یہ بات 1970 کے شروع کی ہے، پاکستان کا بڑا اردو اخبار ’’ کوہستان‘‘ بند ہوگیا اور صحافی بے روزگار ہوگئے، اسی بیروزگاری کے سبب انھوں نے پکوڑہ اسٹال لگائے اور مال روڈ پراحتجاج کیا۔ بیروزگاری کی اس صف میں، میں بھی شامل تھا، میں میکلوڈ روڈ کی جانب سائیکل پر جا رہا تھا کہ میں نے سینئیر صحافی اثر چوہان کو پیدل چلتے ہوئے دیکھا وہ ایبٹ روڈ پر اپنے آفس کی طرف جا رہے تھے، میں رک گیا اور انھیں سلام کیا اورکہا کہ ’’ آئیں، میں آپ کو دفتر چھوڑ دیتا ہوں‘‘ لیکن وہ شاید پیدل چلنا چاہتے تھے۔کہنے لگے ’’نہیں، تم بھی ساتھ چلو‘‘ خیر میں بھی ان کے ساتھ پیدل چلنا شروع ہوگیا۔
خیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھا ’’ تم آج کل کیا کررہے ہو؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’ میں بھی آج کل بے روزگار ہوں ‘‘ باتیں کرتے کرتے، اپنے دفتر پہنچ گئے مجھے چائے پلائی اور پھرگویا ہوئے کہ کل میرے دفتر آجانا اور یہیں کام کرنا اور یوں میں ان کے اخبار ہفت روزہ ’’سیاست‘‘ سے وابستہ ہوگیا۔
میں ان کے ساتھ کچھ ماہ تک رہا اور پھر انھوں نے مجھے روزنامہ ’’ مغربی پاکستان‘‘ میں نوکری دلوا دی۔ میری دوستی ان کے چھوٹے بھائیوں مبارک چوہان، لیاقت چوہان اور سلیم کے ساتھ تھی، شاید اسی لیے وہ مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔
وقت گزرتا گیا میں مختلف اخبارات میں نوکریوں کا سفر طے کرتا ہوا اسلام آباد آ گیا اور یہاں نیف ڈیک نیشنل فلم ڈیولپمنٹ میں پی آر او کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ بھائی اثر چوہان سے میرا رابط رہا اور جو رشتہ سرگودھا کی مٹی نے ان سے قائم کیا تھا وہ باقی رہا۔
ہفت روزہ سیاست اخبار اور روزنامہ سیاست کی شکل اختیارکرگیا اور لاہور سے شایع ہو کر اسلام آباد / راولپنڈی جاتا اورکم و بیش 3000 اخبار دارالحکومت میں فروخت ہوتا۔ اثر چوہان پیپلزپارٹی کے اخبار ’’مساوات‘‘ میں بھی ایک سینیئر پوزیشن پرکام کرتے رہے، اس وجہ سے ان کی سیاسی حلقوں، بیوروکریسی اور بااختیار حلقوں میں نہ صرف یہ کہ اچھی رسائی تھی بلکہ لوگ ان کی بات کو مانتے بھی تھے،کسی بھی شخص کوکوئی کام ہوتا اور وہ اثر چوہان سے اس بات کا اعادہ کرتے تو وہ اس کے کام کرنے میں حتی الا مکان کوشش کرتے جب کبھی لاہور سے اسلام آباد آتے تو مجھ سے رابط کرتے اور انتہائی شفقت سے پیش آتے۔
روزنامہ سیاست کا شمار اس وقت کے بڑے اخبارات میں ہونے لگا اور سیاسی حلقوں میں یہ اخبار اور اثر چوہان اس ملک کے صف اول کے ناموں میں شمار ہونے لگے۔ راولپنڈی میں روزنامہ سیاست کا ایک بیورو آفس بنایا جس کا انچارج سلیم بخاری کو تعینات کیا، یعنی اسلام آباد کے سیاست اخبارکے بیورو چیف سلیم بخاری تھے، جو آج کل صحافت میں ایک بڑا مقام رکھتے ہیں اور ایک چینل کے ڈائریکٹر نیوز بھی ہیں۔
سلیم بخاری کو اسلام آباد سے لاہور منتقل ہونا پڑا۔ اثر چوہان نے یہ ذمے داری میرے سپرد کی اور میں نیف ڈیک کی ملازمت کے ساتھ ساتھ شام میں سیاست اخبار کے لیے کام کرتا، اس میں میرا ساتھ نثار ناسک اور فاروق اقدس دیتے رہے، پھر ان کے چھوٹے بھائی لیاقت چوہان نے یہ ذمے داریاں سنبھال لیں جو تادم تحریر جاری ہیں۔
اثر چوہان کی کئی کتابیں جن میں نثر اور نظم غزلوں اور نظموں کے مجموعے بھی شایع ہو چکے ہیں۔ اثر چوہان محمد وآل محمد پر ایمان رکھتے تھے۔ صوفیائے کرام اور علمائے کرام کی صحبت میں رہنا اور ان سے محبت کرنا، ان کی فطرت میں شامل تھا۔ ایک بار بتانے لگے کہ ’’ میں نے دوسری شادی اپنی کولیگ نجمہ سے کر لی، پہلی بیوی کے اولاد تھی لیکن دوسری بیوی سے کئی برس تک اولاد نہ ہوئی جس سے نجمہ پریشان بھی تھیں اور شاید احساس کمتری کا شکار بھی تھیں۔
میں بھی ایک وجہ سے کافی پریشان تھا اور دعا گو بھی کہ خدا نجمہ سے بھی مجھے اولاد کی نعمت سے نواز دے۔ ایک رات اسی خیال میں میں سوگیا تو مجھے خواب میں ایک بزرگ آئے اور انھوں نے مجھے بشارت دی کہ ’’ اثر چوہان تمہارے نجمہ کے بطن سے ایک بیٹا ہوگا اور تم اس کا نام شہباز رکھنا‘‘ چناچہ ایسا ہی ہوا، بیٹا ہوا جس کا نام شہباز رکھا۔
اثر چوہان کو عالم دین اور نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد سید حامد علی شاہ موسوی سے بڑی عقیدت تھی اور وہ اکثر و بیشتر ان سے ملنے اور دعا کرانے آتے تھے اور جتنی دیر وہ موسوی صاحب کے پاس وقت گزارتے مذہبی گفتگو کرتے رہتے اور شاید اسی وجہ سے حامد موسوی انھیں پیار سے حسینی راجپوت کہتے۔
سرگودھا سے صحافت کے حوالے سے لاہور منتقل ہونے سے پہلے دو افراد میں ایک تاج دین حقیقت اور بھائی اثر چوہان تھے جنھوں نے نہ صرف اپنی محنت سے اپنا مقام بنایا بلکہ اپنے بچوں اور پھر سرگودھا سے منتقل ہونے والے نوجوانوں کو ملازمتیں دلوانے میں اہم رول ادا کیا۔ ان میں سلیم بخاری اور راقم اسی فہرست میں شامل ہیں۔ اثر چوہان آخری وقت تک ایک اردو اخبار میں کالم تحریرکرتے رہے ہیں۔ انفارمیشن منسٹری اور دیگر بیوروکریسی کے علاوہ سیاسی حلقوں میں اثر چوہان کو بہت اچھے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور تا دیر انھیں اچھی یادوں کی طرح ذہن میں محفوظ رکھا جائے گا۔ خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد سلیم بخاری اثر چوہان میں بھی ا کے ساتھ اور ان
پڑھیں:
پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
سید سعادت اللہ حسینی نے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانیوں سے گریز کریں جو مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے ہولناک دہشتگرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس حملے میں 26 بے گناہ افراد بشمول غیر ملکی سیاح جاں بحق ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے اس المناک واقعہ پر اپنے گہرے رنج و غم اور غصے کا اظہار کیا اور فوری انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے بدترین دہشت گرد حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ اس حملے میں بے گناہ جانوں کا جانا، جن میں غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں، انتہائی افسوسناک ہے، ہماری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اس طرح کے وحشیانہ فعل کی کوئی بھی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکمل طور پر غیر انسانی حملہ ہے، اس کی واضح الفاظ میں غیر مشروط مذمت ہونی چاہیئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس حملے کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سخت ترین سزا دی جائے۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے زور دے کر کہا کہ کوئی بھی مقصد، سیاسی ہو، نظریاتی یا کوئی اور ہو، اس طرح کی درندگی کا جواز قطعی نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر انسانی عمل ہے، جو ہر اخلاقی اور انسانی ضابطے کی سخت خلاف ورزی ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے ریاستی اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے فوری، فیصلہ کن اور شفاف اقدامات کرے اور کشمیر میں سکیورٹی کے انتظامات کو مؤثر بنائے اور کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرے۔ انہوں نے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانیوں سے گریز کریں، جو مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں یا بے گناہ گروہوں کو نشانہ بنا سکتے ہوں۔