تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
آج کی دنیا اشتراکِ عمل کی متقاضی ہے۔ دنیا بھر میں مسابقت کا بازار گرم ہے۔ مسابقت انسانی فطرت سے بھرپور مطابقت رکھنے والی کیفیت ہے مگر یہ سب کچھ اُس وقت اچھا ہوتا ہے جب اِس سے کچھ فیض پہنچ رہا ہو۔ فضول مسابقت دنیا کا بیڑا غرق ہی کرتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر تجارتی جنگ کا بِگل بجادیا ہے۔ اُنہوں نے نئی تجارتی جنگ شروع کرنے کے لیے نقارے پر پہلی ضرب کے طور پر چار ممالک کے خلاف ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان عالمی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک محسوس کیا جارہا ہے۔ کینیڈا، میکسیکو، چین اور بھارت کے خلاف ٹیرف اس لیے عائد کیا گیا ہے کہ امریکی اشیا و خدمات اِن ملکوں کی منڈی میں قدم جمانے کے حوالے سے انتہائی نوعیت کی مشکلات محسوس کر رہی ہیں۔ چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک کے خصوصی مبصر اسٹیفن ڈیگوا نے لکھا ہے کہ درآمدی ڈیوٹی عائد کرنے کا ٹرمپ کا فیصلہ امریکی معیشت کے لیے شدید منفی مضمرات کا باعث بن سکتا ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کے لیے بھی الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ یہ بات اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ صدر ٹرمپ معاشی معاملات میں امریکا کی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے خاصی جارحیت کے اظہار پر یقین رکھتے ہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے حالیہ بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ تجارتی جنگوں کو پہلو میں لے کر چلنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے جتنے بھی ممالک کے لیے ٹیرف بڑھایا ہے اُن سب نے شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ بھارت اس معاملے میں قدرے محتاط رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ امریکا ایک بڑی منڈی ہے۔ اِس وقت اُسے ناراض کرنا معیشت کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے سے جیسا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے عہد ِ صدارت میں بھی تجارتی جنگ شروع کی تھی اور اب پھر اُنہوں نے یہی جنگ چھیڑ دی ہے۔ عالمی معیشت ایسی کسی بھی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ چینی حکومت بھی امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ چینی حکومت کہتی ہے کہ تجارتی جنگ میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوتا۔ چینی حکومت معاشی معاملات میں جارحانہ نوعیت کی مسابقت کے بجائے مفید اشتراکِ عمل اور انحصارِ باہم پر یقین رکھتی ہے۔ بہت سے اختلافات اور تنازعات کے باوجود امریکا اور چین آج بھی ایک دوسرے کے لیے سب سے بڑے ٹریڈ پارٹنر ہیں۔ اِن کا کام ایک دوسرے سے کچھ لیے اور کچھ دیے بغیر چل نہیں سکتا۔ چین کے برآمدی تاجروں کے لیے امریکا بہت پُرکشش ہے اور دوسری طرف امریکی کاروباری دنیا کے لیے بھی چین بہت بڑی اور انتہائی بارآور منڈی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو نظر انداز کر ہی نہیں سکتے۔
امریکا میں ہزاروں ادارے اپنی اشیا کے لیے چینی پُرزوں پر منحصر ہیں۔ ٹیرف میں 10 فی صد اضافے سے امریکا میں تیار ہونے والی بہت سی چیزیں مہنگی ہوجائیں گی۔ اس کے نتیجے میں امریکی برآمدات باقی دنیا کے لیے مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ چیزیں خود امریکی عوام کے لیے بھی مہنگی ہوجائیں گی۔ امریکی برآمدی تاجروں کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ چینی مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ اُن کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ یہ اندیشہ کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہیں۔
صدر ٹرمپ کو یہ غم ستا رہا ہے کہ امریکا کو تجارت میں چین اور بھارت کے مقابل خسارے کا سامنا ہے۔ توازنِ تجارت کو موافق بنانے کے لیے وہ ٹیرف کا سہارا لے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ امریکیوں کی ملازمتیں بچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات سے معاملات محض خراب ہوں گے۔ امریکی معیشت کو بچانے کی کوششیں جدت اور ندرت کی راہ میں دیواریں کھڑی کر رہی ہیں۔ امریکیوں کی ملازمتیں بچانے کا عمل محض بے روزگاری کو فروغ دے رہا ہے۔ گلوبل سپلائی چَین بھی متاثر ہو رہی ہے۔ امریکا میں کاروباری اداروں کے لیے لاگت بڑھ رہی ہے اور یوں صارفین کو بھی زیادہ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکا کے مقابلے میں چین نے کُھلی مسابقت کی راہ ہموار کی ہے۔ وہ آزاد تجارت پر یقین رکھتا ہے۔ وہ تجارت کے معاملے میں بھی اشتراکِ عمل پر یقین رکھتا ہے۔ اُسے اندازہ ہے کہ الگ تھلگ رہ کر کامیاب نہیں ہوا جاسکتا۔ عالمی سطح پر معیشت کے لیے ابھرنے والے چیلنجز کو سمجھنے میں چینی قیادت دیر نہیں لگاتی اور خاطر خواہ اقدامات بھی ممکن بناتی ہے۔ چین نے عالمی تجارتی تنظیم میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے علاقائی سطح پر بھی جامع معاشی اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کی ہے۔ اس حوالے سے معاہدہ جنوری 2022 میں نافذ ہوا۔
میکسیکو اور کینیڈا نے بھی امریکی صدر کے اقدامات کے جواب میں بہت کچھ کرنے کا انتباہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو معیشتی سطح پر غیر معمولی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا بہت الجھی ہوئی ہے۔ عالمی معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں امریکا کو الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے صدر ٹرمپ اگر مل کر چلیں تو اچھا ہے۔ چین، میکسیکو، کنیڈا اور بھارت کو ساتھ لے کر چلنے کی صورت امریکی معیشت کے لیے بھی امکانات بڑھیں گے۔ ٹیرف کے ذریعے کسی کو سزا دینے کی کیفیت پیدا کرنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے بھی خبردار کیا ہے کہ تجارتی جنگ سے عالمی معیشت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور خود امریکا کے لیے بھی تجارتی جنگ کسی اعتبار سے اچھی بات نہیں۔
(زیرِنظر مضمون چائنا گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک میں شایع ہوا ہے۔ مضمون نگار اسٹیفن ڈیگوا کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قائم تھنک ٹینک ساؤتھ ساؤتھ ڈائیلاگز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: معیشت کے لیے عالمی معیشت تجارتی جنگ کے لیے بھی کرنے کا رہا ہے کی راہ ہے اور کیا ہے
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا