آئی سی سی نے نئی ون ڈے رینکنگ جاری کردی، ویرات کوہلی کی ترقی
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
آئی سی سی نے ون ڈے کی نئی پلیئرز رینکنگ جاری کردی ہے، بھارت کے ویرات کوہلی ایک درجہ ترقی کے بعد پانچویں نمبرپر جبکہ پاکستان کے بابراعظم خراب کارکردگی کے باوجود دوسری پوزیشن پر براجماں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نئی آئی سی سی رینکنگز جاری، پاکستانی کرکٹرز کا راج، بابر اور شاہین سب سے آگے
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے جاری کی گئی نئی ون ڈے پلیئرز رینکنگ میں بھارت کے اوپنر بلے باز شبمن گل پہلے نمبر پر براجمان ہیں، پاکستان کے بابر اعظم دوسری پوزیشن پر ہیں، بھارتی کپتان روہت شرما تیسرے جبکہ محمد رضوان 20ویں نمبر پر ہیں۔
جنوبی افریقہ کے ہینرچ کلاسین تیسرے، نیوزی لینڈ کے ڈیریل مچل چھٹے، آئر لینڈ کے ہیری ٹیکٹر 7ویں، سری لنکا کے چیریتھ اسلنکا 8ویں، انڈیا کے شہریار الیاس 9 ویں اور ویسٹ انڈیز کے شائی ہوپ 10 ویں پوزیشن پر ہیں، نیوزی لینڈ کے میکر ول ینگ 8 درجہ ترقی کے بعد 14 ویں، پاکستان کے فخر زمان 3 درجے تنزلی کے بعد 18 ویں نمبر پر ہیں۔
بولرز کی رینکنگ میں شاہین آفریدی پانچ درجہ تنزلی کے بعد 9 ویں نمبر پر چلےگئے ہیں، سری لنکا کے مہیش تھیکشانا کا پہلا نمبر برقرار ہے، آسٹریلیا کے ایڈم زمپا 2 درجہ ترقی کے بعد ٹاپ ٹین میں آگئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آئی سی سی رینکنگ انڈیا پاکستان شبمن گل کرکٹ ونڈے انٹرنیشنل ویرات کوہلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈیا پاکستان شبمن گل کرکٹ ونڈے انٹرنیشنل ویرات کوہلی ویں نمبر کے بعد پر ہیں
پڑھیں:
شاہراہ ریشم تک پہنچنے کا راستہ
اسلام ٹائمز: پاکستان کے راستے ایران کو شاہراہ ریشم سے ملانے والے راستے کو اگرچہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ایران کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت ایران، پاکستان چین اور ایران کے سہ فریقی باہمی تعاون کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور سیستان میں علاقائی ترقی کے لیے ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل دے کر نہ صرف ایران کو شاہراہ ریشم سے جوڑ سکتی ہے بلکہ ملک کے جنوب مشرق کو بھی ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
ایران کے صدر پزشکیان نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان سے پہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”نیو سلک روڈ منصوبے کو پاکستان کے راستے ملایا جا سکتا ہے“۔ ایران کو پاکستان کے ذریعے شاہراہ ریشم سے جوڑنا کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ نیو سلک روڈ یا چین کے Belt and Road initiative (BRI) کے عالمی منصوبے کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ایران کا نام اس منصوبے کے سٹریٹیجک فوائد سمیٹنے والے ممالک کی فہرست میں ابھی تک نہیں دیکھا گیا۔
اب پاکستان اور ایران کے جنوب مشرقی کوریڈور کے ذریعے اس نیٹ ورک سے منسلک ہونے کے امکانات کے بارے میں ایرانی صدر کے نئے بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ نیا راستہ ماضی کی ناکامیوں کو کسی کامیابی میں بدل سکتا ہے ؟ نیو سلک روڈ کا منصوبہ چین کی طرف سے سیکڑوں بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔
یہ منصوبہ مشرقی ایشیا کو مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ سے زمینی اور سمندری راستوں سے ملاتا ہے۔ اس منصوبے میں چھے اہم کوریڈورز ہیں جن میں چائنا سنٹرل ایشیا یورپ کوریڈور، چائنا روس کوریڈور اور سب سے اہم چین پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) شامل ہے جو چین کے صوبے سنکیانگ سے شروع ہوتا ہے اور پاکستان کی گوادر بندرگاہ پر ختم ہوتا ہے۔ اپنے جغرافیائی سیاسی محل وقوع کے پیش نظر اسلامی جمہوری ایران ، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک ثالثی ربط ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے ساتھ ایران کی سرحد اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی ترقی کے پیش نظر کچھ ماہرین اس راستے کو شاہراہ ریشم میں ایران کے داخلے کے ممکنہ کنکشن پوائنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایرانی نیوز ایجنسی ”تسنیم“ کے مطابق ”12 روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی خصوصی مدد نے ایرانی حکام کو اس جنوب مشرقی پڑوسی (پاکستان) کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش کو بڑھایا ہے“۔
صدر پزشکیان کا حالیہ بیان، جس کے مطابق ”ایران کو پاکستان کے راستے نیو سلک روڈ پراجیکٹ سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔“ اس کنکشن کو آگے بڑھانے کے لیے اعلیٰ سطح کی حکومتی حمایت کی نشاندہی کرتا ہے۔ تسنیم کے مطابق شمال مشرقی راستوں کے برعکس، جنوب مشرقی راہداری کے فوائد زیادہ ہیں جیسے کھلے پانیوں سے قربت، گوادر پورٹ تک رسائی اور زمین اور سمندر کے ذریعے چین کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنے کا موقع وغیرہ۔
پاکستان کے راستے ایران کو شاہراہ ریشم سے ملانے والے راستے کو اگرچہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ایران کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت ایران، پاکستان چین اور ایران کے سہ فریقی باہمی تعاون کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور سیستان میں علاقائی ترقی کے لیے ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل دے کر نہ صرف ایران کو شاہراہ ریشم سے جوڑ سکتی ہے بلکہ ملک کے جنوب مشرق کو بھی ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ البتہ اس راستے کی کامیابی کا انحصار جغرافیائی سیاسی تقاضوں کے صحیح ادراک، علاقائی اقدامات سے ہم آہنگی اور ایران کے مشرق میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی رفتار پر ہے۔