ہوا کا دروازہ گوادر، ماضی حال اور مستقبل کے آئینے میں
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
میری ٹائم سلک روڈ (ایم ایس آر) سمندری راستوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تھا، جو چین کو دنیا کے دیگر حصوں بالخصوص بحر ہند اور بحیرہ روم سےملاتا تھا۔ یہ تجارتی، ثقافتی تبادلے اور مشرقی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کے درمیان معاملات کے پھیلاؤ کے لیے ایک اہم چینل تھا جو تانگ اور سونگ (960-1279 CE) خاندانوں کے دوران پروان چڑھا۔
چینی بحری جہاز ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی مختلف بندرگاہوں پر روانہ ہوتے تھے۔ اس راستے نے بین الاقوامی تجارت کی ترقی، سامان کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
میری ٹائم سلک روڈ کے ساتھ ساتھ کچھ اہم بندرگاہوں اور اسٹاپس جن میں گوانگزو (چین) کے علاوہ ملاکا (ملائیشیا)، کالی کٹ (بھارت)، بہار (بمبئی)، عدن (یمن)، اسکندریہ (مصر) اور قسطنطنیہ (ترکی) میری ٹائم سلک روڈ شامل تھے۔
یہاں سے بین الاقوامی تجارت عروج پر رہی ہے، تاہم یہ 16ویں صدی میں یورپی سمندری طاقتوں کے عروج کے ساتھ زوال پذیر ہوئی، لیکن اس کی میراث عالمی تجارتی اور ثقافتی تبادلے کی تشکیل جاری رہی۔ اسی سمندری راستے کے ایک اہم اسٹاپ گوادر (ہوا کا دروازہ) ایک اہم درجہ رکھتا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مچھلی اور جھینگا کی تجارت کا یہ اہم مرکز کے ساتھ ساتھ جنگوں میں ایک اہم کردار بھی ادا کر تی رہی ہے، خصوصا جنگ عظیمِ اول کے فوری بعد گوادر ایئرپورٹ اور سی پورٹ نے اتحادی افواج کے لیے کافی کام کیا۔
برطانیہ نے گوادر ایئرپورٹ جو اس وقت عمان کے کنٹرول میں تھا، سے بہت سے فوائد حاصل کیے، اور اس بین الاقوامی ہوائی اور سمندری راستوں پر تسلط قائم رکھا۔
یاد رہے کہ لفظ ‘گوادر’ 2 بلوچی الفاظ کا مجموعہ ہے، گوادر کا مطلب ہے ‘ہوا’ اور در کا مطلب ہے ‘گیٹ وے’ یا ‘دروازہ’۔ اس طرح ‘گوادر’ کا ترجمہ ‘ہوا کا دروازہ’ یا ‘ہوا کا راستہ’ ہے۔
گوادر دراصل ماضی میں ریاست قلات بلوچستان کا اہم حصہ تھا۔ اور اس کو ریاست قلات کے والی نے عمان کے شہزادے کو (جو اپنے ملک سے جان بچا کر والی قلات کی پناہ میں تھا) تحفے کے طور پر دے دیا، بعد میں عمان کے اسی شہزادے نے جب سلطنت کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا تو اس نے 1783 میں گوادر میں اپنا گورنر لگا دیا۔
1922 کے نزدیک پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کی گوادر میں ایک ایئرپورٹ بنا کر خطے میں بڑی اور بحری تسلط قائم کرلیا۔
اسی طرح 1950 کی دہائی میں امریکا نے بھی گوادر میں اسٹریٹجک وجوہات کی بنا پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے باقاعدہ آغاز کیا۔ وہ بہت سی وجوہات کی بنا پر یہاں ایک مواصلاتی بوسٹر نصب کرنا چاہتا تھا۔
سرد جنگ کا پروپیگنڈاسرد جنگ کے دوران VOA امریکا کے لیے اپنے نظریے کو نشر کرنے اور سابق سوویت یونین کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ گوادر میں ایک بوسٹر وائس آف امریکا کو مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں وسیع تر سامعین تک پہنچنے کے قابل بنانا
سابق سوویت اثر و رسوخ کا مقابلہامریکا کو خطے میں خاص طور پر ایران اور افغانستان میں سوویت اثر و رسوخ کے پھیلاو پر تشویش تھی۔ گوادر میں VOA کے ایک بوسٹر سوویت پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور امریکی مفادات کو فروغ دینے میں مدد کر سکتا تھا۔
مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا تک رسائیخلیجِ فارس کے منہ پر واقع گوادر کے اسٹریٹجک مقام نے اسے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا تک نشریات کے لیے ایک مثالی مقام بنانا۔
امریکا اپنے نظریاتی اور ثقافتی اثر و رسوخ کو وسعت دینے کے لیے اس جغرافیائی فائدہ سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
سابق سوویت بحری سرگرمیوں کی نگراناس وقت خطے میں سوویت یونین کے بحری اڈوں سے گوادر کی قربت نے اسے سوویت بحری سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے ایک پرکشش مقام بنا دیا۔ VOA بوسٹر نے انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کی کارروائیوں کے لیے ایک آسان کور فراہم کرنا تھا۔
تاہم گوادر میں VOA بوسٹر لگانے کا منصوبہ بالآخر ناکام ہوگیا، کیونکہ عمانیوں نے حیرت انگیز طور پراس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ تاہم، یہ واقعہ سرد جنگ اور امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان عظیم طاقت کی دشمنی کے تناظر میں گوادر کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
تاہم حیرت انگیز طور پر 1950 کی دہائی کے اوائل میں ہی ہندوستان کو بھی گوادر کے حصول میں مضبوط مفادات تھے، کیونکہ اس مصنف نے ایک بہت ہی چشم کشاد رپورٹ دیکھی کہ 50 کی دہائی کے اواخر میں ایک ہندوستانی ایلچی گوادر میں تقریباً 6 ماہ رہا اور دفتر خارجہ پاکستان نے بھی اس پر تشویش ظاہر کی اور اسے وہاں سے واپس بلا لیا، جس سے ثابت ہوا کہ ہندوستان کو شروع سے گوادر میں گہری دلچسپی تھی اور اب بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک تمام ہندوستانی بلوچستان میں ہر قسم کی دہشت گردی کے پیچھے مبینہ طور پر ملوث ہیں۔
بھار ت کی گوادر میں دلچسپی کی وجوہات اسٹریٹیجک مقامخلیج فارس کے منہ پر گوادر کا محل وقوع اسے ہندوستان کی سمندری تجارت کے لیے ایک اہم مقام بناتا ہے۔ گوادر کے حصول سے بھارت کو خطے میں اسٹریٹجک قدم جمانے کا موقع ملتا۔
وسطی ایشیا تک رسائیگوادر نے پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے ہندوستان کو وسطی ایشیا کے لیے براہ راست راستے کی پیشکش کی۔ یہ سرد جنگ کے دور میں خاص طور پر اہم تھا، کیونکہ بھارت نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔
2.پاکستان کا مقابلہ
1947 میں تقسیم کے بعد سے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات تھے۔ گوادر کے حصول سے ہندوستان کو پاکستان پر اسٹریٹجک فائدہ حاصل ہوتا، جس سے وہ پاکستان کی سمندری تجارت کی نگرانی اور کنٹرول کرسکتا تھا۔
معاشی مفاداتگوادر کی قدرتی بندرگاہ اور اسٹریٹجک محل وقوع نے اسے ہندوستان کی تجارت اور تجارت کے لیے ایک پرکشش مقام بنا دیا۔ گوادر کے حصول سے بھارت کو اہم اقتصادی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
مہاراجہ جموں و کشمیر کے مفاداتجموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی گوادر کو حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ گوادر کا اسٹریٹجک مقام ان کی سلطنت کو بحیرہ عرب تک براہ راست رسائی فراہم کرے گا۔ گوادر میں اس کی آج بھی مداخلت اسی شورش کا تسلسل ہے۔
گوادر کو حاصل کرنے کے لیے بھارت کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، ہندوستان کی ان ناکام کوششوں کو پاکستان نظر رکھے ہوئے تھا، اور بین الاقوامی تعلقات اور علاقائی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں گوادر کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے لگا۔
اسی طرح پاکستان جو خطے میں خاص طور پر نظر رکھے ہوئے تھا، اور مستقبل کی پلاننگ کر رہا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ مستقبل میں گوادر اس کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر ے گا، اسی لیے گوادر کو واپس لانے کی کوشش شروع کر دی گئی۔
آخر کار بے انتہا سفارتی کوششوں کے بعد اور سعودی عرب کے عظیم بادشاہ شاہ فیصل کی مدد سے 1955 گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو تقریباً 40 لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔
گوادر پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد اس وقت کی حکومت پاکستان نے سمندری بندرگاہ اور ہوائی اڈے کو ترقی دینے کے لیے کاغذی منصوبہ بندی شروع کردی۔
تاہم بہت سست ہے، کیونکہ حکومت ملک میں مختلف دیگر غیر ترقی کے مسائل میں ڈوبی ہوئی ہے، بعد میں سب کچھ کولڈ اسٹوریج میں پڑا۔ 1970 کی دہائی تک ہوائی اڈے کو ترقی نہیں دی جاسکی اور یہ بے قابو ہوکر رہ گیا۔
1982 کے بعد جب پی سی اے اے کا قیام عمل میں آیا تو اس ہوائی اڈے کو کچھ اہمیت دی گئی اور مسقط کے لیے پہلی پرواز کو 2 ملکی پروازوں کے ساتھ کمزور حالت میں روانہ کیا گیا۔ تاہم، نئے گوادور ہوائی اڈے کی منصوبہ بندی بھی 90 کی دہائی کے آخر میں کاغذوں پر شروع ہوئی۔ اور وہ گھونگھے کی طرح رہ گیا۔ آخر کار تقریباً 25 سال بعد نیا فواد ہوائی اڈہ چین کے وزیر اعظم اور پاکستانی وزیر اعظم نے مکمل کیا۔
درحقیقت گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پاکستان کی ترقیاتی حکمت عملی کا ایک اہم جزو ہے، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے لیے۔ تاہم مبصرین کے مطابق درج زیل کچھ طریقے ہیں، جن سے GIA پاکستان کی ترقی میں تعاون کر سکتا ہے۔
CPEC Hub: GIA 1.پاکستان اور چین کے درمیان ، ایک اہم لنک کے طور پر کام کرنا، تجارت اور لوگوں کے درمیان تبادلے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔
معاشی نموتوقع ہے کہ ہوائی اڈے سے تجارتی حجم میں اضافہ، ملازمتیں پیدا کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے پاکستان کی معیشت کو فروغ ملے گا۔
علاقائی رابطہGIA پاکستان، چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان رابطے کو بڑھاتا ہے، علاقائی تعاون اور ترقی کو فروغ دیتا ہے۔
سیاحت اور صنعتہوائی اڈے کی جدید ترین سہولیات بلوچستان میں بڑھتی ہوئی سیاحت کی صنعت کو پورا کرے گی، جبکہ ماہی گیری، کان کنی اور مینوفیکچرنگ جیسی صنعتوں کی ترقی میں بھی معاونت کرے گی۔
انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹGIA کی تعمیر نے گوادر کو ایک جدید شہر میں تبدیل کرتے ہوئے سڑکوں، ہوٹلوں اور دیگر سہولیات سمیت معاون انفراسٹرکچر کی ترقی کو متحرک کیا ہے۔
گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پاکستان کی معیشت اور علاقائی رابطوں کے لیے گیم چینجر بننے کے لیے تیار ہے۔ گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈہ (GIA) گوادر سی پورٹ کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔
کنیکٹیویٹی کو بڑھاناGIA گوادر اور پاکستان، چین اور مشرق وسطیٰ کے بڑے شہروں کے درمیان براہ راست فضائی روابط فراہم کرے گا، تجارت اور تجارت کے مواقع میں اضافہ کرے گا۔
ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولتہوائی اڈہ پاکستان، چین اور وسطی ایشیا کے درمیان سامان اور کارگو کی نقل و حمل کو قابل بنائے گا، جس سے گوادر سی پورٹ ایک اہم ٹرانزٹ حب بن جائے گا۔
کارگو ہینڈلنگ کی صلاحیت میں اضافہGIA کی کارگو ہینڈلنگ کی سہولیات گوادر سی پورٹ کی صلاحیت کو پورا کرے گی، جس سے سامان اور کارگو کی موثر نقل و حرکت ممکن ہو سکے گی۔
سرمایہ کاری اور صنعتوں کو راغب کرناہوائی اڈے کی موجودگی ماہی گیری، مینوفیکچرنگ اور لاجسٹکس جیسی صنعتوں میں سرمایہ کاری کو راغب کرے گی، نئے معاشی مواقع اور ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کی معاونتGIA گوادر میں مجوزہ آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کے لیے سامان، عملے اور کارگو کی نقل و حمل میں سہولت فراہم کرے گا۔
سیاحت اور مہمان نوازی کو بڑھاناہوائی اڈے سے خطے میں سیاحت میں اضافہ ہوگا، ہوٹلوں، ریزورٹس اور مہمان نوازی کی دیگر خدمات کی مانگ پیدا ہوگی، جس سے مقامی معیشت میں حصہ ڈالا جائے گا۔
سیکیورٹی اور نگرانی کو بہتر بناناGIA کی جدید ترین حفاظتی خصوصیات گوادر سی پورٹ اور آس پاس کے علاقوں کی مجموعی سیکیورٹی اور نگرانی کو بہتر بنائیں گی۔
ہوائی اور سمندری نقل و حمل کو مربوط کرکے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ گوادر سی پورٹ کی مکمل صلاحیت کو کھول دے گا، اقتصادی ترقی کو آگے بڑھا دے گا اور خطے کو ایک بڑے تجارتی و تجارتی مرکز میں تبدیل کر دے گا۔
اسی کے ساتھ گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے اور گوادر سی پورٹ کی ترقی سے عالمی کاروبار پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔
نئے تجارتی راستےگوادر چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک اہم رابطے کے طور پر ابھرے گا، جس سے نئے تجارتی راستے اور مواقع پیدا ہوں گے۔
عالمی رابطے میں اضافہہوائی اڈے اور بندرگاہ پاکستان اور چین کو عالمی منڈیوں سے جوڑیں گے، جس سے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے درمیان تجارت اور تجارت میں اضافہ ہوگا۔
عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیلیایک بڑے تجارتی مرکز کے طور پر گوادر کا ابھرنا چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ میں مدد دے گا، ممکنہ طور پر عالمی اقتصادی طاقت کی حرکیات کو تبدیل کرے گا۔
2.میری ٹائم تجارت پر اثرگوادر سمندری بندرگاہ بحری تجارت میں ایک کلیدی کھلاڑی بن جائے گی، جو خطے میں موجودہ بندرگاہوں کے غلبہ کو ممکنہ طور پر چیلنج کرے گی۔
سرمایہ کاری کے مواقع میں اضافہگوادر کی ترقی غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے گی، جس سے کاروبار اور کاروباری افراد کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
علاقائی اقتصادی انضمامگوادر علاقائی ممالک بشمول پاکستان، چین، ایران اور افغانستان کے درمیان اقتصادی انضمام کی سہولت فراہم کرے گا۔
گلوبل سپلائی چین ریلائنمنٹگوادر کا تجارتی مرکز کے طور پر ابھرنے سے کمپنیوں اور صنعتوں کے لیے ممکنہ فوائد کے ساتھ عالمی سپلائی چین میں دوبارہ صف بندی ہوگی۔
توانائی اور قدرتی وسائل کی تجارتگوادر کا اسٹریٹجک مقام تیل، گیس اور معدنیات سمیت توانائی اور قدرتی وسائل کی تجارت کو آسان بنائے گا۔
گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور گوادر سی پورٹ کی ترقی کے عالمی کاروبار، تجارت اور تجارت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ افسوس ناک طور پر تربت میں 18 فوجیوں کی حالیہ ہلاکت نے خطے میں سیکیورٹی کی صورت حال اور گوادر کے نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ حملہ جس کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) نے قبول کی ہے، بلوچستان میں ایک وسیع تر شورش کا حصہ ہے۔
بی ایل اے گوادر بندرگاہ اور ہوائی اڈے سمیت خطے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہی ہے۔ گروپ کے ترجمان جیند بلوچ نے بلوچستان پر پاکستانی فوج کے “قبضے” اور اس کے وسائل کے استحصال کا حوالہ دیتے ہوئے مزید حملوں کی وارننگ دی ہے۔
نئے گوادر ہوائی اڈے کے ارد گرد سیکورٹی خدشات کثیر جہتی ہیں دہشت گردی کے خطراتبی ایل اے اور دیگر عسکریت پسند گروپوں نے پہلے ہی ہوائی اڈے اور آس پاس کے علاقوں کو نشانہ بنایا ہے، جس سے مستقبل میں حملوں کے خطرے کو نمایاں کیا گیا ہے۔
بغاوتبلوچستان میں جاری شورش خطے میں عدم استحکام اور تشدد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے، ممکنہ طور پر ہوائی اڈے کی کارروائیوں میں خلل پڑ سکتی ہے۔
جیو پولیٹیکل تناؤگوادر بندرگاہ اور ہوائی اڈہ اسٹریٹجک اثاثے ہیں، چین خطے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس نے جغرافیائی سیاسی تناو کے تنازعات میں بڑھنے کے امکانات کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔
ان خطرات کو کم کرنے کے لیے، پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو موثر حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہوگی، جیسے:
انٹیلی جنس اکٹھا کرناعسکریت پسندوں کے حملوں کی توقع اور روک تھام کے لیے انٹیلی جنس جمع کرنے اور اشتراک کو بہتر بنانا۔
سیکیورٹی پروٹوکول
ہوائی اڈے پر سیکیورٹی پروٹوکول کو بڑھانا، بشمول رسائی کنٹرول، نگرانی، اور ہنگامی ردعمل کے منصوبے۔
کمیونٹی مصروفیتاعتماد اور تعاون پیدا کرنے کے لیے مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مشغول ہونا، ممکنہ طور پر عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کو کم کرنا۔ سیاحت کے شعبے سے وابستہ زینب کے مطابق حکومت فوری طور پر گوادر سے کم از کم ایک حج فلائٹ شروع کرے۔ اسے کوئٹہ سے منسلک کیا جا سکتا ہے جہاں پہلے ہی ایک حج فلائٹ چل رہی ہے۔
مزید ایک ڈومیسٹک فلائٹ اسلام آباد سے فوری طور پر چلائی جائے، اس سلسلے میں پرائیویٹ ایئر لائنز پر کم از کم گوادر تک ایک پرواز چلانے کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ذریعے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سیاحت میں اضافہ ہوگا، بلکہ گوادر اور ملحقہ اضلاع اور شہروں کے ہزاروں لوگ مستفید ہوں گے، بلکہ اس خطے کی محرومی میں بھی کمی واقع ہو سکتی ھے۔
اسی طرح گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی حکومت، سیکیورٹی فورسز، اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مسلسل اور کثیر جہتی کوششوں کی ضرورت گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ (GIA)کو سود مند بنا سکتی ہے۔ بصورت دیگر 400000 مسافروں کی capacity والا 450 ملین ڈالر کی لاگت والا ایرپورٹ ملک کا مہنگا ترین ایرپورٹ خالی ہی رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ گوادر سی پورٹ کی تجارت اور تجارت اور مشرق وسطی بلوچستان میں ہوائی اڈے کی فراہم کرے گا بندرگاہ اور اور پاکستان سرمایہ کاری ہندوستان کو وسطی ایشیا پاکستان کی کے لیے ایک اہم کردار گوادر میں کا مقابلہ میری ٹائم کے درمیان میں اضافہ کے طور پر کی دہائی کرنے اور گوادر کو گوادر کی گوادر کا کی تجارت کرنے کے کو راغب میں ایک کے ساتھ کی ترقی ایک اہم رہی ہے ہوا کا ہوں گے کے بعد کرے گی اور اس
پڑھیں:
پاک بھارت مستحکم امن کی تلاش
پاکستان نے ، اللہ کے فضل و کرم سے، چار روزہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کو تاریخ ساز شکست دی ۔ ساری دُنیا مان اور تسلیم کر چکی ہے ۔
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، ایک درجن سے زائد بار ، برسرِ مجلس، اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کی کوششوں اور مساعی سے پاک بھارت جنگ آگے بڑھنے سے رُکی ۔ ٹرمپ نے تو اگلے روز یہ بھی سب کے سامنے تسلیم کیا کہ اِس جنگ میں ( بھارت کے) چار، پانچ جدید جنگی طیارے رافیل (پاک فضائیہ نے) مار گرائے ۔ فرانس تک (جس نے بھارت کومایہ ناز رافیل طیارے فراہم کیے) تسلیم کر چکا ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے رافیل مار گرائے ۔ بھارت مگر ڈھٹائی اور مارے ندامت کے مان نہیں رہا ۔
مودی جی تو طیش میں بَل کھا رہے ہیں ، مگر امریکی صدر کی باتوں کی تردید بھی نہیں کر پارہے ۔ مودی جی کی آتش نوائی نے پاک بھارت امن کی فضاؤں میں تشویشات کی متعدد لہریں دوڑا رکھی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم کی اِسی آتش نوائی نے پاکستان کی امن ساز کوششوں کو ناکام بنا رکھا ہے ۔
پاکستان اور بھارت کی فضاؤں پر موہوم حربی بادلوں کے آثار ہیں۔فریقین پریشان ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان اِس گمبھیر صورتحال سے کیسے باعزت سرخرو ہو سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب کئی جوانب سے متنوع انداز میں سامنے آرہا ہے ۔ اِس سوال کا ایک جواب ممتاز دانشور ، جناب یوسف نذر ،نے بھی دیا ہے۔جناب یوسف نذر بنیادی طور پر عالمی شہرت یافتہ بینکر ہیں ، مگر اپنے ہمہ گیر اقتصادی تجربات کے کارن اُن کی نظر عالمی سیاست اور عالمی تصادموں پر بھی رہتی ہے ۔
موصوف نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے ایک انگریزی میں ایک مفصل آرٹیکل لکھا ہے ۔اُنھوں نے قارئین کو بتایا ہے کہ پاکستان موجودہ (پاک بھارت کشیدگی) کے بحران سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان اپنے دیرینہ اور آزمودہ دوست، چین، کی مرکزی پالیسی سے سبق حاصل کرے ۔ اور بقول مصنف، چین کی یہ مرکزی سوچ’’غیر تصادمی پالیسی‘‘ ہے ۔ یوسف نذر کے خیالات سے متفق ہُوئے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی تجویز میں کئی نکات قابلِ غور ہیں ۔
یوسف نذر لکھتے ہیں: ’’چین کی طویل عرصے سے اختیار کردہ غیر تصادمی پالیسی نے اسے نوآبادیاتی استحصال کے ملبے سے اُٹھا کر عالمی اقتصادی طاقت بننے میں مدد دی ہے۔ سرد جنگ کے پراکسی تنازعات، شام اور یوکرین کی جنگوں، یا حالیہ بحیرہ جنوبی چین کی کشیدگی میں، چین نے ہمیشہ طویل فوجی الجھاؤ سے گریز کیا ہے۔
امریکا کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کے دوران چین کا محتاط ردِعمل ( جس میں محدود ٹیرف، عالمی تجارتی تنظیم میں اپیلیں، اور تجارتی شراکت داروں کی خاموشی شامل ہے) اسی پالیسی کا عکاس ہے۔ بیجنگ نے کشیدگی بڑھانے کے بجائے داخلی استحکام، معاشی خودانحصاری اور سفارتی روابط کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ طرزِ عمل ایک طاقتور نمونہ پیش کرتا ہے۔بین الدولی تعلقات محض نظریات سے متعین نہیں ہوتے، جیسا کہ پاکستان اور چین کی گہری دوستی ظاہر کرتی ہے۔ چین، ایک غیر مذہبی اور غیر جمہوری ریاست ہونے ، اور پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود، ایک مضبوط شراکت داری قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ عملی پالیسیاں نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان آج ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: اس کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ پاک بھارت دیرینہ تنازعات کی اس وراثت سے باعزت نکل سکتا ہے جس نے اس کے وسائل کو چوسا، معاشی ترقی کو روکا اور عدم استحکام کو جنم دیا؟چینی ترقی کی کہانی پاکستان کے لیے سبق آموز ہے۔ چین نے غیر ملکی تنازعات سے دُور رہ کر اور اندرونی استحکام پر توجہ دے کر اپنے80کروڑ شہریوں کو غربت سے نکالا اور ایک عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہو گیا۔ پاکستان کو بھی اسی طرح اپنی اندرونی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
1971کی جنگ میں بنگلہ دیش کا علیحدہ ہونا ایک قومی سانحہ تھا۔ اس سانحہ میں ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور 20 فیصد جی ڈی پی ختم ہو گئی۔ افغان جنگ میں پاکستان کی شرکت نے پاکستان میں دہشت گردی کے لامختتم سلاسل کو جنم دیا، جس میں 2001 سے اب تک 80,000 سے زائد جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔ اِس عظیم جانی نقصان کو پاکستان کی مختلف حکومتیں بھی تسلیم کر چکی ہیں‘‘۔
یوسف نذر مزید لکھتے ہیں:’’ایسے پس منظر میں چین کی غیر تصادمی حکمتِ عملی، جس میں اندرونی ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے لیے ایک واضح سبق ہے۔ چین کی غیر تصادمی پالیسی 1954ء میں وضع کیے گئے ’’پُرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں‘‘ پر مبنی ہے، جس میں خودمختاری کے احترام، جارحیت سے گریز، اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا گیا ہے۔ ’’ذلت کی صدی‘‘ کے تجربے (1839 تا 1949) نے چین میں یہ عزم پیدا کیا کہ خودمختاری کا تحفظ اور بیرونی تنازعات سے بچاؤ ضروری ہے۔
ماؤزے تنگ نے داخلی استحکام پر توجہ دی، جب کہ ڈینگ شیاؤ پنگ نے 1970 کی دہائی کے آخر میں معاشی اصلاحات کے ذریعے غیر تصادمی حکمت عملی کو مکمل طور پر ترقی کا ذریعہ بنایا۔ ڈینگ کا فلسفہ ’’اپنی صلاحیتوں کو چھپاؤ اور وقت کا انتظار کرو‘‘چین کی ترقی کی بنیاد بنا۔چین کی تاریخ میں کئی مواقع پر غیر تصادمی پالیسی واضح طور پر نظر آئی، جیسے کوریا جنگ میں محدود شرکت، ویتنام جنگ میں براہ راست مداخلت سے گریز، اور 1979کی چین-ویتنام جنگ کے بعد مکمل طور پر سفارتی حکمت عملی اپنانا۔کیوبا میزائل بحران، بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ، خلیج فارس کی جنگ، یوگوسلاویہ کی جنگیں، روانڈا نسل کشی، عراق جنگ، اور لیبیا اور شام کے تنازعات میں چین کا کردار بھی غیر تصادمی رہا۔ چین نے ہمیشہ سفارت کاری اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دی۔چین کی اندرونی حکمرانی نے استحکام، ترقی، اور خود انحصاری کو یقینی بنایا۔
1978 کی معاشی اصلاحات نے دیہی آمدنی دگنی کر دی، تعلیم میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور سائنسی تحقیق میں پیشرفت نے مصنوعی ذہانت، 5G اور بایوٹیکنالوجی میں ترقی کو ممکن بنایا۔چین نے فوجی اخراجات کو محدود رکھا ۔ 2023 میں جی ڈی پی کا محض 1.67 فیصد ، جب کہ امریکا اور رُوس جیسے ممالک نے اپنے وسائل جنگوں میں ضایع کیے۔چین کا بحیرئہ جنوبی چین میں کشیدگی پر سفارت کاری کو ترجیح دینا، فوجی تنازعات سے بچاؤ کی حکمت عملی کا مظہر ہے۔
اس کے برعکس امریکا نے عراق اور افغانستان میں کھربوں ڈالر ضایع کیے، جب کہ چین نے تجارتی استحکام کو فروغ دیا۔پاکستان کے لیے، چین کا ماڈل ایک واضح راستہ پیش کرتا ہے: تنازعات سے گریز، وسائل کا داخلی ترقی پر استعمال، اور تعلیم، صحت اور صنعت میں سرمایہ کاری۔ اگر پاکستان نے اس راستے کو اختیار کیا تو وہ معاشی ترقی اور استحکام حاصل کر سکتا ہے۔چین کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ اندرونی استحکام اور ترقی پر توجہ تنازعات سے کہیں زیادہ طاقتور راستہ ہے۔ پاکستان کو یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ترقی اس کی تقدیر بن سکے‘‘۔
یوسف نذر ایسے دانشور کے مذکورہ مشورے مستحسن تو کہے جا سکتے ہیں ، مگر موجودہ پاک بھارت کشیدگی کے لمحات میں شائد اِن پر عمل کرنا اتنا سہل نہیں ہے ۔ غور کرنے میں مگر ہرج بھی کیا ہے ؟ کبھی کبھار ’’مانگے کے اُجالے‘‘ سے بھی روشنی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ پچھلے دو ہفتوں میں بھارت نے پاکستان کے خلاف فضا کو جس بُری طرح مشتعل کررکھا ہے، ایسی فضا میں پاکستان کے لیے ایسے مشورے شائد قابلِ عمل نہیں ہیں۔ اِن پر عمل کرنا شائد پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جائے۔ ’’غیر تصادمی‘‘ پالیسی کے ایسے مشورے بھارت کے ممتاز ترین مسلم دانشور، مفکر ، مفسر اور کئی کتابوں کے مصنف ، مولانا وحید الدین خان مرحوم، بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو دیتے رہے ہیں ۔
اُن کے یہ مشورے مگر ، بوجوہ، پاکستان میں قبولیت نہ پا سکے ۔ یوسف نذر صاحب اور مولانا وحید الدین خان مرحوم مبینہ ’’ غیر تصادمی پالیسی ‘‘ ایسے مشورے بھارت اور بھارتیوں کو دیتے نظر نہیں آتے۔ یہ بھارت ہے جوکبھی افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی BLAاور BRA ایسے دہشت گردوں کے زریعے پاکستان میںخونریزی کا بازار گرم کرواتا ہے۔ بھارت کی پاکستان مخالف شیطانیاں کم ہوں تو جنوبی ایشیا میں امن کی فضائیں آر پار جا سکیں ۔