لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سالانہ انتخابات، پی ٹی آئی امیدوار صدر منتخب ہوگئے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات میں پروفیشنل گروپ کے صدارتی امیدوار ملک آصف نسوانہ نے انتخابی دنگل جیت لیا، 7 ہزار 50 ووٹوں سے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کےصدر منتخب ہوگئے۔ملک آصف نسوانی کے مدمقابل انڈیپینڈنٹ گروپ کےناکام صدارتی امیدوار ثاقب اکرم گوندل 6 ہزار 460 ووٹ حاصل کر دوسرے نمبر پر رہے۔نائب صدر کی نشست پر عبدالرحمن رانجھا نے 8 ہزار 255 ووٹ حاصل کئے۔ سیکرٹری کی نشست پر فرخ الیاس چیمہ 6 ہزار 833 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے۔سیکرٹری فنانس کی نشست پر حام بن شعیب کمبوہ بلا مقابلہ کامیاب قرار پائے، بار کے الیکشن میں کل 13 ہزار 602 ووٹ کاسٹ کیے گئے۔کامیاب اُمیدواروں کے حامی نوجوان وکلاء نے زبردست نعرے بازی کی اور جیت کی خوشی میں بھنگڑے بھی ڈالے۔
نومنتخب صدر ملک آصف نسوانہ نے کہا کہ بار اور بینچ کو ساتھ لیکر چلیں گے، وکلاء کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی مضبوطی کے لئے کام کریں گے۔چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا الیکشن جیتے والے پینل کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔بیرسٹر گوہر نے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت پر خوشی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آصف نسوانہ ملک کو صدر لاہور ہائیکورٹ بار منتخب ہونے پر مبارک باد دیتا ہوں، انہوں نے فرخ الیاس چیمہ اور عبد الرحمان رانجھا کو بھی مبارکباد دی۔
بیرسٹر گوہر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ وکلاء کا ریفرنڈم تھا، فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آیا ہے، امید ہے سب عہدیداران عدلیہ کی آزادی کے لئے کام کریں گے، وکلا کا شہریوں کو انصاف کی فراہمی میں کلیدی کردار ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کہا کہ
پڑھیں:
بلدیاتی ادارے اور پارلیمنٹ
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری قرار دیے جاتے ہیں مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ جمہوریت کی یہ نرسری ہمیشہ پاکستان میںغیر سول حکومتوں میں پروان چڑھی اور آمر کہلانے والے حکمرانوں نے ملک کو منتخب بلدیاتی نمایندے دیے اور جمہوری کہلانے والے سیاسی حکمرانوں نے آمروں کے دیے گئے بلدیاتی ادارے پروان چڑھانے کی بجائے انھیں ختم کیا اور اگر برقرار رکھا تو ان کا وجود نہ ہونے کے برابر اور اختیارات برائے نام تھے۔
غیر سول حکومتوں میں منتخب بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کیگئی مگر سیاسی حکومتوں نے سب سے پہلا وار منتخب بلدیاتی اداروں پر کیا اور انھیں توڑ کر ان کے منتخب عہدیداروں کو برطرف کر کے سرکاری افسروں کو بطور ایڈمنسٹریٹر ان پر مسلط کیا۔
قیام پاکستان کے بعد سیاسی حکومت میں 1956 میں ملک کے لیے ایک آئین ملا تھا مگر گورنر جنرلوں کے بعد غلام محمد اور اسکندر مرزا جو بیورو کریٹ اور مکمل اختیارات کے حامل تھے، انھوں نے سیاسی حکومتوں کو ہی چلنے نہیں دیا تو وہ ملک میں بلدیاتی اداروں کو کیوں فروغ دیتے حالانکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ جمہوری ہمیشہ عوام کے منتخب ادارے ہوتے ہیں جن سے عوام کا سب سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اسمبلیوں کی طرح عوام کے ذریعے ہی بلدیاتی اداروں کے پہلے کونسلر منتخب ہوتے ہیں جو بعد میں اپنے اداروں کا اسی طرح انتخاب کرتے ہیں جس طرح ارکان قومی اسمبلی وزیر اعظم کا اور ارکان صوبائی اسمبلی وزرائے اعلیٰ کا کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے ملک میں سب سے پہلے بی ڈی نظام دیا تھا جس کے تحت بی ڈی ممبر منتخب کیے جاتے تھے جو اپنی یوسی کی سربراہی کے لیے یوسی چیئرمین منتخب کرتے تھے جو اپنے شہر کی بلدیہ کے لیے وائس چیئرمین منتخب کرتے تھے جب کہ سرکاری طور پر چیئرمین کا تقررکیا جاتا تھا اور بلدیہ کونسل میں منتخب کونسلروں کے منتخب چیئرمین ممبر ہوتے تھے۔
ان کونسلوں میں چیئرمینوں کے اختیارات زیادہ ہوتے تھے اور ان بلدیاتی کونسلوں کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے جن میں شہر کے مسائل کے حل اور تعمیری و ترقیاتی کاموں کی منظوری دی جاتی تھی۔ صدر جنرل ایوب خان نے ملک کے 80 ہزار یوسی چیئرمینوں کے ذریعے خود کو صدر منتخب کرایا تھا اور محترمہ فاطمہ جناح نے ان کا مقابلہ کیا تھا مگر برسر اقتدار صدر جنرل ایوب نے سرکاری وسائل کے ذریعے دھاندلی کرا کر محترمہ کو شکست دلائی تھی۔ ایوب خان ملک کے پہلے آمر تھے جنھوں نے ملک میں جمہوریت قائم نہیں ہونے دی تھی جن کے پوتے عمر ایوب موجودہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور قومی اسمبلی میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو 1958 میں سیاسی جمہوری حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لا لگانے والے ان کے دادا کے حوالے سے ان پر کڑی تنقید ہوتی ہے۔
جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھالا تھا جن کے اقتدار میں ملک دولخت ہوا تھا۔ 1970 کے الیکشن کے نتیجے میں باقی پاکستان کے بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے تھے جنھوں نے ملک کو 1973 کا جو متفقہ آئین دیا تھا۔ اس میں عوام کے منتخب بلدیاتی اداروں کا قیام بھی ہونا تھا مگر بھٹو دور میں ملک میں کوئی بلدیاتی الیکشن نہیں ہوا تھا۔ 1977 میں ملک میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگانے کے بعد 1979 میں ملک کو نیا بلدیاتی نظام دیا تھا جس کے تحت ہر چار سال بعد باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات ہوئے جن میں کونسلر ٹاؤن، شہر، ضلع کونسلوں کے لیے چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کا انتخاب کرتے تھے جو ہر ماہ اپنے بلدیاتی اداروں کے اجلاس منعقد کرتے جن میں اہم فیصلے ہوتے جن سے بلدیاتی مسائل حل ہوتے تھے اور بلدیاتی اداروں کے سربراہوں تک سے لوگ مل کر اپنے علاقوں کے بنیادی مسائل حل کراتے تھے مگر جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام میں کمشنروں، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کو ان بلدیاتی اداروں پر کنٹرولنگ اتھارٹی کے اختیارات حاصل ہوا کرتے تھے اور منظور شدہ بجٹ کی منظوری ان کے ذریعے اور توثیق محکمہ بلدیات کرتا تھا اور جنرل ضیا کا بلدیاتی نظام بااختیار نہیں تھا۔
جنرل پرویز مشرف مسلم لیگ اور پی پی کے مخالف تھے انھوں نے نواز شریف کو ہٹا کر خود اقتدار سنبھالا تھا اور انھوں نے قومی تعمیر نو بیورو بنایا تھا جس کے تحت انھوں نے 2001 میں ملک کو ایک مکمل بااختیار نظام ضلعی حکومتوں کی شکل میں دیا تھا جس سے ملک بھر میں ضلعی حکومتیں قائم ہوئیں جن کے منتخب ناظمین کو مکمل مالی و انتظامی اختیارات دیے گئے تھے اور ملک سے کمشنری نظام ختم کر دیا گیا تھا اور ہر صوبے میں محکمہ بلدیات برائے نام رہ گیا تھا جس کی جنرل ضیا کے دور میں بلدیاتی اداروں پر مکمل گرفت ہوتی تھی۔
ضلعی حکومتوں میں صوبائی سیکریٹریوں، کمشنر و ڈپٹی کمشنروں کو بطور ڈی سی اور ہر ضلعی ناظم کا ماتحت کر دیا تھا اور بلدیاتی اداروں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مداخلت ختم ہوئی جن کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز ضلعی حکومتوں کو ملے اور ضلعی حکومتوں نے بہترین کارکردگی دکھائی جس کی واضح مثال کراچی کی سٹی حکومت تھی جس کے سٹی ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے کراچی کی کایا پلٹ دی تھی اور دیگر اضلاع میں بھی ضلعی حکومتوں نے بہترین ترقیاتی کام کرائے جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی کی اہمیت ختم ہوئی اور ناظمین کی اتنی اہمیت بڑھی تھی کہ متعدد ارکان اسمبلی نے اسمبلیاں چھوڑ کر ناظمین کا الیکشن لڑا تھا اور بیورو کریسی بھی ضلعی نظام کے خلاف تھی اور دونوں نے مل کر ضلعی حکومتی نظام ختم کرایا تھا۔
2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کی حکومتیں تھیں اور 2005 میں وزرائے اعلیٰ نے ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کی خوشنودی کے لیے ضلعی حکومتوں کے اختیارات کم کرانے پر جنرل پرویز کو راضی کیا تھا تاکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی اہمیت بڑھے کیونکہ ضلعی حکومتوں کی وجہ سے پارلیمنٹ اور اسمبلیاں قانون سازی تک محدود ہو گئی تھیں جو ان کا اصل کام تھا مگر اسمبلی ارکان و ارکان پارلیمنٹ بلدیاتی اداروں کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے محروم ہو گئے تھے جو ان کی کمائی، اثر و رسوخ اور کرپشن کا ذریعہ تھا۔ 2008 میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے 2009 میں بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے جنرل ضیا کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کر دیا تھا جو مزید بے اختیار ہو کر محکمہ بلدیات کے تحت محکوم ہو کر رہ گیا ہے اور پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان بلدیاتی اداروں پر حاوی ہیں۔