جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 فروری 2025ء) جرمنی کی سولہ ریاستیں ہیں اور ان سب میں ایک ساتھ ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ جرمنی کی تراسی ملین آبادی میں تقریباً اکسٹھ ملین افراد حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔
جرمنی ابتداء میں تین سو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا لیکن جب نیپولین نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اُس نے ریاستوں کی تعداد کم کر کے تیس (30) کر دی۔
1871ء میں جب پُروشیا کے چانسلر اُوٹو فون بسمارک نے جرمنی کو مُتحد کیا تو رائشٹاگ کے الیکشن میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی جو مارکس کے نظریے کی حامی تھی، اکثریت سے منتخب ہوئی۔ بسمارک نے پارٹی کی مقبولیت کو روکنے کے لیے فلاحی ریاست کا پلان نافذ کیا۔ اس کے بعد جرمنی میں رائشٹاگ کے بارہ جنرل الیکشن ہوئے۔(جاری ہے)
پہلی عالمی جنگ جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تھی، اس کے بعد معاشی بحران کی وجہ سے مہنگائی میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔
اِن حالات میں جرمن سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہٹلر کی رہنمائی میں نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی مقبولیت بڑھی۔ 1933ء کے جنرل الیکشن میں ہٹلر نے جارحانہ پراپیگینڈا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں وہ تقریباً تین شہروں میں خطاب کرتا تھا۔ وہ اس تیز ترین سفر کے لیے جہاز استعمال کرتا تھا۔ جلسہ ایک چھوٹے ہال میں منعقد ہوتا تھا تا کہ حال لوگوں سے بھر جائے اور جن کو حال میں جگہ نہ ملے وہ باہر کھڑے رہیں۔ہٹلر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کم از کم 15 منٹ کی تاخیر سے جلسہ گاہ میں آتا تھا تا کہ لوگ اُس کا انتظار کریں۔ انتخابات میں نازی پارٹی کو کامیابی ہوئی اور جرمنی کے صدر پاؤل فان ہنڈن برگ نے ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنا دیا۔ جرمنی کے صدر کے انتقال کے بعد اُس نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جب تک ہٹلر اقتدار میں رہا جرمنی میں کوئی انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP)، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) نے انتخابات میں حصہ لیا۔ جنگ کے بعد کونراڈ آڈیناؤر جرمنی کے پہلے چانسلر بنے۔ جرمنی نے ہٹلر کی آمریت اور جنگ کی تباہی کے نتیجے میں بہت کچھ سیکھا۔ آمریت کو روکنے کے لیے معاشرے کے ہر شعبے میں جمہوری روایات کو نافذ کیا۔ چاہے تعلیمی ادارے ہوں، سرکاری دفاتر ہوں یا کسی پلازہ کے رہائشی ہوں یہ ہر مسئلے کے لیے اسمبلی بُلا کر بحث و مُباحثہ کے زریعے اور اکثریتی ووٹوں کے ذریعے فیصلے کرتے رہے۔
یہ روایت بھی ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یا چانسلر غلطی کرے تو اُس کا احتساب کیا جاتا ہے۔ سیاست کے سلسلے میں جرمنی کا میڈیا بہت حساس ہے۔ ولی برانٹ جنہیں جرمنی کا قابل ترین چانسلر کہا جاتا تھا، انہوں نے اس خبر کے بعد استعفیٰ دے دیا کہ اُن کے اسٹاف میں مشرقی جرمنی کا ایک مخبر شامل ہو گیا تھا۔ بہت سے سیاستدانوں نے تو اپنے خلاف اسکینڈلز سامنے آنے یا تنقید کے بعد اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے۔
ابھی حال میں کرسٹینے لامبریشٹ نے وزارت دفاع کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ انہیں کئی معاملات میں تنقید کا سامنا تھا۔ سابق صدر کرسٹیان وولف نے بھی بدعنوانی کے الزامات کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح ماضی میں وزیر دفاع رہنے والے کارل تھیوڈور سو گٹن برگ بھی سرقے کے الزامات کے بعد اپنا منصب اور سیاست دونوں ہی چھوڑ گئے تھے۔
جرمنی کے الیکشن شفاف ہوتے ہیں۔ اُمیدوار میڈیا کو اپنے پراپیگینڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جلسے جلوس بہت منظم انداز میں منعقد ہوتے ہیں۔رائے دہی کے لیے اتوار کے دن رکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز تعلیمی اداروں میں بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی پولنگ بوتھ کے باہر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی کیمپ نہیں لگا ہوتا۔شہری آتے جاتے ہیں اور خاموشی سے اپنا ووٹ ڈال کر چلے جاتے ہیں۔
انتخابات سے قبل لگائے جانے والے اندازے اکثر درست ثابت ہوتے ہیں۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی نہیں کی جاتی اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو بخوشی تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جرمنی کا جاتے ہیں جرمنی کے کے بعد ا جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
ہسپانوی اپوزیشن کی میڈرڈ میں بڑی ریلی، نئے الیکشن کا مطالبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جون 2025ء) اسپین میں اتوار کے روز حکومت کی مبینہ بدعنوانی کے خلاف حزب اختلاف کی قیادت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں بیسیوں ہزار شہریوں نے شرکت کی۔
ملکی دارالحکومت میڈرڈ میں ہونے والی اس ریلی کو ’’مافیا یا جمہوریت‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا، جس میں مقامی حکام کے مطابق تقریباﹰ پچاس ہزار لوگوں نے شرکت کی، جب کہ شہر کے دائیں بازو کے میئر نے مظاہرین کی تعداد ایک لاکھ بتائی۔
ہسپانوی دارالحکومت کے مرکز میں پلازہ ڈے ایسپانیا نامی ایک بڑا چوک مظاہرین سے بھرا ہوا تھا، جہاں بہت سے لوگ سرخ اور پیلے ہسپانوی پرچم لہرا رہے تھے۔
اسپین میں سیاحوں کی آمد کا نیا سالانہ ریکارڈ، چورانوے ملین
اپوزیشن کا سانچیز پر ’مافیا‘ حکومت چلانے کا الزامشہر کے میئر خوزے لوئس مارٹینیز المائیڈا نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ وزیر اعظم پیدرو سانچیز کی بائیں بازو کی حکومت کے بارے میں سامعین سے کہا کہ ان کی جماعت پیپلز پارٹی (پی پی) ’’جلد سے جلد مافیا کو بھگانا اور ملک کی جمہوریت کو بحال کرنا چاہتی‘‘ ہے۔
(جاری ہے)
ریلی میں شریک بہت سے مظاہرین نے نعرے لگائے: ’’پیدرو سانچیز، استعفیٰ دو!‘‘
ایک لیک ہو جانے والی آڈیو ریکارڈنگ میں مبینہ طور پر حکمراں اتحاد سے تعلق رکھنے والی سیاسی کارکن لیئرے ڈیئز کو پولیس یونٹ کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلاتے ہوئے پیش کیا گیا ہے، جو وزیر اعظم کی قریبی سیاسی کارکن رہ چکی ہیں۔
اسپین کی طرف رواں کشتی ڈوبنے کا واقعہ، متعدد پاکستانیوں سمیت پچاس تارکین وطن ہلاک
پولیس حکام نے وزیر اعظم سانچیز کی اہلیہ، بھائی اور ان کی ایک سابقہ قریبی ساتھی کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت تحقیقات بھی کی تھیں۔
البتہ سیاسی کارکن لیئرے ڈیئز نے ان الزامات کی تردید کی اور ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ وہ ایک کتاب کے لیے تحقیق کر رہی تھی اور سانچیز کے لیے کام نہیں کر رہی تھیں۔
پیدرو سانچیز کی حکومت اور ان کے اتحادیوں کو ایسی کرپشن کی متعدد تحقیقات کا سامنا ہے، جس کی وزیر اعظم تردید کرتے ہیں۔
پی پی کا قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہپیپلز پارٹی کے ایک رہنما البیرٹو نونیز فیئخو نے بدعنوانی کے حوالے سے حکومت پر ’’مافیا کے طرز عمل‘‘ کا الزام لگایا اور مظاہرین کو بتایا کہ اس حکومت نے ’’سیاست، ریاستی اداروں، اختیارات کی علیحدگی‘‘ سب کو داغ دار کر دیا ہے۔
انہوں نے ملک میں عام انتخابات جلد از جلد کرانے کا مطالبہ کیا، جبکہ مقرر وقت کے مطابق سن 2027 میں آئندہ قومی انتخابات ہونا ہیں۔جنوب مشرقی اسپین میں سیلاب، کم ازکم اکیاون افراد ہلاک
لیکن فیئخو نے پہلے ہی ممکنہ قبل از وقت انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کے کارکنان سے تیار رہنے کے لیے کہا۔ البتہ اپوزیشن لیڈر نے ابھی تک سانچیز کی اقلیتی حکومت کے خلاف پارلیمان میں کوئی مذمتی تحریک پیش نہیں کی۔
ایسا کرنے کے لیے انہیں علاقائی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہو گی، جو دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹی کے ساتھ اشتراک عمل سے گریز کرتی رہی ہیں۔
اپریل 2022 میں فیئخو کے پارٹی لیڈر بننے کے بعد سے اتوار کے روز کا یہ چھٹا حکومت مخالف عوامی احتجاج تھا، جس کا اہتمام پی پی نے کیا۔
حد سے زیادہ سیاحت، رہنے کو جگہ نہیں
بدعنوانی کی تحقیقات ’بدنام کرنے کی مہم‘ہسپانوی حکومت کے ایک ترجمان نے کل اتوار کے روز ہونے والے اس مظاہرے میں شرکاء کی تعداد کا مذاق اڑایا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ایک ہسپانوی راک میوزک جوڑی نے حال ہی میں میڈرڈ میں فیئخو سے زیادہ بڑا ہجوم جمع کر لیا تھا۔
اسی دوران پیدرو سانچیز نے اپنے اندرونی حلقے کے ارکان کے خلاف تحقیقات کو دائیں بازو کی جانب سے ’’بدنام کرنے کی ایک مہم‘‘ قرار دیتے ہوئے بدعنوانی کے تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔
ہزاروں تارکین وطن کی تیر کر مراکش سے اسپین پہنچنے کی کوشش
حالیہ عوامی جائزوں کے مطابق پی پی کو فی الحال بائیں بازو کے اتحاد کے مقابلے میں تھوڑی سی برتری حاصل ہے، حالانکہ سانچیز اب بھی تمام پارٹی رہنماؤں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مقبول رہنما ہیں۔
ادارت: مقبول ملک