رمضان میں پانی کی کمی سے بچنے کے آسان طریقے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
پانی انسانی جسم کے لیے سب سے ضروری عنصر ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں روزے کے دوران پیاس کا احساس زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
روزے کے دوران جسم میں پانی کی کمی واقع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے سے بچنے کے لیے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔
سحر و افطار میں پانی کا زیادہ استعمال
گرمی کے دوران جسم کو ہائیڈریٹ رکھنے کے لیے افطار اور سحر کے درمیان زیادہ سے زیادہ پانی پینا ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق دن بھر پیاس سے بچنے کے لیے کم از کم 8 سے 10 گلاس پانی پینا چاہیے۔
پانی کی کمی سے بچنے کے لیے غذائی تدابیر
سحری میں دودھ اور دہی کا استعمال نہ صرف پانی کی کمی کو روکتا ہے بلکہ معدے کو بھی صحت مند رکھتا ہے۔
سحری اور افطار میں کھیرے، تربوز، خربوزہ، کینو، سیب اور دیگر رسیلے پھلوں کا استعمال کریں، کیونکہ یہ پانی اور فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں جو جسم کو دیر تک ہائیڈریٹ رکھتے ہیں۔
ایسی اشیاء سے پرہیز کریں جو پیاس بڑھاتی ہیں
سحری اور افطار میں سوڈا، کیفین (چائے، کافی) اور مصنوعی جوسز سے گریز کریں، کیونکہ یہ جسم سے پانی کی مقدار کم کر دیتے ہیں۔
زیادہ نمکین، مرچ مصالحے والی اور چٹپٹی غذائیں بھی پیاس میں اضافہ کرتی ہیں، اس لیے ان سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔
سحری کا وقت اور اس کی اہمیت
سحری کرنے کا بہترین وقت فجر سے کچھ دیر پہلے کا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف سنت ہے بلکہ دیر سے سحری کرنے سے روزے کے دوران بھوک اور پیاس کے دورانیے میں کمی آتی ہے، جس سے روزہ رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔
گرمی اور دھوپ سے بچاؤ
رمضان میں سورج کی تپش سے بچنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ براہ راست دھوپ میں نکلنے سے گریز کریں اور اگر باہر جانا ضروری ہو تو چھتری یا سر کو ڈھانپنے کا اہتمام کریں تاکہ جسم سے پانی کم خارج ہو۔
یہ تمام احتیاطی تدابیر اپنانے سے آپ رمضان المبارک میں پیاس کی شدت کو کم کر سکتے ہیں اور صحت مند روزے گزار سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پانی کی کمی سے بچنے کے کے دوران کے لیے
پڑھیں:
جنتی عورت کون؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سیدنا انس ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: کیا میں تم کو جنتی عورت کے بارے میں نہ بتاؤں کہ وہ کون ہے؟ ہم نے کہا: ضرور اے الله کے رسول! آپؐ نے فرمایا: شوہر پر فریفتہ، زیادہ بچے جننے والی، جب یہ غصہ ہو جائے یا اسے کچھ بُرا بھلا کہہ دیا جائے یا اس کا شوہر ناراض ہو جائے تو یہ عورت (شوہر کو راضی کرتے ہوئے) کہے میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک نہ سوؤں گی جب تک کہ تم خوش نہ ہو جاؤ“ (ترغیب)۔
اس حدیث پاک میں جنتی عورت کی صفت بیان کی گئی ہے کہ جنت میں جانے والی یہ عورت ہے جس میں یہ اوصاف پائے جائیں:
وُدود: بہت زیادہ شوہر سے محبت کرنے والی، شوہر پر فریفتہ کہ ذرا سی ناراضی سے اس کا چین وسکون ختم ہو جائے۔ محبت وچین کا تعلق اس کا شوہر سے وابستہ ہو، اسے ناراض چھوڑ کر الگ بیٹھنے والی نہ ہو۔ فریفتگی اور محبت کا یہ فائدہ ہو گا کہ دوسرے کی جانب اس کا خیال اور دھیان نہ جائے گا اور غایت محبت کی وجہ سے شوہر کی جانب سے کوئی تکلیف دہ امور ہوں گے تو اسے برداشت کر لے گی۔ محبت کی وجہ سے کڑوی بات بھی میٹھی ہو جاتی ہے، محبوب کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف محبت کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتی، جس سے گھر کا نظام بہ احسن وجوہ چلتا ہے اور ہر ایک کو گھریلو سکون میسر ہوتا ہے، جس کا آج فقدان ہے کہ معمولی بات بھی آپس میں محبت نہ ہونے کی وجہ سے دل میں چبھ جاتی ہے۔ عورت جب عشق اور فریفتگی کا برتاؤ کرے گی تو سخت مزاج مرد بھی متاثر ہو کر دل میں اسے جگہ دے دے گا اور وہ بھی محبت کی بنیاد پر نامناسب امور کو برداشت کرتا رہے گا اور ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے محبت کی بنیاد پر صرف نظر کرتا رہے گا اور گھریلو نظام اچھی طرح چلتا رہے گا۔
وُلود: زیادہ بچے جننے والی عورت قابل تعریف اور الله و رسولؐ کے نزیک بہت پسندیدہ ہے۔ اسی لیے سرکار دو عالمؐ نے تاکید فرمائی ہے کہ زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو۔ شادی کا اہم ترین مقصد سلسلہ نسل کو باقی رکھنا ہے اور امت کے افراد کا زیادہ سے زیادہ ہونا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بچے نہیں چاہتے یا کم سے کم چاہتے ہیں، تاکہ عیش وآرام ملے اور پرورش کی مشقت سے بچے رہیں، یہ الله ورسولؐ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ ہاں! مرض اور بیماری کے پیش نظر ہو تو دوسری بات ہے۔ عموماً اہل یورپ کا مزاج ہے کہ وہ بچے بالکل نہیں چاہتے یا ایک دو سے زیادہ نہیں چاہتے، تاکہ ان کے عیش وآرام میں خلل نہ ہو۔ سیر وسیاحت میں آزاد رہیں، الله کی پناہ! اولاد اور اس کی کثرت بڑی نعمت اور ثواب کی بات ہے۔ آپؐ نے فرمایا: زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو، میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا۔ اُمت کی کثرت آپؐ کے لیے قیامت میں فخر کی بات ہے۔ رہی یہ بات کہ بچوں کی کثرت غربت کا سبب ہے، سو یہ غلط ہے۔ بچے اچھے ہونگے، ان کی تعلیم وتربیت اچھی ہوگی ، لائق اور سنجیدہ ہوں گے تو یہ خوش حالی اور مال داری کا باعث بنیں گے۔ پریشانی اور مصیبت تو غلط تعلیم وتربیت ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ بچے اور اولاد، والدین کے حق میں دین ودنیا کی بھلائی کا باعث، صدقہٴ جاریہ اور ہر اعتبار سے خیر کا باعث ہیں کہ حمل اور دودھ پلانے کا بڑا ثواب ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ آپؐ نے عورتوں سے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں کہ جب تم میں سے کوئی اپنے شوہر سے حاملہ ہوتی ہے اور شوہر اس سے راضی ہو تو اس کو ایسا ثواب ملتا ہے جیسا کہ الله کے راستے میں روزہ رکھنے والے اور شب بیدار کو ثواب ملتا ہے اور جب اس کو درد زہ ہوتا ہے تو اس کے لیے (جنت میں) جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہوتا ہے، اسے آسمان وزمین کے فرشتے بھی نہیں جانتے اور پیدائش کے بعد جب بچہ ایک گھونٹ بھی دودھ پیتا یا چوستا ہے اس پر ماں کو ایک نیکی ملتی ہے۔ اگر بچہ کے سبب سے رات میں جاگنا پڑ جائے تو راہ الہٰی میں ستر غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے (کنز العمال)۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: عورت حمل سے لے کر بچہ جننے اور دودھ چھڑانے تک ایسی ہے جیسے اسلام کی راہ میں سرحد کی حفاظت کرنے والا۔ اگر اسی درمیان انتقال ہوجائے تو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے (کنز العمال)۔
اس حدیث پاک میں جنتی عورت کا ایک نہایت ہی اہم وصف وعلامت بیان کی گئی ہے کہ وہ شوہر کی محبت، بلکہ عشق میں سرشار ہو کر شوہر کی ذرا سی بھی ناراضگی کو برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر کسی بنیاد پر شوہر ناراض یا غصہ ہو جائے تو اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر غایت درجہ محبت وتعلق کا اظہار کرے کہ جب تک آپ راضی نہ ہوں گے، خوش نہ ہوں گے میں ایک پلک بھر نہ سوؤں گی۔ الله اکبر! کیا شان وآرام ہے محبت وعشق کا۔
کیا آج کل کی ماڈرن عورتیں ایسا کرسکتی ہیں؟ اگر شوہر ناراض ہو اور اس کا ناراض ہونا حق بجانب ہو تو بھی بیگم صاحبہ پوچھیں گی بھی نہیں، مزے سے بے خبر سو جائیں گی۔ اگر آج یہ وصف عورت میں پیدا ہو جائے تو گھر جنت کا نشان بن جائے۔
شوہر کیسا ہی بدمزاج اور سخت مزاج کیوں نہ ہو، بیوی کی غایت محبت سے اس کی محبت وقدر ذہن میں بیٹھ جائے گی۔
سیدنا ابن عباسؓ سے بھی اسی قسم کی ایک حدیث مروی ہے، جسے امام نسائی نے بیان کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میں تم کو جنتی عورت نہ بتادوں، جو خوب محبت کرنے والی، زیادہ بچے جننے والی، شوہر کے پاس کثرت سے آنے والی کہ اگر اسے تکلیف دے دی جائے یا شوہر ناراض ہو جائے تو شوہر کا ہاتھ پکڑ کر کہے، میں پلک بھر نہ سوؤں گی جب تک کہ آپ خوش نہ ہو جائیں (کتاب عشرۃ النساء)۔
گویا کہ اس بات کی تعلیم ہے کہ شوہر ناراض نہ رہے۔ اپنی جانب سے اسے ناراض رہنے یا رکھنے کی شکل نہ پیدا کی جائے، کیوں کہ شوہر کی رضا جنت ہے۔