نجی اور سرکاری شعبے کے مستند ڈاکٹروں کا ڈیٹا جمع کیا جائے، ڈاکٹر مہیش کمار
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر مہیش کمار نے سرکاری و نجی شعبے کے مستند ڈاکٹر وں کا ڈیٹا جمع کرنے کا مطالبہ کردیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے چیئرمین ڈاکٹر مہیش کمار کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔
اجلاس میں کمیٹی ارکان نے اسلام آباد کے پمز اسپتال میں بیڈز کی عدم دستیابی اور مریضوں کے خوار ہونے کا تذکرہ کردیا۔
اجلاس کےشرکاء کو ایگزیکٹو ڈائریکٹر (ای ڈی) پمز نے بتایا کہ ہمارے پاس 1250 بیڈ ہیں، روزانہ200 بیڈ خالی ہوتے ہیں، ہر روز 200 سے زیادہ مریض داخل کرنے کی گنجائش نہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کشور زہرا نے کہا کہ لہتراڑ روڈ پر جگہ جگہ کلینک کھل گئے ہیں، ڈاکٹر ہو نہ ہو کلینک چل رہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اتائی ڈاکٹروں سے متعلق وزارت قومی صحت میں سیل بنایا جائے، نجی اور سرکاری شعبے کے مستند ڈاکٹروں کا ڈیٹا بھی جمع کیا جائے۔
وزارت صحت کے حکام نے شرکاء کو بریفنگ دی، بتایا کہ میڈیکل گریجویٹس میں 80 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں، کچھ لڑکیاں شادی کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ نہیں اپناتیں اور کچھ ڈاکٹر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت کی اپنی کوئی لیبارٹری نہیں، پوسٹ مارٹم اور دیگر ضروری ٹیسٹ کےلیے پنجاب میں نمونے بھیجنے پڑتے ہیں۔
بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ ضلع اسلام آباد میں نیشنل میڈیسن کوالٹی کنٹرول لیبارٹری قائم کی جارہی ہے، منصوبے پر1 ارب 30 کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔
سیکریٹری صحت نے کہا کہ پمز کا بجلی بل بہت زیادہ آتا ہے، سولر پلانٹ لگانے کی تجویز ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے تھرپارکر میں وفاقی اسپتال بنانے کی سفارش کی تو سیکریٹری صحت نے کہا کہ تھرپارکر میں وفاقی اسپتال کےلیے سمری وزیراعظم کو بھجوادی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس؛ ہزاروں جعلی پاسپورٹس بننے کا انکشاف
اسلام آباد:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ہزاروں جعلی پاسپورٹس بننے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹر فیصل سلیم کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا، جس میں خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کی صورت حال پر بھی بات چیت کی گئی۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر بریفنگ کے لیے وزیرداخلہ کو ہونا چاہیے تھا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم نے پختونخوا کے ہوم سیکرٹری اور آئی جی کو بلایا تھا، دونوں ہی نہیں آئے، جس پر اسپیشل ہوم سیکرٹری کے پی نے بتایا کہ آئی جی کے پی اور ہوم سیکرٹری کابینہ میٹنگ میں ہیں، اس لیے نہیں آ سکے۔ چیئرمین کمیٹی نے اس ایجنڈے کو آئندہ اجلاس تک مؤخر کردیا۔
اجلاس میں خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال پر کے پی حکام کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے بتایا کہ یہ جو پریزنٹیشن دی جارہی ہے اس کی دستاویزات ہمارے پاس ہونی چاہییں تھی، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمیں اس پر مکمل بریفنگ دی جائے، یہ بریفنگ مکمل نہیں ہے۔
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ امن وامان کے مسئلے پر پہلے نیکٹا سے بریفنگ لے لیں اس کے بعد صوبوں میں چلے جائیں۔ 15 دن پہلے ایجنڈا بھیجا جاتا ہے۔ جب آپ 15 دن پہلے ایجنڈا نہیں بھیجیں گے تو پورا کام نہیں ہوسکتا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم ایجنڈا آپ سے پوچھ کر نہیں رکھ سکتے۔
سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ اس وقت بھارت کے ساتھ چپقلش چل رہی ہے، کسی دن کسی وقت کوئی بھی شرارت ہوسکتی ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی شرارت ہوتی ہے تو بتایا جائے صوبوں میں کیا تیاری ہے۔
لیویز کے بلوچستان پولیس میں ضم ہونے پر بحث
اجلاس میں لیویز کے بلوچستان پولیس میں ضم ہونے کے معاملے پر بحث بھی ہوئی۔ لیویز حکام نے بتایا کہ بلوچستان لیویز کے ایکٹ میں ترامیم ہوئی ہیں۔ سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ لیویز کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کی ناک کے نیچے منشیات فروشی ہوتی ہے،جوئے کے اڈے چلتے ہیں اور یہ منتھلیاں لیتے ہیں۔ لیویز کو پولیس میں مرج نہ کیا جائے۔
لیویز حکام نے کہا کہ لسبیلہ، حب سمیت چار ڈسٹرکٹس کو بی ایریا سے نکال کر اے ایریا میں ڈال دیا گیا ہے۔
سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ لیویز کی بہت ساری بندوقیں چلتی ہی نہیں۔ لیویز اہلکاروں کے پاس رائفلیں ہیں تو گولیاں نہیں ہیں، جس پر وزیر مملکت نے کہا کہ لیویز کی حاضری 50 فیصد سے بھی کم ہے۔ لیویز کو ہم نے مضبوط نہیں کیا، کپیسٹی بلڈنگ نہیں کی۔
جعلی پاسپورٹس کا معامہ
اجلاس میں سینیٹر عرفان نے استفسار کیا کہ بتایا جائے پچھلے 5سالوں میں کتنے ایسے پاسپورٹ بنے جو پاکستانیوں کے نہیں تھے، جس پر ڈی جی پاسپورٹ مصطفی جمال قاضی نے بتایا کہ 1296پاسپورٹس سعودی عرب سے رپورٹ ہوئے جو غیرملکیوں نے پاکستان بھجوائے۔ اس کے علاوہ 45 کیسز مزید آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان میں زیادہ تر پاسپورٹس کے پی اور گجرانوالہ گجرات سے ہیں۔ 4500پاسپورٹس ایسے ہیں جن کا ہمارے پاس ڈیٹا ہی نہیں ہے۔ 3ہزار پاسپورٹس فوٹو سویپ کرکے بنائے گئے ہیں۔ 6ہزار نادرا کے ڈیٹا میں انٹروژن کرکے جعلی بنائے گئے۔ یہ 12ہزار جعلی پاسپورٹس رکھنے والے پاکستان میں نہیں ہیں۔
ڈی جی پاسپورٹس نے کہا کہ بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو افغانستان ڈی پورٹ کردیا گیاہے۔ جن لوگوں کو جعلی پاسپورٹس بنانے پر سزائیں دی گئیں ان میں سے 35 اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں۔