عالمی دباؤ کے بعد حکمراں طالبان نے برطانوی جوڑے کی افغانستان میں گرفتاری کی وجہ ’غلط فہمی‘ قرار دیدی
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
عالمی دباؤ کے نتیجے میں افغانستان میں حکمراں طالبان نے گزشتہ دنوں ایک معمر برطانوی جوڑے کو ایک ’غلط فہمی‘ کی وجہ سے گرفتار کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا ہےکہ ان کے پاس جعلی افغان پاسپورٹ تھے۔
70سال سے زائد عمر کے پیٹر اور باربی رینالڈس کو طالبان کی وزارت داخلہ نے یکم فروری کو افغانستان کے وسطی صوبے بامیان میں اپنے گھر واپس جاتے ہوئے حراست میں لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں گرفتار برطانوی جوڑا کون ہے؟
افغانستان میں تعلیم اور تربیتی پروگرام کے روح رواں اس برطانوی جوڑے کو ان کے چینی نژاد امریکی دوست فائی ہال کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا، جو کے کاروبار سے تعلق رکھنے والا ایک مترجم ہے۔
طالبان کے ترجمان عبدالمتین قانع نے کہا کہ یہ گرفتاریاں ’غلط فہمی‘ کے باعث ہوئی تھیں کہ ان کے پاس جعلی افغان پاسپورٹ تھے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں گرفتار برطانوی جوڑے کے بچوں کا طالبان کو خط، والدین کی رہائی کی اپیل
واضح رہے کہ رینالڈز کی بیٹی، سارہ اینٹ وِسٹل نے کہا گزشتہ دنوں طالبان کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ ان کے خاندان نے ابتدائی طور پر برطانیہ کے حکام کو شامل نہ کرنے کا انتخاب کیا تھا کیونکہ وہ طالبان سے براہِ راست اپنے والدین کی گرفتاری کا سبب جاننے کی خواہاں تھیں۔
’ہمارے والدین نے ہمیشہ طالبان کو عزت دینے کی کوشش کی ہے، اس لیے ہم انہیں موقع دینا چاہتے تھے کہ وہ اس حراست کی وجوہات بیان کریں۔ تاہم، 3 ہفتوں سے زائد عرصہ کی خاموشی کے بعد ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے۔‘
مزید پڑھیں:افغانستان میں طالبان انتظامیہ نے ’ کابل سرینا ہوٹل‘ پر قبضہ کرلیا
ٹائمز ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے سارہ اینٹ وِسٹل کا کہنا تھا کہ اب ان کا خاندان فوری طور پر برطانوی قونصل خانے سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہمیں جواب حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت میں ہر ممکن کوشش کرے اور طالبان پر ان کی رہائی کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ بھی ڈالیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کے ترجمان عبدالمتین قانع نے کہا کہ طالبان اس جوڑے کی جلد از جلد رہائی کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے۔ ’اس ضمن میں متعدد اختیارات کو مدنظر رکھا جارہا ہے اور ہم انہیں جلد از جلد رہا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
مزید پڑھیں:افغانستان میں طالبان نے این جی اوز کو تازہ ترین حکم کیا دیا؟
برطانوی دفتر خارجہ کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ 2 برطانوی شہریوں کے خاندان کی مدد کر رہے ہیں، جو افغانستان میں زیر حراست ہیں۔
واضح رہے کہ گرفتار برطانوی جوڑے نے 50 سال سے زائد عرصہ قبل کابل میں شادی کی تھی اور وہ ’ری بِلڈ‘ کے نام سے افغانستان میں رجسٹرڈ تحقیقی اور تربیتی مرکز کے روح رواں ہیں، جو 2009 سے فعال ہے۔
مزید پڑھیں:افغانستان میں طالبان حکومت نے کھڑکیوں پر پابندی کیوں لگائی؟
طالبان کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں سارہ اینٹ وِسٹل اور ان کے 3 بھائیوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے والدین کی گرفتاری کی وجوہات سے آگاہ نہیں۔
’ہمارے والدین نے مسلسل افغانستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تاوان کی بات چیت کا حصہ بننے یا کسی تبادلے کے بجائے اپنی جانیں قربان کرنا پسند کریں گے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان بامیان باہمی تجارت برطانوی جوڑا تاوان ٹائمز ریڈیو حراست سارہ اینٹ وِسٹل طالبان عبدالمتین قانی کابل گرفتاری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان بامیان باہمی تجارت برطانوی جوڑا تاوان سارہ اینٹ و سٹل طالبان عبدالمتین قانی کابل گرفتاری افغانستان میں طالبان سارہ اینٹ و سٹل برطانوی جوڑے مزید پڑھیں طالبان کے ہے کہ وہ کے لیے نے کہا
پڑھیں:
برطانوی میڈیا نے پہلگام واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنیوالوں کا تعلق لشکر طیبہ سے قرار دیدیا
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف بنیادی طور پر لشکر طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے، یہ وہ گروپس ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں کے دوران بنائے گئے تھے خاص طور پر جب پاکستان، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ میں تھا اور وہ جموں اور کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کر رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر ریزسٹنس نامی گروپ جسے دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) کہا جاتا ہے نے 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بھارت کی جانب سے اس حملے کو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹی آر ایف کیا ہے؟
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ٹی آر ایف گروپ 2019 میں سامنے آیا اور اسے پاکستان میں موجود کالعدم جہادی گروپ لشکر طیبہ کی ذیلی شاخ سمجھا جاتا ہے۔ تھنک ٹینک ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروپ کی حمایت کی تردید کرتا ہے۔ انڈین سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر کشمیر ریزسٹنس کا نام استعمال کرتا ہے۔ اس گروپ نے اسی نام سے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
واضح رہے کہ کالعدم لشکر طیبہ کو امریکہ نے بھی ایک غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، اس گروپ پر نومبر 2008 میں ممبئی پر ہونے والے حملے سمیت انڈیا اور مغرب میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف بنیادی طور پر لشکر طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے، یہ وہ گروپس ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں کے دوران بنائے گئے تھے خاص طور پر جب پاکستان، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ میں تھا اور وہ جموں اور کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کر رہا تھا۔
اجے ساہنی کے مطابق ماضی میں اس گروپ نے کسی بڑے واقعے کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی کسی بڑی کارروائی میں اس کا نام سامنے آیا۔ ٹی آر ایف کے تمام آپریشنز بنیادی طور پر لشکر طیبہ کی کارروائیاں ہیں۔ اس گروپ کو اس حد تک آپریشنل آزادی حاصل ہے کہ اس نے زمین پر کہاں کارروائی کرنی ہے، تاہم اس کے احکامات لشکرِ طیبہ کی طرف سے ہی آتے ہیں۔
انڈیا کی وزارت داخلہ نے 2023 میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ٹی آر ایف گروپ جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور شہریوں کے قتل کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے۔ وزارت داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ گروپ عسکریت پسندوں کی بھرتی اور سرحد پار ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ میں بھی مُلوث ہے۔ انٹیلی جنس حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ ٹی آر ایف گذشتہ دو برسوں سے انڈین نواز گروپوں کو آن لائن دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ کشمیریوں کی صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتا ہے۔