ہم دہشتگردی واقعات رونما ہونے سے قبل اس کا سدباب کیوں نہیں کرتے،جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کہتے ہیں احتیاط علاج سے بہتر ہے،ہم دہشتگردی واقعات رونما ہونے سے قبل اس کا سدباب کیوں نہیں کرتے ۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ تاریخ دیکھیں تو 1971میں بھی فوجی تنصیبات پر حملے ہورہے تھے،یہاں ایک سیاسی جماعت کسی لیڈر کے گھر، گورنرہاؤس یا کسی تھانے پرحملہ نہیں کررہی،یہاں فوجی تنصیبات پر ایک ہی وقت میں مختلف شہروں پر حملے کئے گئے،اگر یہی صورتحال رہی تو انارکی پھیلے گی، جو مستقبل کیلئے خطرناک ہو گی،ایک کہاوت ہے جس کے ہاتھ میں ہتھوڑی ہو اسے ہر چیزکیل نظر آتی ہے،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ ملٹری کو اختیار نہیں ملا بلکہ پارلیمنٹ کے قانون کے ذریعے یہ اختیار ملا ہے،
گردشی قرضہ:حکومت کی بینکوں سے 1240 ارب روپے قرض لینے کی کوشش
عزیر بھنڈاری نے کہاکہ معذرت کیساتھ یہاں نماز پڑھتے ہوئے بتیاں بجھا کر لوگوں کو پارلیمنٹ سے گرفتار کیا گیا، جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ جو معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے اس پر بات نہ کریں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ہم کسی قانون کو آئینی تناظر میں پرکھتے ہیں، منفی یا مثبت ہونے کی بنیاد پر نہیں،پارلیمنٹ کی قرارداد بھی منظور ہوئی۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نے کہاکہ
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔