شہید سید حسن نصراللہ، طالب علم سے قومی ہیرو بننے تک کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے سید حسن نصراللہ کو لبنانی پارلیمان کی سربراہی اور 54 بلین ڈالر امداد کی پیشکش کی، بشرطیکہ وہ فلسطینی محاذ سے دور رہیں۔ تاہم سید حسن نصراللہ نے سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مدبرانہ راستہ اختیار کیا۔ ان کی حکمت عملی نے لبنان کے اندر مختلف سیاسی و فکری حلقوں میں مزاحمت کے نظریے کی مقبولیت کو مزید تقویت دی۔ آج لبنان میں مختلف مذاہب اور سیاسی نظریات سے وابستہ لوگ روزمرہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر شہید نصراللہ کو ایک قومی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خصوصی تحریر
ستمبر 2024ء کے آخری ایام میں جب صیہونی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی تیاری کر رہے تھے، بین الاقوامی میڈیا شمالی محاذ پر ممکنہ جنگ بندی کی خبریں دے رہا تھا۔ لبنانی رہنما امریکی ثالثی سے مثبت نتائج کی امید کررہے تھے لیکن اسی دوران حزب اللہ اور سپاہ پاسداران کے اعلی حکام نے بیروت میں ایک خفیہ اجلاس بلایا تاکہ میدان جنگ کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔ نتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر سے چند لمحے قبل اسرائیلی فوج کو سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈرز پر حملے کا حکم دیا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی دفتر پر بمباری کی تاکہ یقینی طور پر حزب اللہ کی قیادت کو ختم کیا جاسکے۔ اگرچہ اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اس حملے سے حزب اللہ کی طاقت ختم ہوجائے گی مگر یہ حملہ درحقیقت لبنانی مزاحمت میں ایک نئی روح پھونکنے کا سبب بنا۔ حسن نصراللہ کی شہادت نے حزب اللہ کو مزید متحد اور مضبوط کردیا، اور لبنانی عوام میں ان کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔
طالب علم سے حزب اللہ کی قیادت تک
چالیس سال قبل جب اسرائیلی ٹینک فلسطینی آزادی کی تنظیم کے خلاف کارروائی کے بہانے بیروت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، لبنانی مجاہدین کی ایک جماعت تحریک امل سے وجود میں آئی، جو بعد میں لبنان کی اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ لبنانی مجاہدین نے انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی (رح) کی فکر سے متاثر ہو کر ولایت فقیہ کے نظریے کو اپنایا اور غیر ملکی قابضین کے خلاف مسلح جدوجہد کا عزم کیا۔ 23 اکتوبر 1983ء کو بیروت میں قابض امریکی فوجی مرکز پر ہونے والے حملے میں 241 امریکی میرینز اور 58 فرانسیسی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس وقت جب امریکی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجی بیروت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، لبنانی مجاہدین نے اپنے محدود وسائل کے باوجود دشمنوں کے انخلا کی بنیاد رکھ دی، جو 21ویں صدی کے آغاز تک مکمل ہوا۔ اس وقت مقاومت کے حامیوں کو امید ہوگئی کہ حزب اللہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن چکی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے، شہید عباس موسوی کے بعد، ایک چھوٹے سے گوریلا گروہ کو لبنان کی سب سے بڑی سیاسی و عسکری طاقت میں بدل دیا۔
لبنان کی ریاست سازی میں شہید نصر اللہ کا کلیدی کردار
لبنان کی تعمیر کے عمل میں شہید سید حسن نصراللہ نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی قوم پرستی اور لبنان کی سلامتی سے غیر متزلزل وابستگی کا سب سے نمایاں مظاہرہ طوفان الاقصی کے دوران سامنے آیا۔ جب عزالدین قسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف غیر متوقع آپریشن کیا، تو مزاحمتی محور کے بعض رہنماؤں نے حزب اللہ سے شمالی محاذ پر براہ راست مداخلت کا مطالبہ کیا۔ اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے سید حسن نصراللہ کو لبنانی پارلیمان کی سربراہی اور 54 بلین ڈالر امداد کی پیشکش کی، بشرطیکہ وہ فلسطینی محاذ سے دور رہیں۔ تاہم سید حسن نصراللہ نے سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مدبرانہ راستہ اختیار کیا۔ ان کی حکمت عملی نے لبنان کے اندر مختلف سیاسی و فکری حلقوں میں مزاحمت کے نظریے کی مقبولیت کو مزید تقویت دی۔ آج لبنان میں مختلف مذاہب اور سیاسی نظریات سے وابستہ لوگ روزمرہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر شہید نصراللہ کو ایک قومی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
محور مقاومت خطے کی سلامتی کی ضامن
سید حسن نصر اللہ اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد نتن یاہو نے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا منصوبہ عملی بنانے پر زور دینا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنے روایتی موقف کے تحت دو ریاستی فارمولے پر تاکید کی تو نتن یاہو نے انتہائی جسارت کے ساتھ کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ اتنی ہمدردی ہے تو ان کو سعودی عرب میں زمین دے کر بسائیں۔ حالیہ عرصے میں صہیونی حکام کے بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطی کی سلامتی کے لیے شہید حسن نصر اللہ جیسے رہنماؤں کی کس قدر ضرورت ہے۔ اگر حزب اللہ جیسی تنظیمیں مقاومت نہ کریں تو عرب ممالک خطے کی جغرافیائی سرحدیں بدلنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔
حاصل سخن
آج، اتوار 23 فروری کو، لبنان کے لوگ اور تمام مقاومت کے حامی سید حسن نصر اللہ کی تشییع جنازہ میں شرکت کی جو نہ صرف لبنان بلکہ علاقے کی سلامتی کا ضامن بھی تھا۔ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں یہ بات ثابت ہوگی کہ شہید سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت کی، بلکہ عربی-اسلامی عزت و شرافت کو بھی غاصب صہیونی رژیم کے سامنے برقرار رکھا۔ 23 فروری کا دن حزب اللہ کی لبنانی سیاست میں واپسی اور مشرق وسطی میں مقاومت کے دوبارہ عروج کا نکتہ آغاز بن گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سید حسن نصراللہ نے حسن نصر اللہ حزب اللہ کی نصراللہ کو کی سلامتی نتن یاہو لبنان کی اللہ نے اللہ کو
پڑھیں:
پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 ستمبر2025ء) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان نے تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن انداز میں حل کی حمایت کی ہے، قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہیں، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، او آئی سی فورم سے بھرپور انداز میں اسرائیلی حملے کی مذمت کی گئی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ”الجزیرہ“ کو انٹرویو میں کیا۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، پاکستان امن پسند ملک ہے اور مذاکرات سے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل کے ایک خود مختار ملک پر حملے کا کوئی جواز نہیں ، قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد ہم نے صومالیہ کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی درخواست کی۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ قطر کے دوست اور برادر ملک کے طور پر پاکستان نے فعال کردار ادا کیا، اسرائیلی حملے کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی یقینی بنائی جائے، غزہ کے عوام انتہائی مشکلات کا شکار ہیں، اسرائیلی اشتعال انگیزیوں سے واضح ہے کہ وہ ہرگز امن نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کا داعی رہا ، قطر پر اسرائیل کا حملہ مکمل طور پر خلاف توقع اقدام تھا۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں، جوملک دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہے بھارت کا اس پر الزام لگانا باعث حیرت ہے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، ہم کسی کو اپنی خودمختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم ہوئی، بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو ختم یا معطل نہیں کرسکتا، مستقبل کی جنگیں پانی پر ہونی ہیں۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے واضع کردیا ہے کہ پانی روکنے کے عمل کو اعلان جنگ سمجھا جائے گا، بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کے حل کے لئے مذاکرات بہترین راستہ ہے جن کی کامیابی کے لئے سنجیدگی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا، سلامتی کونسل میں اصلاحات کی جانی چاہئیں، سلامتی کونسل کو کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کے حل کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔\932