اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان چاند سورج کی تخلیق کے بعد سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے۔ اسلامی سن کا آغاز ہجرت نبوی ﷺ سے ہوا، بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ کا نام ماہ رمضان ہے۔ ماہِ رمضان کی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ آمد آمد ہے، شعبان کے آخری ایام ہیں، اس ماہ کی 29 یا 30 تاریخ کو رمضان المبارک کا چاند نظر آئے گا، یہ کوئی معمولی چاند نہیں ہوگا، یہ ماہِ رمضان کا چاند ہو گا، ایمان کا چاند ہوگا، توحید اور قرآن کا چاندہوگا، روزے اور نماز کا چاند ہوگا، توبہ و استغفار کا چاند ہوگا، فیاضی و سخاوت کاچاند ہوگا، دعا اور امید کا چاند ہوگا، نجات اور آزادی کا چاند ہوگا، رمضان کا چاند ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس چاند کے نظر آتے ہی شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
پوری کائنات پر گویا اللہ کی رحمتوں کی چادر سی تن جاتی ہے، ہر مسلمان کا دل موم ہوجاتا ہے، ہر زبان اللہ کے ذکر سے معطر ہو جاتی ہے، ہر دل عبادات و مناجات میں محو ہو جاتا ہے، مساجد کی رونقیں دوبالا ہو جاتی ہیں، گھروں میں جائے نماز بچھ جاتے ہیں، طاقوں میں رکھے قرآن کھل جاتے ہیں، سحر و افطار کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں، یہ سب ماہِ رمضان کی برکتوں کا مظہر ہوتا ہے۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو امام الانبیاء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ دعا سکھاتے تھے کہ وہ اس طرح دعا کریں:
ترجمہ: اے اللہ! آپ مجھے اس مہینے میں (گناہوں سے) بچا لیجیے، اور مجھے رمضان تک پہنچا دیجیے، اور اس مہینے کی (عبادات )کو میری طرف سے قبول فرمائیے۔
طبرانی میں روایت ہے کہ مسلمان رمضان کا مہینہ داخل ہونے پر یہ دعا کیا کرتے تھے:
ترجمہ: اے اللہ! رمضان کا مہینہ قریب آگیا، پس آپ اس مہینے کو میری سلامتی کا ذریعہ بنائیے اور مجھے اس مہینے میں گناہوں سے محفوظ فرمائیے اور میری طرف سے اسے سلامتی والا بنائیے۔ اے اللہ! مجھے صبر اور اجر کی امید کے ساتھ اس کے روزے اور راتوں کی عبادت کی توفیق عطا فرمائیے، اور اس مہینے میں مجھے کوشش کرنے کی، محنت کرنے کی، طاقت کی اور چستی کی توفیق عطا فرمائیے، اور مجھے بچا لیجیے اس مہینے میں اکتاہٹ، تھکنے، سستی اور اونگنے سے، اور اس مہینے میں مجھے شب قدر نصیب فرمائیے جس کو آپ نے ہزار مہینے سے بہتر بنایا ہے۔
ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہم رمضان کا مہینہ ایسے گزاریں جیسے امام الانبیاء ﷺ گزارتے تھے، اب سوال یہ ہے کہ امام الانبیاء ﷺ رمضان کیسے گزارتے تھے ؟ اکابر علماء فرماتے ہیں کہ آپﷺ کا خود یہ عالم ہوتا کہ آپﷺ کی تلاوت میں اضافہ ہوجاتا حتیٰ کہ جبرئیل امین کے ساتھ قرآن کا دور ہوتا، آپﷺ کی نمازوں کی کیفیت بدل جاتی، آپﷺ کی سخاوت ہوا کی رفتار سے چلتی اور دریا کی رفتار سے بہتی، کبھی پورے مہینہ کے لیے مسجد میں معتکف ہوجاتے، کبھی 20 دن کے لیے، اخیر عشرہ کا اعتکاف تو آپ نے پوری زندگی بڑے اہتمام سے کیا ہے۔ رمضان المبارک میں آپﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا، زیادہ سے زیادہ عبادت، تلاوت اور دوسرے کارخیر کی فکر ہمیشہ آپ کے قلب ودماغ پر چھائی رہتی، دعاؤں کا اہتمام بڑھ جاتا، راحت وآرام اور بستر کو الوداع کہہ دیا جاتا۔ آپﷺ کا رمضان عبادت وریاضت کا ایک مثالی مہینہ ہوتا تھا۔
ہم خوش نصیب ہیں کہ ہماری زندگیوں میں ایک بار پھر یہ رحمتوں والا مہینہ آرہا ہے، ہم میں سے ہر ایک کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اسے آقا کریمﷺ کے طریقے کے مطابق گزاریں، رمضان المبارک کے موقع کو ہمیں غنیمت سمجھنا چاہیے، اس کی ایک ایک ساعت اور گھڑی کے ہم قدر کرنے والے بنیں، رمضان کے مبارک مہینہ میں جہاں اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے افطار کا انتظام کرنا باعث ثواب ہے، وہیں مسافروں، غریبوں، راہگیروں اور مدارس کے غریب و نادار طلباء و اساتذہ کرام کا خیال رکھنا بڑے اجر کا کام ہے، یہ ایک بڑی فضیلت اور فائدے کی چیزہے، اس فضیلت کو حاصل کرنے کا موقع ہمیں صرف رمضان کے مہینہ میں ہی پورے طور پر ملتا ہے۔
رمضان المبارک کے مہینہ میں ایک اہم اور روزانہ ادا کی جانے والی عبادت تراویح کی نماز بھی ہے، ہمیں رمضان کی راتوں کو تراویح اور تہجد سے زندہ رکھنا چاہیے۔ اس مہینہ کی صحیح قدر اسی وقت ہوگی، جب ہم اس کے ایک ایک پیغام کوملحوظ رکھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں، رمضان المبارک کی ایک بڑی صفت اور خاصیت یہ ہے کہ یہ ہمیں صبر، غم خواری اور خیر خواہی کی دعوت دیتا ہے، یعنی ہمیں اس مہینہ میں طبیعت کے خلاف اور ناپسندیدہ باتوں کو بہت ہی تحمل کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے، اسی لیے آپﷺ اس مہینہ میں کثرت سے سخاوت فرماتے تھے اور لوگوں پر خرچ کرتے تھے، اگرچہ آپ کی سخاوت پورے سال جاری رہتی تھی۔ شب قدر بڑی انمول نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک رات صرف اس امت کو عطا کی ہے، غالب گمان یہی ہے کہ یہ رات رمضان کے مہینہ اور اس کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔
اس رات کی فضیلت اور منفعت انتہائی عظیم ہے، اس رات کی عبادت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی بہتر قرار دیا ہے۔ رمضان کی خاص اور اپنی نوعیت کی ایک انوکھی عبادت اعتکاف ہے، رسول اللہﷺ پابندی سے اخیر عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے، اس خصوصی عبادت کی احادیث مبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ رسول اللہﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ہر طرف سے تعلق ختم کرکے بندہ اللہ کی طرف یکسو اور متوجہ ہوجاتا، اس کے در پہ پڑجاتا اور بالکل علیحدہ ہوکر اس کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر میں مشغول رہتاہے۔
اس مقدس مہینہ میںجہاں عبادات و مناجات کا اہتمام ازحد ضروری ہے وہاں ہر طرح کے گناہ سے پرہیز کرنابھی بے حد ضروری ہے، خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رمضان سے محروم لوگوں میں شامل ہوجائیں، بجائے سعادت مندی کے بد بختی ہمارے ہاتھ آئے، بجائے رحمت الٰہی کے، فرشتوں کی لعنت ہم پر برسے اور نہ جانے ان سب کی تلافی کے لیے اگلا رمضان ملے یا نہ ملے۔ مبارک مہینہ کی ناقدری کرنے والے کو کبھی حضرت جبرئیلؑ نے اس طرح بد دعا دی"ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی"۔ جس پر آپﷺ نے آمین کہا۔ کبھی آپﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایاکہ"بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ مبارک میں بھی باران رحمت سے محروم رہا"۔ (کنز العمال، حدیث نمبر: 23693)
ایک جگہ آپﷺ نے فرمایا "جس کی رمضان میں مغفرت نہ ہوسکی تو پھر کب ہوگی"۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 8963)
رمضان المبارک کے مہینہ میں بھی جو لوگ گناہوں میں ملوث رہتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ کی وعید ہے کہ "اگلے ایک سال تک فرشتے ان پر لعنت کرتے رہتے ہیں"۔ (کنزالعمال، حدیث نمبر: 23724)
ایک روایت میں اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ"میری امت اس وقت تک ذلیل وخوار نہیں ہوسکتی، جب تک وہ روزوں کا اہتمام کرتی رہے"۔ (کنز العمال، حدیث نمبر 23701)
ایک جگہ رمضان کے نا قدروں کے بارے میں رحمۃ للعالمینﷺ نے فرمایا کہ "اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگ بھوکے پیاسے رہیں یعنی اللہ کے یہاں ان کے اس عمل کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں"۔ اللہ کریم ہم سب کو اس رمضان کو اس طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح نبی کریمﷺ گزارا کرتے تھے۔ آمین یا رب العالمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک اس مہینے میں کا چاند ہوگا اللہ تعالی کا چاند ہو مہینہ میں کے مہینہ رمضان کے کی عبادت رمضان کا رمضان کی کا مہینہ کے ساتھ اللہ کے مہینہ ا کے لیے اور اس
پڑھیں:
صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس
صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سینئر صحافی مطیع اللّٰہ جان کے خلاف منشیات اور دہشت گردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس جاری کردیا، یہ مقدمہ گزشتہ سال 28 نومبر کو مارگلہ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر سرکاری اسلحہ چھیننے، پولیس ناکے پر گاڑی ٹکرانے اور منشیات رکھنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
مطیع اللّٰہ جان کے خلاف قانونی کارروائی پر صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے شدید تنقید کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں گزشتہ سال نومبر میں پی ٹی آئی مظاہرین کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی رپورٹنگ کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آج کی سماعت کے آغاز پر وکیل میاں علی اشفاق نے مطیع اللّٰہ جان کی جانب سے عدالت میں وکالت نامہ جمع کرایا، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ صحافی کو اس مقدمے میں ’دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے‘۔
جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ معاملے میں پولیس کا مؤقف سننا بھی ضروری ہے، اور مطیع اللّٰہ جان کی مقدمے کی تمام دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست پر پولیس کو 8 نومبر کے لیے نوٹس جاری کر دیا، سماعت اسی تاریخ تک ملتوی کر دی گئی۔
سماعت کے دوران وکیل ایمان زینب مزاری، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ، اور دیگر صحافی بھی موجود تھے۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مطیع اللّٰہ جان کی بریت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور انہیں مقدمے کی تمام دستاویزات فراہم کی تھیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ متعدد سینئر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مطیع اللّٰہ جان کے خلاف درج مقدمہ فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مطیع اللّٰہ جان کی گرفتاری
پولیس کے مطابق، 26 نومبر 2024 کی رات مطیع اللّٰہ جان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب سیکٹر ای 9 میں پولیس نے ان کی گاڑی کو روکا اور انہوں نے مبینہ طور پر گرفتاری کے خلاف مزاحمت کی، گاڑی پولیس ناکے سے ٹکرا دی اور سرکاری اسلحہ چھین لیا۔
ایف آئی آر میں منشیات ایکٹ (سی این ایس اے) کی دفعہ 9(2)4 شامل کی گئی ہے، جس کے تحت ان پر 100 سے 500 گرام آئس رکھنے کا الزام ہے، جبکہ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے۔
ابتدائی طور پر انہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے بعد میں یہ فیصلہ کالعدم قرار دے کر انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا، بعد ازاں وکلا ایمان زینب مزاری اور ہادی علی چٹھہ نے ان کی ضمانت بعد از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔
مطیع اللّٰہ جان نے اس کے بعد اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنی گرفتاری سے قبل اغوا اور تشدد کے الزامات عائد کیے۔
خط میں ان کا کہنا تھا کہ 27 نومبر 2024 کو انہیں اور صحافی ثاقب بشیر کو پمز ہسپتال کی پارکنگ سے پولیس وردی میں ملبوس افراد نے اغوا کیا، آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا، جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعد میں پولیس نے مارگلہ تھانے میں ان کے خلاف جعلی مقدمہ درج کیا، جس میں دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات لگائے گئے، مطیع اللّٰہ جان کے مطابق ان کے ساتھی صحافی کا حلفیہ بیان بھی عدالت میں پیش کیا گیا، جس میں اغوا کی تصدیق کی گئی۔
انہوں نے اپنے 2020 کے اغوا کے واقعے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات ان کے آئینی، پیشہ ورانہ اور صحافتی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، جو 2021 کے ’تحفظِ صحافی و میڈیا پروفیشنلز ایکٹ‘ کے منافی ہیں۔
انہوں نے آئی جی اسلام آباد سے مطالبہ کیا کہ معاملے کی غیرجانبدار اور دیانت دار افسر کے ذریعے شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: پنجاب حکومت وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کن مرحلہ، پیپلزپارٹی کی بڑی بیٹھک آج ہوگی جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں، جسٹس مسرت ہلالی تباہ کن اسلحہ کے ساتھ گھروں کو لوٹنے والے پناہ گزین نہیں دہشت گرد ہیں، خواجہ آصف قطری وزیراعظم نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام فلسطینی گروہ پر عائد کردیا ٹی ایل پی پر پابندی لگنا اچھی بات ہے، پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نابالغ ہے، فواد چودھری غزہ میں حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم