Express News:
2025-09-18@13:23:51 GMT

ملک کا بیڑہ غرق کس نے کیا

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباًاٹھتر برس بیت چکے ہیں مگر اس عرصے میں ہم نے ترقی سے زیادہ تنرلی کی منازل طے کی ہیں اور نتیجتاً آج اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہر وقت دیوالیہ ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔خاص کر پچھلے دس برسوں میں یہ خطرہ خطرناک حدوں کو چھونے لگا اورایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم حقیقتاً ڈیفالٹ کرچکے تھے بس اس کا برملا اعتراف اور اعلان کرنے سے ہچکچاتے رہے۔

خدا کا شکر ہے کہ قوم کی زبردست قربانیوں کے نتیجے میں ہم آج اس خطرے سے وقتی طور پر باہر نکل چکے ہیں،لیکن یہ خطرہ مکمل طور پر ابھی ٹلا نہیںہے۔تلوار ابھی بھی ہمارے سروں پر لٹکی ہوئی ہے۔ کوئی بھی انہونہ واقعہ یا سیاسی عدم استحکام ہمیں پھر ایڑھیاں رگڑنے پرمجبور کرسکتا ہے۔سیاسی وابستگی کو پس پشت ڈال کر اورتعصب کی عینک اتار کر اگر ہم اپنی ان ناکامیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ ہم نے کسی بھی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے ہی نہیں دی۔

ہمارے عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ۔سیاسی رہنماؤں پر تنقید کرنے اورناکامیوں کا سارا الزام جمہوریت پر ڈالنے والے تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ دو ڈھائی برس کی حکومتوں سے ہم یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ اس مختصر سے عرصے میں قوم کی کایا پلٹ کر رکھ دیں گے۔ ہم تجزیہ کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی فراموش کرجاتے ہیںکہ کس سیاسی رہنما نے اس تھوڑے سے عرصے میں ملک کی خوشحالی اورترقی کے لیے بلاشبہ کچھ نہ کچھ کیاہے۔

تنقید کرتے ہوئے ہم تمام سیاسی رہنماؤں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتے ہوئے سب کواِن ناکامیوں کا ذمے دار قرار دینے لگتے ہیں۔تیس برس تک بلاروک ٹوک حکمرانی کرنے والے غیر جمہوری حکمرانوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے انھیں معاف کردیتے ہیں۔جب کہ دیکھا جائے تو دس دس برس تک کسی بھی مداخلت کے بنا بلا خوف وخطر اورکسی جواب دہی کے بغیر حکومت کر نے والے اگر چاہتے تو اس ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتے تھے۔جمہوری حکمرانوں پر تو دیدہ و نادیدہ بہت دباؤ ہوا کرتا ہے۔ اُسے تو اپنے سیاسی لوگ ہی چین سے حکومت کرنے نہیں دیتے ہیں۔

ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جمہوری حکمرانوں نے اس ملک کے لیے کچھ بھی نہیںکیا۔وہ حتی المقدور اپنی ڈیوٹی بڑی جانفشانی سے ادا کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت ہی کو لے لیجیے ، وہ جس طرح شبانہ روز مستعدی اورمحنت سے ملک اور قوم کومالی عدم استحکام سے باہر نکالنے کی کوششیں کررہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے ۔

یہ اور بات ہے کہ اس کے مخالف اسے تسلیم کرنے میں خفت اورشرم محسوس کرتے ہیںلیکن دنیا کے مالیاتی ادارے ان کوششوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کااعتراف بھی کرتے ہے۔قطع نظر اس کے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں قوم پر مہنگائی کا بہت بڑا بوجھ ڈالا گیا اورجس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کو سیاسی قربانی بھی دینی پڑی لیکن بہرحال اسی شہباز شریف نے اس ایک سال میں بہت سے اچھے کام بھی کرکے دکھادیے ہیں۔رفتہ رفتہ ملک کنگالی کے اثرات سے باہر نکل رہا ہے اورقوم کو اُمید بن چکی ہے کہ اگر اس حکومت کو چلنے دیاگیا تو ہم یقیناً 2017 والی پوزیشن پر پہنچ جائیںگے جب ہم نے IMF کو خدا حافظ کہہ دیا تھااوراپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے تھے۔ مہنگائی کا وہ عالم بھی نہیںتھا جوبڑھتے بڑھتے آج اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہرنکل چکی ہے۔

 سوچا جائے کہ ایسا کیونکر ہوا۔ وہ کونسی سازشیں تھیں جس نے ایک اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو ترقی وخوشحالی کی پٹریوں سے اتارکرتنزلی اورتباہی کی گہری کھائی میں دھکیل دیا۔الیکشن میں دھاندلی کا شوشہ کھڑا کرکے پہلے ہی برس لانگ مارچ اور ڈی چوک پردھرنے کے نام پرقبضہ کرکے اس حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے اوراس میںناکامی کے بعد پاناما اسکینڈل کھڑا کردیا گیا،اس پاناما لیکس میں 480افراد کے نام درج تھے لیکن صرف ایک شخص جس کانام بھی اس فہرست میں شامل نہیں تھااسے تختہ مشق بناکرمحروم اقتدار کردیاگیا، ایسا کیوں کیاگیا ؟

یہ وہ زمانہ تھا جب اس ملک سے طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کا خاتمہ کیاگیا، کراچی شہر سے بدامنی اورقتل وغارت گری ختم کی گئی ، توانائی کے بحران کا حل تلاش کیا گیا اورسب سے بڑھ کرسی پیک منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد شروع کردیا گیا۔ دشمنوں کو یہ خوف طاری ہونے لگا کہ اس شخص کو اگر چلنے دیاگیا تو پھر 2018 الیکشن میں اسے ہرانا ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا اس کا راستہ نہ صرف روک دیاگیا بلکہ اسے تاحیات نااہل قرار دیکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا۔اس کے بعد جوکچھ بھی ہوا ہم آج اسی کے نتائج اور شاخسانے بھگت رہے ہیں۔

 ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پرویزمشرف کے دور میں دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستہ کاکردار اداکرنے کی وجہ سے ہمارا ملک خود اسی دہشت گردی کی آگ میں جلنے لگا اوردس پندرہ برسوں تک جلتارہابلکہ دیکھا جائے تو ابھی تک سلگ رہا ہے۔بلوچستان اورخیبر پختون خوا میںآج بھی امن کا فقدان ہے۔

یہ اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کے لوگ ہمیں اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔وہ امریکا کا تو کچھ بگاڑ نہیںسکتے لیکن ہمارے یہاں گوریلاجنگ تولڑسکتے ہیں۔ انھیں ہم سے زیادہ بھارت عزیز لگنے لگا ہے۔ ایک طرف عدم تحفظ اور دوسری طرف سیاسی عدم استحکام ہوتو پھربھلا یہ ملک ترقی کرے تو کیسے کرے۔پرویز مشرف کے دور کو ایک بہتر دورخیال کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس دور میں ہم غیر محفوظ اور خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل کردیے گئے تھے اورکوئی ملک اپنا وفد یا کھلاڑی بھی بھیجنے کو تیار نہ تھا۔ہم دس برس تک اپنے یہاں کوئی ٹورنامنٹ بھی نہیںکرواپائے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عدم استحکام کرتے ہوئے بھی نہیں ہیں کہ

پڑھیں:

حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ

   وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے نہ صرف قرضوں کے خطرات کم ہوئے بلکہ 850 ارب روپے سود کی مد میں بچت بھی ہوئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی (Debt-to-GDP) شرح کم ہو کر 74 فیصد سے 70 فیصد تک آ گئی ہے، جو ملک کی اقتصادی بہتری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام فیصلے ایک منظم اور محتاط قرض حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
وزارت خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی معیشت کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراط زر کے باعث قرضے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اصل پیمانہ یہ ہے کہ قرض معیشت کے حجم کے مقابلے میں کتنا ہے، یعنی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی تناسب۔
 حکومت کی حکمت عملی کا مقصد:
قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا
قرض کی ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا
سود کی ادائیگیوں میں بچت
مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانا
اہم اعداد و شمار اور پیش رفت:
قرضوں میں اضافہ: مالی سال 2025 میں مجموعی قرضوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا، جو گزشتہ 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
سود کی بچت: مالی سال 2025 میں سود کی مد میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔

وفاقی خسارہ: گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں سال کا خسارہ 7.1 ٹریلین روپے رہا۔
معیشت کے حجم کے لحاظ سے خسارہ: 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.2 فیصد پر آ گیا۔
پرائمری سرپلس: مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔
قرضوں کی میچورٹی: پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر 4.5 سال جبکہ ملکی قرضوں کی میچورٹی 2.7 سے بڑھ کر 3.8 سال ہو گئی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی مثبت پیش رفت
وزارت خزانہ کے مطابق 14 سال بعد پہلی مرتبہ مالی سال 2025 میں 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جس سے بیرونی مالیاتی دباؤ میں بھی کمی آئی ہے۔
 بیرونی قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیرونی قرضوں میں جو جزوی اضافہ ہوا، وہ نئے قرض لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ:
روپے کی قدر میں کمی (جس سے تقریباً 800 ارب روپے کا فرق پڑا)
نان کیش سہولیات جیسے کہ آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی آئل فنڈ کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے حکومت کو روپے میں ادائیگیاں نہیں کرنی پڑتیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت کا عارضی بنیادوں پر طبی ماہرین بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • طاقتور حلقوں کو فارم 47 سے بنی حکومت کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے، اعظم سواتی
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
  • صیہونی مخالف اتحاد، انتخاب یا ضرورت!