صلوات شعبانیہ فوائد و برکات
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںپروگرام دین و دنیا
عنوان: صلوات شعبانیہ فوائد و برکات
مہمان حجة الاسلام والمسلمین جناب جری حیدر
میزبان: حجت الاسلام محمد سبطین علوی
موضوعات گفتگو:
محمد و آل محمد پر صلوات کی اہمیت اور برکت
صلوات شعبانیہ کا تعارف اور اہمیت
صلوات شعبانیہ میں محمد و آل محمد کا تعارف اور فضائل
صلوات شعبانیہ میں کون سے اہم تقاضے موجود ہیں
ماہ شعبان ماہ رسول اللہ اور افضل عمل؟
اس صلوات کے نتائج اور آثار
خلاصہ گفتگو:
صلوات بر محمد و آلِ محمدؑ کا شمار عظیم عبادات میں ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کا ذریعہ ہے۔ درود و صلوات محبتِ رسول و آلِ رسولؑ کے اظہار کے ساتھ ساتھ قربِ الٰہی کا بہترین وسیلہ بھی ہے۔
ماہِ شعبان، نبی اکرم ﷺ کا مہینہ ہے، جس میں اللہ نے بے شمار برکتیں رکھی ہیں۔ اس مہینے میں ایک عظیم دعا، صلواتِ شعبانیہ، امام علی زین العابدینؑ سے منقول ہے، جو محمد و آلِ محمدؑ کی عظمت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ صلوات نہ صرف ان کی معرفت فراہم کرتی ہے بلکہ ان کے مقام و فضائل کا ایک جامع تعارف بھی ہے۔
صلواتِ شعبانیہ میں رسول اللہ ﷺ اور ان کے اہلِ بیتؑ کے بلند مقامات، ان کے فضائل، ان کی اللہ کے نزدیک قربت اور امت کے لیے ان کی ہدایتگری کو بیان کیا گیا ہے۔ اس دعا میں عدل، ہدایت، تقویٰ اور اطاعت جیسے اہم تقاضے موجود ہیں۔
یہ صلوات دلوں کو نور، ایمان کو تقویت اور معرفت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کے پڑھنے سے اللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے، گناہ معاف ہوتے ہیں، اور روحانی بلندی نصیب ہوتی ہے۔ لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ اس صلوات کو کثرت سے پڑھیں اور اس کے معانی پر غور کریں تاکہ حقیقی معرفت حاصل ہو سکے۔
اللہم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجہم!
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
ڈاکٹر محمد حمید اللہ دور جدید میں اسلامی قانون کے تصور جہاد پر کام کرنے والے اولین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Muslim Conduct of State میں وہ ’جائز جنگوں‘ کی 5 قسمیں ذکر کرتے ہیں:
پہلے سے جاری جنگ کا تسلسل؛
دفاعی جنگیں؛
ہمدردانہ جنگیں؛
سزا کے طور پر لڑی جانے والی جنگیں؛ اور
نظریے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگیں پہلی قسم میں آتی ہیں کیونکہ جب ایک دفعہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو پھر صلح حدیبیہ تک ان کے درمیان کوئی امن کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق دفاعی جنگیں ہیں اس صورت میں لڑی جاتی ہیں جب یا تو دشمن نے مسلمانوں کے علاقے پر باقاعدہ حملہ کیا ہو یا اس نے ابھی حملہ تو نہ کیا ہو لیکن اس کا رویہ ’ناقابل برداشت‘ ہوچکا ہو۔ گویا ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق ’پیش بندی کا اقدام‘ (Pre-emptive Strike) دفاع میں شامل ہے اور غزوۂ بنی مصطلق، غزوۂ خیبر اور غزوۂ حنین کو اس کی مثال میں ذکر کرتے ہیں۔ اکثر مسلمان اہل علم کے نزدیک رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر جنگ مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تھی، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگوں کو دفاعی قرار دیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ، ڈاکٹر حمید اللہ کی ذکر کردہ پہلی 2 قسمیں اکثر اہل علم کے نزدیک ایک ہی قسم یعنی ’دفاع‘ ہے ۔
ریاست کا دفاع یا امت کا دفاع؟
ہمدردانہ جنگوں سے ڈاکٹر حمید اللہ کی مراد وہ جنگیں ہیں جو مسلمانوں کے علاقے سے باہر مقیم مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ بہت سے اہل علم نے ان جنگوں کو بھی دفاع میں شامل سمجھا ہے۔ مثال کے طور پر شام سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ’آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی‘ میں یہ موقف اختیار کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے بھی اپنی مشہور کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ میں ایسی جنگ کو ’مدافعانہ جہاد‘ کی ایک قسم کے طور پر ذکر کیا ہے۔ دفاع کے تصور پر اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دفاع سے ڈاکٹر حمید اللہ کی مراد ’ریاست کا دفاع‘ ہے، جبکہ دیگر اہلِ علم کی مراد ’امت کا دفاع‘ ہے۔ معاصر دنیا میں مسلمان اصحابِ علم کے لیے سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ ریاست اور امت کے تصورات کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے؟
فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ان کے مجاور علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا، یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا۔ تاہم معاصر بین الاقوامی نظام چونکہ ’قومی ریاست‘ کے تصور پر قائم ہے، اس لیے امت کا تصور اس نظام کی بنیاد سے ہی متصادم ہے۔ آج جب امت 50 سے زائد ریاستوں میں بٹ گئی ہے، تو مظلوم مسلمانوں کے دفاع کا دینی فریضہ کیسے ادا کیا جائے؟
مظلوم کی مدد کےلیے جنگ
مظلوم کی مدد کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے جائیں، اس کا انحصار حالات پر ہے۔ بعض اوقات محض اخلاقی مدد (مثلاً حملے کو ناجائز قرار دینا، حملے کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کو مظلوم قرار دینا، دفاع کا فریضہ ادا کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا وغیرہ) بھی کافی ہوتا ہے؛ اور بعض اوقات اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی مدد (جیسے بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا، حملہ آوروں پر سیاسی دباؤ ڈالنا، اسے بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنا وغیرہ ) بھی ضروری ہوتا ہے اور اس کے بغیر محض اخلاقی مدد سے کام نہیں چلتا۔ تاہم بعض حالات میں سفارتی اور سیاسی مدد بھی کافی نہیں ہوتی، بلکہ عملی مدد (جیسے مظلوموں تک ادویات کی رسائی، مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کوشش کرنا، مزاحمت کرنے والوں کی مالی امداد، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرنا وغیرہ) بھی لازم ہوجاتی ہے؛ اور بعض صورتوں میں باقاعدہ جنگ میں شرکت بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ مدد کی حیثیت فرض کفایہ کی ہو جاتی ہے اور مدد کی مختلف صورتوں کو ضرورت کے مطابق اختیار کیاجائے گا۔
رہنما اصول اس سلسلے میں یہ ہے کہ کسی طور ظالموں کو واپس دھکیلنا اور مظلوموں کو بچانا ہے اور اس کے لیے جو اقدام ضروری ہو، وہ اٹھایاجائے گا۔ اگر حملے کا جواب بغیر فوجی مدد کے ممکن نہ ہو، تو محض اخلاقی یا سفارتی بلکہ مالی مدد سے بھی اعانت کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کے الفاظ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ مظلوموں کی مدد کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنا بعض اوقات واجب ہوجاتا ہے اور یہ واجب صرف فوجی اعانت سے ہی ادا ہوتا ہے:
وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّٗا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورۃ النساء ، آیت75)
(تمھیں ہوا کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑرہے جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جانب سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کردے۔)
’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘
بعض ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ریاست میں انسانوں کے ایک بڑے گروہ کا قتل عام ہورہا ہو، یا ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہوں، تو ان کی مدد کے لیے کوئی دوسری ریاست مسلح کاروائی کرسکتی ہے۔ اسے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طو رپر 1998ء میں نیٹو نے سربیا پر جو بمباری کی اس کے لیے ایک جواز یہی ذکر کیا جاتا رہا۔ تاہم اکثر ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کرے، یا اس کی اجازت سے کوئی ریاست یا تنظیم کرے، تو وہ یقیناً جائز ہوگی مگر کوئی ریاست یا تنظیم اپنی جانب سے اس قسم کی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ریاست نے بھی اس قسم کی کاروائی میں تنہا ’انسانی ہمدردی‘ کو ہی بنیاد نہیں بنایا، بلکہ دیگر جواز بھی ساتھ ساتھ فراہم کرنے کی کوشش کی، جیسے نیٹو کے رکن ممالک نے ایک جواز یہ پیش کیا تھا (جو قانوناً غلط تھا) کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے یہ کارروائی کررہے ہیں)۔
مسلمان ریاستوں کے درمیان اجتماعی دفاعی معاہدہ
ایک حل اس مسئلے کا یہ ہے کہ مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرلیں اور یوں ان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 کے تحت اس انتظام کی گنجائش ہے اور ’معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم‘ (NATO) اس انتظام کی کامیابی کی سب سے واضح دلیل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی ’نکاراگوا بنام امریکا‘ مقدمے کے فیصلے میں اس طریق کار کو جائز ٹھہرایا ہے۔ اس اجتماعی حق دفاع کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں قرب و بعد کی بات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کوئی سے دو یا زائد ممالک، جو مشترکہ مفاد رکھتے ہوں، آپس میں دفاعی معاہدہ کرکے اجتماعی حق دفاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بحر شمالی اوقیانوس حائل ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس طریق کار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
امت مسلمہ کے اجتماعی حق دفاع کے متعلق یہ بات اہم ہے کہ اس کی بنیاد کسی دفاعی معاہدے پر نہیں، بلکہ امت کے تصور پر ہے اور یہ امت پر اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے عائد کردہ فریضہ ہے۔ اس لیے اگر دو اسلامی ممالک میں دفاعی معاہدہ نہ بھی ہو، تو ان پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ تاہم موجودہ بین الاقوامی نظام اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مسلمان ممالک آپس میں دفاعی معاہدات بھی کرلیں، تو وہ بہت سی پیچیدگیوں سے بچیں گے۔
تاہم ’اجتماعی حق دفاع‘ کے طریق کار کا فائدہ صرف ’ریاستیں‘ ہی اٹھاسکتی ہیں، جبکہ امت مسلمہ صرف مسلم ریاستوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ کئی ریاستوں میں مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں۔ نیز بعض علاقے ایسے ہیں جن پر طویل مدت سے کسی دوسری ریاست نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقے اس کی مثال ہیں۔ ان علاقوں میں آج جب مسلمان ظلم کا شکار ہیں، تو ان کے دفاع کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے؟ کیا ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ کے رکن 57 مسلمان ممالک صرف فلسطین کے دفاع کے لیے ایسا معاہدہ نہیں کرسکتے؟ واضح رہے کہ یہ تنظیم وجود میں ہی تب آئی تھی جب القدس پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مسجد اقصیٰ کو جلانے کی مذموم کوشش کی گئی اور اس تنظیم کے منشور میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کا ہیڈکوراٹر عارضی طور پر جدہ میں ہوگا اور القدس کی آزادی کے بعد وہیں اس کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔