’’میرے ابھی کسی نے پانچ ہزار روپے نکال لیے، پرس سے۔ پتا ہی نہ چلا میں کپڑا دیکھ رہی تھی، رش بہت تھا، بس کسی نے زپ کھول کر نکال لیے۔‘‘ ان شربتی سی آنکھوں میں ملال کا رنگ نمایاں تھا۔
’’ ابھی دو مہینے پہلے بھی میرے کاغذات جن میں میٹرک کا سرٹیفکیٹ، شناختی کارڈ کی کاپی اور پندرہ ہزار روپے سب کسی نے غائب کر لیے۔‘‘
رمضان کی آمد سے ایک ہفتہ قبل اس قسم کے حادثات لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہی ہیں کہ خریداروں کا رش ہر بازار، مال پر نظر آرہا ہے، ایسے میں ان لوگوں کی عید ہو جاتی ہے جن کی انگلیاں قینچی کی مانند گاہکوں کی جیب پر چل جاتی ہیں، پر جس انداز سے یہ دلوں پر گرتی ہیں اس کا احساس انھیں ذرہ برابر نہیں ہوتا وہ اپنے تئیں اپنی ضرورت کا کھاتہ کیسے پورا کریں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس قسم کی مہارتیں رمضان کے مہینے میں نظر آتی رہتی ہیں۔
رمضان برکتوں، رحمتوں کا مہینہ ہے جس کی تیاریاں ہمارے ملک میں بڑے زور شور سے ہوتی ہیں۔ مثلاً عید کے کپڑوں، جوتوں اور جیولری کی تیاری کے لیے تو رجب کے بعد سے ہی بہت سے لوگ کر لیتے ہیں لیکن جناب برینڈ کے اس زمانے میں فیشن بدل جانے کا رجحان جس تیزی سے آیا ہے، اس بارے میں شک ہی ہے کہ جو کپڑے ابھی سیل سے پچاس، چالیس اور ستر فی صد کی کٹوتی کے ساتھ بڑے برینڈ ٹیگ کے لیے ہیں، کہیں رمضان میں نئے فیشن کی وجہ سے ایک ہی مہینے میں پرانے نہ ہو جائیں۔
’’ ارے بھئی اسی لیے میں تو نیو آرائیوول (نئی آنے والی چیز) لیتی ہوں پر اب کی بار وہ بھی پرانا تھا، کم بخت نے نیوآرائیوول کہہ کر قیمت زیادہ لے لی۔‘‘
محترمہ کے خیالات پرکپڑوں کا جائزہ لیا، نو دس برس کی بچی کے کپڑوں میں خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کچھ بھی نیا نہ تھا سوائے برینڈنگ کے ٹیگ اور قیمت کے پر مرض کوفت کو کیا کہیے۔
رمضان کی تیاریوں میں پہلے زمانے میں سنتے آئے تھے کہ ایک جوڑا جسے بڑے عقیدت و احترام سے امی محترمہ پلنگ پر سجا کر رکھ دیتی تھیں، ساتھ میں نئی ٹوپی عطر، بنیان، رومال اور چپل کی ایک جوڑی کہ ننھے میاں صبح ابا میاں کے ساتھ نماز پڑھنے بڑی جامع مسجد میں جائیں گے تو کوئی کمی نہ رہ جائے اور آج کے زمانے میں مما کے پاس اتنی فرصت ہی کہاں ہوتی ہے کہ چاندنی رات کو بچوں کے یہ چونچلے پالیں، بھئی آخر انھیں بھی تو بننے سنورنے کا حق ہے، لہٰذا محلے کے پارلر والی آنٹی کے پاس پہلے سے ہی بکنگ کروانے کے باوجود پوری رات گزر جاتی ہے مہندی لگوانا الگ ٹھہرا۔ بات رمضان سے براہ راست چاندنی رات پر جا کر رک گئی۔
رمضان کی تیاری میں ایک اہم اور نہایت ضروری اہتمام ہے افطاری کا، اب یہ بھی درست ہی ہے کہ مہنگائی زیادہ ہے پر اسے کہتے ہیں اوپر والے کی عطا کردہ برکتیں،کیا کیا نہیں رکھا جاتا دسترخوان پر مغرب کی اذان سے پہلے اور اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے نوٹوں کی، تو ہمارے ملک میں اب اتنی بھی غربت نہیں ہے۔
’’ جی! کیا کہا آپ نے، عوام کا تو مہنگائی کی وجہ سے برا حال ہے۔ دودھ، انڈے، گوشت، آٹا، روز بہ روز مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں دیکھیے کیا حال ہے۔‘‘
’’ بالکل درست فرمایا آپ نے کہ روز بروز مہنگائی بڑھ رہی ہے پر جا کر بازاروں کی حالت دیکھیں، مالز میں جائیں، ابھی تو رمضان شروع نہیں ہوا، جا کر کھانے پینے کے اسٹالز پر دیکھیں۔ بڑی برکت ہے جی اور رمضان میں تو یہ برکت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔‘‘
اسی وقت کوچ ایک دھچکے سے رکی، لوگ شور مچا رہے تھے، سفید وردی والے سے بحث جاری تھی، کنڈیکٹر لگا پڑا تھا اور ڈرائیور اپنے کاغذات ادھر ادھر کھنگالتا برا سا منہ بنائے بڑ بڑا رہا تھا۔ چند لال نوٹ کنڈیکٹر کے ہاتھ سے چپکے سے سفید کپڑے والے باؤ کی جیب تک گئے۔
’’ آخر انھیں بھی تو رمضان کی تیاری کرنا ہوتی ہے۔‘‘ اس بابرکت فقرے پر منہ حیرت سے کھل گیا۔غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، چغلی کھانا، کسی پر بہتان لگانا، کسی کی عیب جوئی کرنا، لوگوں کو ایذا پہنچانا، بے ہودہ باتیں کرنا عام حالات میں بھی منع ہے اور روزے کی حالت میں ان کی ممانعت و حرمت اور زیادہ ہو جاتی ہے۔
ان باتوں سے روزہ فاسد تو نہیں ہوتا لیکن مکروہ تو ہو جاتا ہے۔ یہ باتیں سچ ہیں لیکن کیا ہمارے سیاستدان، وزرا اور دوسرے اعلیٰ عہدیداران کیا نہیں جانتے کہ ان صورتوں میں روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔ کیا واقعی انھیں اپنے روزے کا خیال ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو پھر شیطان بند کر دیا جاتا ہے۔ یہ ساری باتیں چکرا کر رکھ دیتی ہیں، اس لیے کہ آفس سے گھر واپسی پر روڈ پر اکثر صاحبان آپس میں لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں سب کو ہی گھر لوٹنے کی جلدی ہوتی ہے، ایسے میں کوئی معمولی سی ٹکر، اسپیڈ یا تکرار روزے داران کو تاؤ دلا دیتی ہے۔ سوال تو اٹھتا ہے۔
بات پھر رہ گئی رمضان کی تیاری کی۔ کپڑے لتے کے ساتھ گھر کے پردے تو کہیں رنگ و روغن تو کہیں برتن پھر خاندان میں کسی کی شادی بیاہ، سالگرہ، عقیقہ، منگنی وغیرہ الگ۔ یہ ایک اور خرچہ ہے پر کیا کریں رشتے داری، دوستیاں تو نبھانی ہی پڑتی ہیں، بڑے سرکاری افسران ہوں یا چھوٹے کھاتے داران اپنے نمبر بڑھانے کے لیے افطار پارٹی کا سہارا۔ کیا زبردست آئیڈیا ہے جو ہمیشہ کارگر رہتا ہے گویا برکتیں الگ تو کام الگ۔ رمضان ایک معاشی الجھاؤ کو سلجھانے کا نام ہے جہاں بہت سے مسئلے ان افطار و دعوتوں میں سلجھ جاتے ہیں، میزبان کے نمبر ہمیشہ اچھے ہی رہتے ہیں۔
رمضان کی تیاری میں کہیں کوئی کسر تو نہیں رہ گئی۔ لو، زکوۃٰ فطرہ تو بھول ہی گئے۔ ہمیشہ ڈنڈی مارنے کی کوشش میں کئی بار ڈنڈی ہی ٹوٹ جاتی ہے پر کیا کریں، مہنگائی تو دیکھیں ہر سال اپنے حساب سے مہنگائی بڑھتی ہی ہے کم نہیں ہوتی، اب دکھاوے کو بھی کرنا ہی پڑتا ہے۔
سسرال والوں پر تو اپنی غربت کا راگ الاپنا ہی پڑتا ہے کہ لوگوں کے منہ بلاوجہ کھل جاتے ہیں ہاں میکے والے تو پھر بھی اپنے ہوتے ہیں اب کیا کریں تھوڑی بہت تو دل رکھنے کے لیے جیب ڈھیلی کرنی ہی پڑتی ہے۔ طاقت کی دوائیں بھی ضروری ہوتی ہیں، رمضان میں روزے رکھنے کے لیے ایکسٹرا انرجی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ چلو شکر ہے کہ رمضان کی تیاری میں کوئی کمی نہیں رہ گئی۔ جوڑے ایک بار پھر سے گن لیتے ہیں اور اپنی ساری فہرست پھر سے چیک کر لیتے ہیں۔ یہ مرض کوفت رمضان سے عید کے بعد تک جاری رہتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رمضان کی تیاری جاتی ہے کے ساتھ ہوتی ہے کے لیے
پڑھیں:
غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔
غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔
تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔
دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔