UrduPoint:
2025-09-18@11:28:53 GMT

جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 فروری 2025ء) جرمنی کی سولہ ریاستیں ہیں اور ان سب میں ایک ساتھ ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ جرمنی کی تراسی ملین آبادی میں تقریباً اکسٹھ ملین افراد حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔

جرمنی ابتداء میں تین سو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا لیکن جب نیپولین نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اُس نے ریاستوں کی تعداد کم کر کے تیس (30) کر دی۔

1871ء میں جب پُروشیا کے چانسلر اُوٹو فون بسمارک نے جرمنی کو مُتحد کیا تو رائشٹاگ کے الیکشن میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی جو مارکس کے نظریے کی حامی تھی، اکثریت سے منتخب ہوئی۔ بسمارک نے پارٹی کی مقبولیت کو روکنے کے لیے فلاحی ریاست کا پلان نافذ کیا۔ اس کے بعد جرمنی میں رائشٹاگ کے بارہ جنرل الیکشن ہوئے۔

(جاری ہے)

پہلی عالمی جنگ جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تھی، اس کے بعد معاشی بحران کی وجہ سے مہنگائی میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔

اِن حالات میں جرمن سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہٹلر کی رہنمائی میں نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی مقبولیت بڑھی۔ 1933ء کے جنرل الیکشن میں ہٹلر نے جارحانہ پراپیگینڈا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں وہ تقریباً تین شہروں میں خطاب کرتا تھا۔ وہ اس تیز ترین سفر کے لیے جہاز استعمال کرتا تھا۔ جلسہ ایک چھوٹے ہال میں منعقد ہوتا تھا تا کہ حال لوگوں سے بھر جائے اور جن کو حال میں جگہ نہ ملے وہ باہر کھڑے رہیں۔

ہٹلر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کم از کم 15 منٹ کی تاخیر سے جلسہ گاہ میں آتا تھا تا کہ لوگ اُس کا انتظار کریں۔ انتخابات میں نازی پارٹی کو کامیابی ہوئی اور جرمنی کے صدر پاؤل فان ہنڈن برگ نے ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنا دیا۔ جرمنی کے صدر کے انتقال کے بعد اُس نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جب تک ہٹلر اقتدار میں رہا جرمنی میں کوئی انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP)، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) نے انتخابات میں حصہ لیا۔ جنگ کے بعد کونراڈ آڈیناؤر جرمنی کے پہلے چانسلر بنے۔ جرمنی نے ہٹلر کی آمریت اور جنگ کی تباہی کے نتیجے میں بہت کچھ سیکھا۔ آمریت کو روکنے کے لیے معاشرے کے ہر شعبے میں جمہوری روایات کو نافذ کیا۔ چاہے تعلیمی ادارے ہوں، سرکاری دفاتر ہوں یا کسی پلازہ کے رہائشی ہوں یہ ہر مسئلے کے لیے اسمبلی بُلا کر بحث و مُباحثہ کے زریعے اور اکثریتی ووٹوں کے ذریعے فیصلے کرتے رہے۔

یہ روایت بھی ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یا چانسلر غلطی کرے تو اُس کا احتساب کیا جاتا ہے۔ سیاست کے سلسلے میں جرمنی کا میڈیا بہت حساس ہے۔ ولی برانٹ جنہیں جرمنی کا قابل ترین چانسلر کہا جاتا تھا، انہوں نے اس خبر کے بعد استعفیٰ دے دیا کہ اُن کے اسٹاف میں مشرقی جرمنی کا ایک مخبر شامل ہو گیا تھا۔ بہت سے سیاستدانوں نے تو اپنے خلاف اسکینڈلز سامنے آنے یا تنقید کے بعد اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے۔

ابھی حال میں کرسٹینے لامبریشٹ نے وزارت دفاع کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ انہیں کئی معاملات میں تنقید کا سامنا تھا۔ سابق صدر کرسٹیان وولف نے بھی بدعنوانی کے الزامات کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ اسی طرح ماضی میں وزیر دفاع رہنے والے کارل تھیوڈور سو گٹن برگ بھی سرقے کے الزامات کے بعد اپنا منصب اور سیاست دونوں ہی چھوڑ گئے تھے۔

جرمنی کے الیکشن شفاف ہوتے ہیں۔ اُمیدوار میڈیا کو اپنے پراپیگینڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جلسے جلوس بہت منظم انداز میں منعقد ہوتے ہیں۔رائے دہی کے لیے اتوار کے دن رکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز تعلیمی اداروں میں بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی پولنگ بوتھ کے باہر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی کیمپ نہیں لگا ہوتا۔شہری آتے جاتے ہیں اور خاموشی سے اپنا ووٹ ڈال کر چلے جاتے ہیں۔

انتخابات سے قبل لگائے جانے والے اندازے اکثر درست ثابت ہوتے ہیں۔ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی نہیں کی جاتی اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو بخوشی تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جرمنی کا جاتے ہیں جرمنی کے کے بعد ا جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم

لاہور (خصوصی نامہ نگار) مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے یومِ جمہوریت کے موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ جمہوریت محض ایک سیاسی نظام نہیں بلکہ ایک ایسا اصولی طریقہ ہے جس میں عوامی رائے اور اعتماد کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان کے قیام کی بنیاد بھی جمہوری جدوجہد پر رکھی گئی تھی اور آج ملک کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کا راستہ بھی صرف جمہوری اقدار کو اپنانے اور ان کے استحکام سے ہو کر گزرتا ہے۔ جمہوریت میں عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قیادت کا انتخاب کریں اور اپنی آواز کو ایوانوں تک پہنچائیں۔ یہی نظام عوامی شمولیت، قانون کی بالادستی، باہمی احترام اور قومی وحدت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری عمل کو مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ قوم کو سیاسی استحکام، معاشی خوشحالی اور سماجی انصاف میسر آ سکے۔ انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان جمہوری استحکام، عوامی حقوق کے تحفظ اور ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے ہمیشہ اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ تمام سیاسی قوتوں کو ملک و قوم کی بہتری کے لیے باہمی تعاون اور یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • یہودی تنظیم کا جرمن چانسلر پر اسرائیل کی حمایت کے لیے زور
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • جرمنی: اسلام مخالف ریلی میں حملہ کرنےوالے افغانی کو عمر قید
  • جرمنی؛ گستاخِ اسلام کو چاقو مارنے کے الزام میں افغان نژاد شخص کو عمر قید
  • نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائن دھماکوں کے ملزم کی جرمنی حوالگی
  • جرمنی میں اسلام مخالف ریلی میں چاقو حملہ کرنے والے افغان شہری کو عمر قید کی سزا
  • جمہوریت عوام کی آواز ہے اور اس کی حفاظت ہم سب پر لازم ہے‘وزیراعلیٰ
  •  یہ دن قربانی اور جدوجہد کی  یاد دلاتا ہے‘ناصر شاہ