Express News:
2025-09-22@23:12:28 GMT

شعلے فلم کا وہ اداکار جس کو معاوضے میں ’فریج‘ دیا گیا

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

بھارتی ہدایتکار رمیش سپی کی فلم ’شعلے‘ نے بھارت سمیت دنیا بھر میں بے پناہ کامیابی اور شہرت حاصل کی اور آج بھی مداحوں کے دل کے قریب ہے۔ ریلیز کے ابتدائی دنوں میں یہ فلم زیادہ کامیاب نہیں ہوئی تھی لیکن بعد میں چرچا بڑھا اور یہ ایک بڑی کامیاب فلم بن گئی۔

اس فلم نے نہ صرف بہت زیادہ پیسہ کمایا بلکہ بھارت کی سب سے طویل عرصے تک چلنے والی فلموں میں شامل بھی ہو گئی۔ شعلے نے اس دور میں تقریباً 35 کروڑ روپے کی کمائی کی۔

اس فلم میں بالی ووڈ کے مشہور اداکاروں جیسے امیتابھ بچن، دھرمندر، ہیما مالنی، امجد خان، جایا بچن، اور سنجیو کمار نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔

کہا جاتا ہے کہ دھرمندر نے اپنی کردار کے لیے 1,50,000 روپے فیس وصول کی، لیکن ایک اور اداکار تھے جنہوں نے پیسے کی بجائے ایک فریج بطور معاوضہ لیا۔

یہ اداکار، جن کا نام سچن پگلنکار ہے، بچپن میں 65 سے زائد فلموں میں بطور چائلڈ اداکار کے کام کر چکے ہیں اور 50 سے زائد فلموں کی ہدایتکاری بھی کر چکے ہیں۔ سچن نے شعلے میں احمد کا کردار ادا کیا تھا، اور ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

 سچن پگلنکار کے مطابق 1970 کی دہائی میں فریج ایک قیمتی چیز سمجھا جاتا تھا اس لیے انہوں نے پیسوں کے بجائے فریج کو بطور معاوضہ لیا اور اس فریج کو انہوں نے آج بھی محفوظ رکھا ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ: اسلام بطور نظامِ حیات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-03-5

 

میر بابر مشتاق

دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جو اپنے فکر و عمل کے ذریعے نہ صرف اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کا چراغ جلا گئیں۔ بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایسی ہی ایک شخصیت سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو محض عقیدہ، چند رسوم اور عبادات کا مجموعہ بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ اسے ایک مکمل اور ہمہ گیر نظامِ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے رکھا۔ یہ وہ پہلو ہے جس نے انہیں بیسویں صدی کی سب سے مؤثر اسلامی شخصیتوں میں شامل کر دیا۔

جب انہوں نے آنکھ کھولی تو برصغیر پر انگریز سامراج کی گرفت مضبوط تھی۔ مغل سلطنت کا چراغ گل ہو چکا تھا اور مسلمان اپنی تہذیبی، علمی اور سیاسی حیثیت کھو بیٹھے تھے۔ ایک طبقہ مغربی تہذیب کے سامنے مسحور ہو کر اسلام کو محض نجی عبادات تک محدود کر دینا چاہتا تھا، جبکہ دوسرا طبقہ خانقاہی رسوم اور پیر پرستی میں گم تھا۔ اس ماحول میں سید مودودیؒ نے یہ پیغام دیا کہ اسلام صرف مسجد اور خانقاہ تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی انفرادی، اجتماعی اور ریاستی زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس چاہتے ہیں تو انہیں اسلام کو مکمل ضابطہ ٔ حیات کے طور پر اپنانا ہوگا۔

ان کے نزدیک اسلام کی بنیاد توحید ہے، اور توحید محض زبان سے پڑھ لینے کا عقیدہ نہیں بلکہ عملی نظام کی اساس ہے۔ اگر انسان اللہ کی حاکمیت کو مان لیتا ہے تو پھر کسی اور قانون، فلسفے یا نظام کے آگے سر جھکانا اس کے لیے جائز نہیں رہتا۔ سیاست میں ان کا نظریہ تھا کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کے پاس ہے اور انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کسی فرد، خاندان یا طبقے کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کے احکام کی تابع ایک ادارہ ہے۔ معاشی میدان میں انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو استحصالی اور سود کو صریح ظلم قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سود پر مبنی معیشت انسانیت کو غلام بنا دیتی ہے جبکہ اسلام کا عدل پر مبنی نظام انسان کو سکون اور انصاف فراہم کرتا ہے۔ معاشرت کے باب میں انہوں نے خاندان کی بنیاد پر قائم ایک ایسی معاشرت کا تصور دیا جو تعلیم، اخلاق، عدل اور فطرت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ یہی فکر آگے چل کر جماعت اسلامی کی بنیاد بنی جسے انہوں نے اس مقصد کے لیے قائم کیا کہ اسلامی نظام کو محض کتابوں میں نہ چھوڑا جائے بلکہ ایک منظم جدوجہد کے ذریعے عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔

سید مودودیؒ کی تصنیفی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے درجنوں کتب تحریر کیں اور سیکڑوں مضامین لکھے۔ ان کی کتاب تفہیم القرآن ان کے فکری کارنامے کا سنگ ِ میل ہے جس میں انہوں نے قرآن کو جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے سادہ اور عقلی زبان میں بیان کیا۔ اس کے علاوہ الجہاد فی الاسلام میں جہاد کے صحیح مفہوم کو اُجاگر کیا، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی میں اسلامی تمدن کی اساسات بیان کیں، سود میں سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں پر روشنی ڈالی اور اسلامی ریاست میں ایک مکمل سیاسی تصور پیش کیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف اردو خواں طبقے کے لیے مشعل ِ راہ بنیں بلکہ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ نئی ریاست کا نظام کیا ہوگا، تو سید مودودیؒ کی فکر نے ہی اس بحث کا رُخ متعین کیا۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں 1949 کی قراردادِ مقاصد سامنے آئی جس میں یہ طے ہوا کہ پاکستان کا نظام اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔ بعدازاں 1973 کے آئین میں بھی اسلام کو بنیادی حیثیت دینے میں ان کے افکار اور جماعت اسلامی کی جدوجہد کا کردار نمایاں رہا۔ یہ ان کی فکری اور تحریکی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ پاکستان محض ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریاتی ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا۔یقینا ہر بڑی شخصیت کی طرح سید مودودیؒ کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکولر طبقہ انہیں مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے والا قرار دیتا رہا جبکہ بعض علماء نے ان پر جدید تعبیرات کے الزامات لگائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی سب سے بڑی خدمت یہی تھی کہ انہوں نے اسلام کو مسجد سے نکال کر معیشت، سیاست، عدالت، تعلیم اور معاشرت کے ہر میدان تک پہنچایا۔ وہ کہتے تھے: ’’اسلام کو صرف عبادات تک محدود کر دینا، اس کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی ہے‘‘۔

آج جب دنیا سرمایہ دارانہ ظلم، اخلاقی انارکی اور تہذیبی بحران کا شکار ہے، نوجوان نسل ایک ایسے متبادل کی تلاش میں ہے جو انہیں سکون، عدل اور رہنمائی دے سکے۔ مغربی فلسفے ناکام ہو چکے ہیں۔ سرمایہ داری نے چند ہاتھوں میں دولت کو سمیٹ لیا ہے، اشتراکیت نے انسان کی آزادی کو ختم کیا اور سیکولر ازم نے روحانی سکون چھین لیا۔ ایسے وقت میں سید مودودیؒ کی فکر پہلے سے زیادہ زندہ اور متحرک دکھائی دیتی ہے۔ انہیں یقین تھا کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ اس یقین کی بنیاد صرف جذبات نہیں بلکہ قرآن کی وہ بشارت تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے‘‘۔ (الصف: 9) ان کے نزدیک اسلام انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے، اسی لیے یہ لازماً غالب آ کر رہے گا۔ آج دنیا بھر میں اسلامی تحریکیں، چاہے وہ مشرقِ وسطیٰ میں ہوں، ترکی، افریقا یا جنوبی ایشیا میں، سب کسی نہ کسی درجے میں ان کی فکر سے فیض یاب ہو رہی ہیں۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اسلام کو محض ایک مذہب نہیں بلکہ مکمل اور ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے بتا دیا کہ اسلام انسان کی نجی زندگی سے لے کر ریاستی نظام تک ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ آج کی دنیا جس فکری اور تہذیبی بحران سے دوچار ہے، اس کا حل صرف اسی نظام میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام آج بھی تازہ ہے، ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور ان کی فکر آج بھی کروڑوں دلوں کو بیدار کر رہی ہے۔یقینا مستقبل اسلام کا ہے۔ یہ قرآن کا وعدہ بھی ہے اور تاریخ کا ناگزیر انجام بھی۔ سید مودودیؒ نے اسی مستقبل کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اب یہ ذمے داری امت کی ہے کہ وہ اس فکر کو آگے بڑھائے اور دنیا کو عدل، سکون اور رہنمائی کا حقیقی پیغام دے۔

 

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ: اسلام بطور نظامِ حیات
  • غزہ میں قتل عام کے ذمہ دار مودی بھی ہیں؛ بھارتی اداکار نے آئینہ دکھا دیا
  • ‘اجے دیوگن میری اداکاری اور انداز کی نقل کرتے ہیں،’ سینیئر اداکار توقیر ناصر کا بڑا انکشاف
  • سیٹ پر گر کر زخمی ہونے والے معروف بھارتی اداکار انتقال کرگئے
  • صرف اسرائیل نہیں فلسطین پر ہونے والے مظالم میں امریکا اور مودی بھی قصوروارہیں، بھارتی اداکار بھی بول اٹھے
  • ماضی کی مشہور اداکار شہناز شیخ کی پینٹنگز نے شائقین کے دل جیت لیے
  • نبیل ظفر کو زندگی میں کس بات کا بےحد پچھتاوا ہے؟
  • معاوضے میں اضافہ اور لگژری رہائش کی مانگ، دپیکا پڈوکون کو فلم سے نکال دیا گیا
  • آپ کے فریج اب اشتہار بھی دکھائیں گے
  • معروف بھارتی اداکار شوٹنگ کے دوران زخمی، اب حالت کیسی ہے؟