امریکہ کو مارکیٹ اکانومی کے اصولوں اور منصفانہ مقابلے کے اصولوں کا احترام کرنا چاہیئے، چائنا کونسل فار دی پروموشن آف انٹرنیشنل ٹریڈ
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
امریکہ کو مارکیٹ اکانومی کے اصولوں اور منصفانہ مقابلے کے اصولوں کا احترام کرنا چاہیئے، چائنا کونسل فار دی پروموشن آف انٹرنیشنل ٹریڈ WhatsAppFacebookTwitter 0 24 February, 2025 سب نیوز
بیجنگ : وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ نے “امریکہ فرسٹ” سرمایہ کاری پالیسی میمورنڈم جاری کیا، جس میں اعلان کیا گیا کہ امریکہ اپنی سرمایہ کاری پالیسی میں ایڈجسٹمنٹ کرے گا، خاص طور پر چین کے ساتھ دو طرفہ سرمایہ کاری کو مزید محدود کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا.
چائنا کونسل فار دی پروموشن آف انٹرنیشنل ٹریڈ (CCPIT) کے ترجمان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چینی صنعتی حلقے امریکہ کی جانب سے قومی سلامتی کے تصور کو بار بار عام کرنے اور دونوں ممالک کے صنعتی اور تجارتی تعلقات میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ امریکی حکومت ایک طرف تو چینی کمپنیوں کے امریکی ٹیکنالوجی، اہم بنیادی ڈھانچے، طبی، زرعی، توانائی اور خام مال کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو محدود کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی سیکورٹی جائزہ جیسے اقدامات استعمال کر رہی ہے؛
دوسری طرف معاشی پابندیوں اور مالی آڈٹ جیسے طریقوں سے چین میں سرمایہ کاری کی پابندیوں کے شعبوں، سرمایہ کاری کی اقسام اور فنڈز کے ذرائع دائرہ کار کو مزید وسیع کر رہی ہے۔ یہ اقدامات اگر عملی طور پر نافذ ہو جائیں تو کمپنیوں کے عام کاروباری فیصلوں پر شدید اثرات مرتب ہوں گے، بین الاقوامی تجارتی نظم کو نقصان پہنچے گا اور عالمی صنعتی زنجیر اور سپلائی چین کی سلامتی اور استحکام کو متاثر کریں گے۔
چین نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ مارکیٹ اکانومی کے اصولوں اور منصفانہ مقابلے کے اصولوں کا احترام کرے، اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں قومی سلامتی کی حدود کو واضح کرے، چین اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ سرمایہ کاری کی پابندیوں کو ختم کرے، اور دونوں ممالک کے صنعتی اور تجارتی حلقوں کے درمیان باہمی تعاون کے لیے ایک اچھا ماحول فراہم کرے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کے اصولوں
پڑھیں:
تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) واشنگٹن سے جمعہ 25 اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ہفتے منگل کے دن امریکی جریدے ٹائم کو ایک انٹرویو دیا تھا، جو اس جریدے کی تازہ اشاعت میں جمعے کے روز چھپا۔
ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست، آئی ایم ایف
اس انٹرویو میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے خود انہیں فون کیا اور دونوں کے مابین گفتگو ہوئی۔
اس بیان میں امریکی صدر نے یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ ان کے چینی ہم منصب نے انہیں کب فون کیا اور دونوں صدور کے مابین کس موضوع یا موضوعات پر بات چیت ہوئی تھی۔ چین کی طرف سے تردیدامریکی صدر کے ٹائم میگزین کے ساتھ اس انٹرویو کے مندرجات کے ردعمل میں جمعے ہی کے روز بیجنگ میں چینی حکومت کی طرف سےڈونلڈ ٹرمپ کے موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان، دونوں کے مابین شدید نوعیت کے تجارتی تنازعے سے متعلق، قطعاﹰ کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی اس پس منظر میں صدر شی نے امریکی صدر کو کوئی فون کال کی ہے۔
(جاری ہے)
امریکی صدر ٹرمپ نے ٹائم میگزین کے ساتھ انٹرویو میں محصولات کی جنگ اور چینی صدر شی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا، ''انہوں (صدر شی) نے فون کیا۔ اور میرے خیال میں یہ ان کی طرف سے کسی کمزوری کا اشارہ نہیں ہے۔‘‘
تجارتی معاہدے کے لیے امریکہ کی 'خوشامد' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، چین
اس سلسلے میں چینی وزارت تجارت کے ترجمان ہے یاڈونگ نے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا، ''میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقتچین اور امریکہ کے مابین کسی بھی طرح کے کوئی اقتصادی اور تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے۔
‘‘ چینی تردید کے باوجود ٹرمپ کا اصراربیجنگ میں چینی حکام کی طرف سے ٹرمپ اور شی کے مابین گفتگو کی سرے سے تردید کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ نے آج پھر زور دے کر کہا کہ ان کی چینی صدر سے بات چیت ہوئی ہے اور انہیں فون بھی چینی صدر نے ہی کیا تھا۔
امریکی صدر نے اس موضوع پر اپنے تازہ ترین بیان میں بھی جمعے کے دن یہ تو نہیں بتایا کہ چینی صدر سے ان کی بات چیت کب ہوئی، تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ اس کی تفصیلات ''مناسب وقت پر‘‘ جاری کریں گے۔
چینی صدر کا دورہ جنوب مشرقی ایشیا، آزاد تجارت پر زور
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تازہ ترین بیان اس وقت دیا، جب وہ ویٹیکن سٹی میں کل ہفتے کے روز پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں شرکت کی خاطر اٹلی جانے کے لیے وائٹ ہاؤس سے روانہ ہو رہے تھے۔
دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کی تجارتی جنگامریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کا بیرونی دنیا کے ساتھ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے چند ہفتے قبل دنیا کے تقریباﹰ 200 ممالک سے امریکہ میں درمدآت پر جو بہت زیادہ نئے محصولات عائد کر دیے تھے، اس عمل کے بعد سے خاص طور پر امریکہ اور چین کے مابین تو ایک شدید تجارتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔
امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور چین کا نام اامریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اب تک واشنگٹن اور بیجنگ اپنے ہاں ایک دوسرے کی برآمدی مصنوعات پر 'ادلے کے بدلے‘ کے طور پر اتنے زیادہ نئے محصولات عائد کر چکے ہیں کہ کئی مصنوعات پر اس نئے ٹریڈ ٹیرف کی شرح 145 فیصد تک بنتی ہے۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے ان محصولات کے اعلان کے بعد خود ٹرمپ ہی کے بقول اس وقت دنیا کے بیسیوں ممالک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے متعدد ممالک پر ٹیرفس کا اطلاق نوے دن کے لیے روک دیا
ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں امریکہ کے تجارتی ساتھی ممالک کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہا، ''میں تو کہوں گا کہ اگلے تین چار ہفتوں تک ہم یہ کام مکمل کر لیں گے۔‘‘
ٹرمپ کے اصرار کے بعد پھر چینی تردیدامریکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر کے چینی ہم منصب کے ساتھ گفتگو ہونے پر اصرار کے جواب میں بیجنگ نے پھر تردید کی کہ ٹرمپ انتظامیہ اور چین کے مابین کوئی ایسی بات چیت جاری ہے، جس کا مقصد تجارتی محصولات کے شعبے میں کوئی ڈیل طے کرنا ہو۔
اضافی امریکی محصولات کا نفاز، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس مندی کا شکار
امریکہ میں چینی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر شائع کردہ چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''چین اور امریکہ کے مابین محصولات سے متعلق کوئی بھی مشاورت یا مذاکرات نہیں ہو رہے۔ امریکہ کو اس سلسلے میں کنفیوژن پیدا کرنے کا عمل بند کرنا چاہیے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد