چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے صدقہ فطر و فدیہ صوم کا نصاب جاری کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کا کہنا ہے کہ رواں سال صدقہ فطر و فدیہ صوم کم از کم 220 روپے فی کس ادا کیا جائے، گندم 220، جو 450 اور کھجور کے حساب سے 1650 صدقہ فطر و فدیہ صوم ادا کیا جائے، کشمش 2500 روپے جبکہ منقیٰ کے حساب 5000 روپے صدقہ فطر و صوم ادا کرنا ہوگا، مخیر حضرات مالی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر اور فدیہ صوم ادا کریں، صدقہ الفطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد، مرد اور عورت مسلمان پر فرض ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے صدقہ فطر و فدیہ صوم کا رواں سال کیلئے نصاب جاری کر دیا۔ رواں سال صدقہ فطر و فدیہ صوم کم ازکم 220 روپے فی کس ادا کیا جائے۔ گندم کے حساب سے 220، جو کے حساب سے 450 روپے، کھجور کے لحاظ سے 1650 روپے، کشمش کے حساب سے 2500 روپے جبکہ منقی حساب سے فی کس صدقہ فطر و فدیہ صوم 5000 روپے بنتا ہے۔ مخیر حضرات مالی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر اور فدیہ صوم ادا کریں۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے مزید کہا کہ صدقہ الفطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے ان امیر افراد کو گندم پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کرنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ غربا ضروریات پوری ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں رہنے والے متعلقہ اجناس کی قیمت کی مناسبت سے صدقہ فطر اور فدیہ صوم ادا کریں گندم کا نصاب وزن کے لحاظ سے نصف صاع (2 کلو احتیاطً) جو، کجھور، منقی کا نصاب ایک صاع (4 کلو گرام احتیاطً) بنتا ہے۔ علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے مزید بتایا کہ 30 روزوں کا فدیہ بالترتیب گندم کے حساب سے 6600 روپے بنتا ہے۔ جو کے حساب سے 13500 روپے، کھجور کے حساب سے 49500 روپے، کشمش کے حساب سے 75000 روپے اور منقیٰ کے حساب سے 150000 روپے ادا کرنا ہوگا، جان بوجھ کر روزہ توڑنے کا کفارہ مسلسل 60 روزے رکھنا یا پھر 60 مساکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہے۔ سرکاری سبسڈی والا آٹا استعمال کرنیوالے صدقہ فطر و فدیہ صوم 160 روپے بھی ادا کر سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی صدقہ فطر و فدیہ صوم فدیہ صوم ادا کے حساب سے
پڑھیں:
زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض
زرمبادلہ کے ذخائر ایک ایسی کہانی ہے جس پر حکومتوں کی سانسیں اور قوم کی امیدیں ٹکی رہتی ہیں اس پر گہری نظر رکھنے والے امپورٹرز بھی ہوتے ہیں کیونکہ ذخائر جتنے زیادہ ہوں گے، روپے کی قدر کو اسی قدر استحکام ملے گا۔ لیکن اسے غارت کرنے میں درآمدات کا ہی ہاتھ ہوتا ہے ملک پر اتنا زیادہ درآمدی بل کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر کی بلند سطح گرنے لگتی ہے۔
اس وقت ملک کے طول و عرض میں یہ باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر 19.9 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ دہائی میں ذخائر 6 ارب ڈالر تک بھی جا پہنچے تھے۔ جب ڈالر اڑنے لگا اور روپیہ تیزی سے گرنے لگا تھا، پھر کہیں یہ ذخائر 24 ارب ڈالر تک جا پہنچے تھے تو حکومت کامیابی کے دعوے کر رہی تھی کہ اچانک معلوم ہوا کہ درآمدات اتنی زیادہ ہو چکی ہیں جوکہ ذخائر کو کھا رہی ہیں۔
اب جب کہ اسٹیٹ بینک کے پاس 13.5 ارب ڈالر ہیں اور کمرشل بینکوں کے پاس 6.4 ارب ڈالر کا ذخیرہ ہے، اس کا پہلا باب آئی ایم ایف کی مہربانیوں سے شروع ہوتا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی قسط آئی ہے، دوسری طرف اس قسط کا بڑا حصہ بیرونی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی دریا بھرا ہو اور اگلے لمحے سمندر میں بہہ گیا، یعنی دریا جیسا پہلے خالی تھا اسی طرح قرض لینے کے بعد ادائیگی کرکے پھر خالی ہاتھ رہا۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ درآمدی بل کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ پھر درآمدات گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہوئے چلی جا رہی ہیں جس کا ابھی تک کوئی شافی علاج تجویز نہیں کیا جا سکا۔ غذائی درآمدات کا تعلق زراعت سے گہرا ہے۔
اس مرتبہ اس بات کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شاید 25 یا 30 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کم ہوگی جس کے لیے پھر درآمد کنندگان درآمد کرکے منافع کمانے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ اتنی گندم کی درآمد جب چند سال قبل 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تو ایک ارب ڈالر خرچ ہوگئے تھے۔ اس مرتبہ یہ تو سوچا جا رہا ہے کہ گندم کی پیداوار کم ہوگی اور درآمد کی ضرورت پیش آئے گی۔
گندم کی 8 فی صد یا 10 فی صد کمی کا آسان علاج ہے۔ ہر وہ جگہ جوکہ قابل کاشت ہو سکتی ہے، وہاں پر گندم کی کاشت کرکے اس کمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر مقام پر خالی قطعہ زمین وافر مقدار میں موجود ہے کسی طرح سے اس پر گندم کی کاشت کی جائے۔ خاص طور پر بعض علاقے ایسے ہیں جہاں گندم کی کاشت ممکن ہے مجھے نورپور تھل قصبہ ’’چن‘‘ کے زمیندار فہیم راجپوت نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کبھی سفیدے کے درخت لگائے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے۔
لیکن اب سفیدے کے درختوں کی زیادتی کے باعث گندم کی فصل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کے باعث پہلے کے مقابلے میں گندم کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ اس طرح کے بھی مسائل ہیں محکمہ ریلوے اور دیگر محکموں کے پاس وافر مقدار میں زمین موجود ہے جس پر گندم کاشت کی جا سکتی ہے۔ ہمیں درآمدات کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے اس طرح ملک اور عوام پر قرض کا بار بڑھتا چلا جا رہا ہے اور پھر ڈالرز میں اس کی ادائیگی حکومت کے لیے چیلنج بن جاتی ہے۔
رواں مالی سال 23 ارب ڈالرز کی ادائیگی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن کر رہ جائے گی۔ اتنی رقم کی ادائی کے لیے معیشت پر بہت بڑا بوجھ پڑے گا اور اس بوجھ کا بیشتر حصہ ترقیاتی منصوبے برداشت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں پر ایسے منصوبے بھی ہیں جو کئی سالوں سے زیر التوا ہیں۔ کہیں تمام منصوبے مکمل کرنے کے بعد معمولی کام کے رہنے کے باعث پورا منصوبہ ہی جام کر دیا جاتا ہے۔
اب ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے لیے اس مرتبہ امداد بہت کم رکھی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے سیلاب کے بعد بحالی کی خاطر بہت کچھ کرنے کے منصوبے ہیں لیکن حکومت کو ان منصوبوں کے مکمل کرنے کی خاطر اچھی خاصی رقوم درکار ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ سب سے پہلے ملک کے مختلف منصوبوں کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئیں، پھر ان معلومات کی روشنی میں جو منصوبے اعلان کر دیے گئے ہیں اولین ترجیح ایسے منصوبوں کے لیے دینی چاہیے اور ایسے منصوبے جیسا کہ پانی کی سپلائی قائم کرنے کے لیے K-4 کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح سرکولر ٹرین کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے جسے چلانے کے لیے ان علاقوں کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق سرکار کے ساتھ تعاون کریں۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی معیشت پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔البتہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں فوری اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 5.8 ارب روپے کا فوری ریلیف پیکیج منظور کیا گیا ہے اور 4 ارب روپے فوری جاری کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی صوبائی سطح پر امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے مزید یہ کہ 2855 دیہاتوں کے لیے آبیانہ اور زرعی آمدنی ٹیکس معاف کرنے کا کہا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کے گھروں کے بجلی کے بل برائے اگست معاف کر دیے گئے ہیں۔ بیرونی امداد کے سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے 3 ملین ڈالر کی ایمرجنسی گرانٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی 30 کروڑ وفاقی حکومت کو فوری ملنے کا امکان ہے۔ حکومت کو ماحولیاتی مزاحمت اور تیاری کے طریق کار لائحہ عمل اور منصوبے کا اعلان کرنا چاہیے اور تمام شہریوں کو اس میں شمولیت آگاہی پروگرام تیاری اور دیگر اقدامات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
اس وقت ایک بار پھر قرض کا مسئلہ اور زرمبادلہ کے برائے نام بڑھتے ذخائر کا کس طرح سے استعمال کیا جائے یہ مسئلہ اہم ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے غیر ضروری اخراجات جس سے ڈالر کی برآمد ہوتی ہے یعنی بعض اوقات درآمد کے ذریعے ڈالر جاتا ہے اور کبھی بہت سی غیر ملکی کمپنیاں اپنا منافع ڈالر کی شکل میں لے کر چلے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ جتنے بھی تجارتی معاہدے کیے جائیں اس بات کو ترجیح دی جائے کہ بارٹر سسٹم کا استعمال ہو، یعنی ہم ان سے جو چیز خریدیں اس کے بدلے میں اپنا مال ان کو دیں۔ اس طرح مال دے کر مال حاصل کرنے سے ڈالر کی بچت ہو گی اور یوں جتنے بھی زرمبادلہ اسٹاک میں ہوں گے اس کا انتہائی مناسب استعمال کیا جاسکے گا۔ اس طرح بار بار ڈالر کو اڑان کا موقع نہیں ملے گا اور بار بار روپے کی کم قدری نہیں ہوگی، لہٰذا اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں معمولی اضافہ ہوا ہے تو اب خرچ میں بھرپور احتیاط کی جائے تو یہ معاشی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے اور زیادہ قرض لینے کی ضرورت میں کمی واقع ہو کر رہے گی۔