ڈپٹی رجسٹرار کیس: حکومت نے جسٹس منصور، عقیل عباسی کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے اپیل دائر کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 24 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کیس میں وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی کا 2 رکنی بنچ کا 27 جنوری کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کردی۔رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے اپنی اپیل میں استدعا کی کہ سپریم کورٹ ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کے خلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ کا 27 جنوری کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی رجسٹرار توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ میں دائر انٹرا کورٹ اپیل میں مقف اپنایا گیا کہ 2 رکنی بینچ نے توہین عدالت کے اختیار سماعت سے تجاوز کیا، ڈپٹی رجسٹرار کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے بعد عدالت ختم ہو گئی تھی۔

اس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 2 رکنی بینچ کو یہ حکم جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا، آئینی بینچ 13 اور 16 جنوری کے احکامات کو پہلے ہی واپس لیکر کالعدم قرار دے چکا ہے، مقدمہ اپنے ہی سامنے لگا کر 2 رکنی بینچ نے ججز آئینی کمیٹی کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ریگولر بینچ آئینی و قانونی تشریح کے کیسز نہیں سن سکتا، 2 رکنی ریگولر بینچ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کا فیصلہ کالعدم قرار ڈپٹی رجسٹرار عقیل عباسی حکومت نے

پڑھیں:

  مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس: کیا تیسرے فریق کو ریلیف دیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ میں آئینی بحث جاری

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق حالیہ فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، عدالتی کارروائی کو براہِ راست نشر کیا گیا، سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری کیے۔

سماعت کے دوران ججز اور وکیل فیصل صدیقی کے درمیان متعدد بار سوال و جواب اور دلائل کا تبادلہ ہوا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ عدالتی اختیارات کم ہو گئے ہیں، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ انہیں کوئی خیال نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں:سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس

فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ آئین میں کی گئی ترمیم محض وضاحت کے لیے نہیں تھی بلکہ اس کا کوئی مقصد ضرور تھا، ان کا کہنا تھا کہ آئینی آرٹیکل 187 کو 175 کے ساتھ ملا کر پڑھا جانا چاہیے، جسٹس ہاشم کاکڑ نے رائے دی کہ عدالتی اختیارات کے معاملے پر خاصی تقسیم نظر آتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا 26ویں آئینی ترمیم وضاحت کے لیے کی گئی تھی، جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ نہ ترمیم، نہ آرٹیکل 184(3) ہمارے کیس سے متعلق ہیں، تاہم جسٹس امین الدین خان نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام نکات کیس کے مرکز میں ہیں۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس : ریلیف سنی اتحاد کی جگہ پی ٹی آئی کو دیا گیا، جسٹس امین الدین کے ریمارکس

جج صاحبان نے بارہا فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کہاں سے آتے ہیں، اور کیا عدالت کسی تیسرے فریق کو بھی ریلیف دے سکتی ہے؟ اس پر وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت عظمیٰ کے پاس مکمل اختیار ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ریلیف دے، چاہے فریق عدالت میں ہو یا نہ ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی مخصوص نشستوں نظر ثانی کیس

متعلقہ مضامین

  • بغیر فل کورٹ میٹنگ رولز تبدیلی خلاف قانون ہے،جسٹس بابر ستار
  • بغیر فل کورٹ میٹنگ رولز تبدیلی خلاف قانون ہے. جسٹس بابر ستار
  • 39 اراکین کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا مسترد
  •   مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس: کیا تیسرے فریق کو ریلیف دیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ میں آئینی بحث جاری
  • 26 نومبر احتجاج کیس میں اسٹیٹ کونسل مقرر کرنے کیخلاف پی ٹی آئی کی اپیل منظور
  • ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ
  • ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے، جج سپریم کورٹ
  • جھوٹ بول دوسرے ملک لے جانے پر بیٹے نے والدین پر مقدمہ دائر کردیا
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛  سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث