹی کے بارے میں تعلیم دینے اور پیرنٹل کنٹرولز کو لاگو کرنے کا مشورہ دیا جس سے والدین اور سرپرستوں کو ان کے بچوں کے ذریعے آن لائن رسائی حاصل کرنے والی ویب سائٹس کے مواد کو محدود کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کی اجازت ملتی ہے۔انہوںنے کہاکہ والدین کی طرف بچوں کی آن لائن سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا بچے پر ان کے عدم اعتماد ظاہر نہیں کرتا ، یہ ایک معقول احتیاط ہے جس کے ساتھ آپ دوسری چیزوں کے علاوہ، ڈیوائس اور اس پر موجود ڈیٹا کی حفاظت کر سکتے ہیں۔سیف اللہ جیدیدی نے کہا کہ ان کنٹرولز کے ذریعے والدین اس بات پر پابندی لگا سکتے ہیں کہ ان کے بچے کن ویب سائٹس پر جا سکتے ہیں یا وہ کون سی گیم کھیلتے ہیں،یہ انہیں فائل ڈاؤن لوڈز کو بلاک کرنے، ناپسندیدہ موضوعات پر مواد تک رسائی اور خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے روکنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ سکتے ہیں ا ن لائن بچوں کو بچوں کے کے لیے
پڑھیں:
شام: یو این ادارے سویدا میں نقل مکانی پر مجبور لوگوں کی مدد میں مصروف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارے شام کے شہر سویدا اور ملحقہ علاقوں میں کشیدگی سے متاثرہ لوگوں کو مدد پہنچانے میں مصروف ہیں جہاں سے حالیہ دنوں 93 ہزار افراد نے نقل مکانی کی ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کا رابطہ دفتر شام کی حکومت سے رابطے میں ہے اور اس کی ٹیمیں علاقے میں ہر ممکن امدادی کارروائیاں کر رہی ہیں۔
ادارے کے سربراہ اور اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے بتایا ہے کہ آئندہ دنوں سویدا کے اندر رسائی حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ Tweet URLاقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے تمام متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد میں پھنسے لوگوں کو تحفظ فراہم کریں اور انہیں اپنی سلامتی اور طبی مدد کے لیے ہر جگہ جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔
(جاری ہے)
ترجمان نے بتایا ہے کہ سویدا کے علاوہ اس کے قریبی علاقے درآ اور دارالحکومت دمشق کے دیہی علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ سویدا سے بے گھر ہونے والے بیشتر لوگ قرب و جوار کے علاقوں اور 15 پناہ گاہوں میں مقیم ہیں جبکہ درآ میں 30 مزید اجتماعی پناہ گاہیں بھی کھول دی گئی ہیں۔
کشیدگی کے باعث علاقے میں بنیادی ڈھانچہ اور خدمات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
سویدا کے بعض ہسپتال غیرفعال ہو گئے ہیں، پانی کے نظام کو نقصان پہنچا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی بھی معطل ہو گئی ہے اور خوراک تک رسائی متاثر ہوئی ہے۔پہلے امدادی قافلے کی آمدشامی عرب ہلال احمر کی جانب سے امداد لےکر پہلا قافلہ اتوار کو سویدا پہنچا ہے جہاں بیشتر پناہ گزین مقیم ہیں۔ 32 ٹرکوں پر مشتمل یہ قافلہ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی)، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور دیگر شراکت داروں کی جانب سے خوراک، پانی، طبی سازوسامان اور ایندھن لے کر آیا ہے۔
ٹام فلیچر نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مدد کی اشد ضرورت تھی لیکن علاقے میں مزید امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔
سٹیفن ڈوجیرک نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ علاقے میں امدادی رسائی کے حصول اور شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے متعلقہ فریقین کے ساتھ رابطے میں ہے۔