غیر ملکی پاکستانی امرا اور ملک کی حالت زار
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
لاہور سے اسلام آباد یا راولپنڈی جائیں تو سرائے عالمگیر سے پہلے یا بعد میں جی ٹی روڈ پر دائیں طرف ایک بڑا دلکش اور عجیب و غریب منظر نظر آتا ہے۔ جب موٹر وے نہیں بنا تھا تو میں اکثر اسلام آباد جاتے ہوئے اس روڈ پر یہ حیران کن منظر بڑی دلچسپی سے دیکھتا تھا۔ اس سڑک کے کنارے ایک انتہائی شاندار بنگلہ ہے ’’جس کی چھت‘‘پر سفید رنگ کی ایک مہنگی پراڈو گاڑی کھڑی دیکھائی دیتا ہے۔ میں نے جتنی بار بھی یہ منظر دیکھا میرے اندر سوالات کا ایک ملا جلا طوفان پیدا ہوا۔ ایک دفعہ مجھے لاہور سے ایک ہائی ایس پر راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا تو ہائی ایس اسی پراڈو والی کوٹھی کے سامنے رکی جہاں سے اس میں کچھ لوکل سواریاں بیٹھ گئیں۔ اس پر میرے دماغ میں اس کوٹھی اور پراڈو کا وہ پرانا تجسس جاگ اٹھا اور میں فورا ان سواریوں کے پاس اس منظر کے بارے سوالات پوچھنے کے لیئے ان کے قریب جا پہنچا۔ امریکہ سے ہمارے ایک دوست محمد زبیر صاحب ہیں، جو عموما امریکہ کے بارے میں بڑی دلچسپ اور علمی معلومات پہنچاتے رہتے ہیں۔ کل ان کی ایک تحریر نظر سے گزری جس کا عنوان تھا کہ ’’امریکہ کو خوابوں کی سرزمین کیوں کہتے ہیں؟‘‘ چند سال قبل تک تو ان سے وٹس ایپ اور میسنجر پر بھی بات ہوتی رہتی تھی مگر آج کل یہ تعلق ان کی تحریریں پڑھنے تک محدود ہو گیا ہے۔ وہ ایک انتہائی ذمہ دار اور فرض شناس انسان ہیں۔ جہاں تک میں انہیں جانتا ہوں وہ ایک اعلیٰ درجے کے باخلاق اور شریف النفس انسان ہیں۔ ان کے پاس امریکی اور پاکستانی دونوں قومیتیں ہیں۔ خاص طور پر ان کے اندر پاکستان سے حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ امریکہ چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، اور اپنے آبائی وطن ’’مملکت خدادا پاکستان‘‘ہی میں مستقل طور پر سیٹل ہونا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی زندگی کے بقیہ خواب اپنے آبائی وطن میں پورے نہیں ہو سکتے تھے۔
ہم متوسط طبقے کے کچھ کے لیئے امریکہ واقعی خوابوں کی سرزمین ہے۔ شائد اسلام آباد یا جہلم وغیرہ میں زبیر احمد نے امریکہ سے آ کر ایک گھر بھی خریدا تھا۔ لیکن بعد میں انہوں نے پاکستان میں موجود کرپشن، ہیرا پھیری، انسانی حقوق کی پامالی، عداوتوں، حسد و عناد اور منافقت جیسی معاشرتی برائیوں کو دیکھا تو پاکستان سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا اور وہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر واپس امریکہ چلے گئے تھے۔اگر پاکستان میں اتفاق سے آپ کا جہلم یا کھاریاں وغیرہ جانا ہو اور آپ کو اس موضوع پر تحقیق کرنے کا شوق چرائے تو آپ کو وہاں ایسی بے شمار پراڈو ٹائپ کوٹھیاں نظر آئیں گی، جہاں ایک آدھ نوکر اور چوکیداروں کے سوا صرف جنات رہتے ہیں۔ ان کوٹھیوں کے مالکان محمد زبیر جیسے دیار غیر میں رہنے والے وہ محب وطن پاکستانی ہیں جو پاکستان سے حد درجہ محبت تو کرتے ہیں اور اپنی دولت اور صلاحیتوں سے پاکستان کو نوازنا بھی چاہتے ہیں مگر جب وہ یہاں آتے ہیں تو پاکستان کے بدترین حالات دیکھ کر وہ مایوس ہو جاتے ہیں اور یہاں لایا اپنا سب کچھ یہیں چھوڑ کر واپس پردیس سدھار جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں اکثر ان کی کوٹھیوں پر قبضہ ہو جاتا ہے یا اس نوع کے دیگر بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہی غیر ملکی پاکستانیوں کے بارے محمد زبیر کہتے ہیں کہ کچھ احباب پوچھتے ہیں کہ جس بندے کے پاس پانچ ملین ڈالر ہونگے وہ امریکہ کیوں جائے گا؟ انہیں شائد علم نہیں کہ لوگ امریکہ کو خوابوں کی سرزمین کیوں کہتے ہیں؟ پاکستانی طارق فرید کم عمری میں والدین کے ساتھ امریکہ آیا تھا،چند ہزار قرض لے کر اس نے پھلوں کا کھوکھا لگایا۔آج اس کے کاروبار کی مالیت 600 ملین ڈالر ہے،شاہد خان بھی امریکہ آنے کے بعد ارب پتی بنا،جین کوم اپنی ماں کے ساتھ یوکرین سے امریکہ آیا تو دونوں کئی برسوں تک سوشل ویلفئیر پر گزارہ کرتے رہے جبکہ اب وہ ارب پتی ہے،ایلون مسک تعلیم کے لئے امریکہ آیا تو اس کی ماں نے اسے تھوڑی سی رقم دی تھی،تعلیم مکمل کرنے تک اس پر ایک لاکھ ڈالر کا قرضہ چڑھ گیا مگر آج وہ دنیا کا سب سے امیر ترین بندہ ہے.
ان سیلف میڈ لوگوں میں انگلینڈ اور یورپ میں ’’بیسٹ ویز کیش اینڈ کیری‘‘کے مالک سر انور پرویز بھی شامل ہیں، جن کا تعلق پاکستان گجر خان سے ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے انور پرویز کو ان کی کاروباری خدمات کے عوض ’’سر‘‘کے خطاب سے نوازا۔ برطانیہ کے مشہور گروپ ’’یعقوب اینڈ سنز‘‘کے مالکان بھی خالی جیب برطانیہ آئے اور ارب پتی بن گئے۔ میں نے سر ایک بار سر انور پرویز کے پیلس نما دفتر میں بیرسٹر سلیم قریشی کے ہمراہ ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ بتایا تھا کہ وہ پاکستان سے اپنے ساتھ کچھ نہیں لائے تھے، انہوں نے ایک عام مزدور اور پھر بس ڈرائیور کے طور پر لندن میں کام شروع کیا، پھر ایک گراسری کی دکان کھولی اور تب اپنے کاروباری جذبے اور دن رات کی محنت کے بل بوتے پر دیکھتے ہیں دیکھتے ارب پتی بن گئے۔پنجاب کے سابق گورنر چوہدری محمد سرور اور ان کے بھائی محمد رمضان کی سکاٹ لینڈ گلاسگو میں ’’اتحاد کیش اینڈ کیریز‘‘ہیں۔ چوہدری محمد سرور برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے پاکستانی مسلمان پارلیمنٹ ممبر تھے جنہوں نے وہاں تین بار مسلسل منتخب ہو کر ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے بھی پاکستان آ کر سیاست میں قسمت آزمائی کی اور دو بار نون لیگ اور پی ٹی آئی کی طرف سے گورنر پنجاب بھی بنے گئمگر انہیں بھی پاکستانی ماحول راس نہ آیا اور آجکل وہ گمنامی میں ہیں۔ اسی طرح فرانس میں محمود بھٹی نے کاروبار میں نمایاں ترقی کی اور اربوں ڈالر کمائے۔ ان کا گوگل پر انٹرویو موجود ہے جس میں وہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں فرش پر سوتے تھے اور انہوں نے بالکل نچلے لیول سے ترقی کی منازل طے کیں، اور آج کل فرانس اور یورپ میں ان کے محل نما گھر ہیں۔ چلی میں گوجرانوالہ کے فیصل ملک رہتے ہیں ان کے پاس کروڑوں ڈالر ہیں مگر ان کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اسی طرح طرح بہت سے پاکستانی کینیڈا،آسٹریلیا اور یورپی ممالک میں بھی رہتے ہیں جو اپنی دولت سمیت پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر جب وہ زندگی کے ہر شعبے میں پاکستان کی حالت زار دیکھتے ہیں تو دلبرداشتہ ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان میں پاکستان سے رہتے ہیں انہوں نے کے ساتھ ارب پتی ہیں کہ کے پاس
پڑھیں:
امریکہ بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت کیلئے لائے، دنیا کے مفاد میں ہو گا: بلاول
لندن (آئی این پی )چیئرمین پیپلز پارٹی اور پاکستانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر، پانی سمیت تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں، بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشتگردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے، امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے۔برطانیہ کے دورے میں ارکان پارلیمنٹ اور تھنک ٹینکس کے اہم ارکان سے ملاقاتوں کے بعد برسلز میں یورپی یونین کے رہنمائوں سے ملاقات کے لیے روانگی سے قبل لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت جنگ کے بعد پاکستان نے آج تک سیز فائر کی پاسداری کی ہے، حملے کے جواز کے لیے بھارت کا پورا بیانیہ جھوٹ پر مبنی تھا، جنگ کے بعد بھی بھارت جھوٹ پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے میڈیا میں بہت فرق ہے، گودی میڈیا نے جھوٹ پھیلانے کی پالیسی اپنائی، جب کہ پاکستان کے میڈیا نے ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی، جس پر میں میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب مؤثر انداز میں دیا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو جنگ کے دوران بہترین حکمت عملی بنانے پر فیلڈ مارشل کا اعزازی عہدہ دیا گیا، جو ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا، عالمی سطح کے معاہدے کی شرائط سے کوئی بھی ملک روگردانی نہیں کرسکتا، ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ فعال ہے، اور اسے کسی طور پر معطل کرنے کا اختیار بھارت کو حاصل نہیں ہے۔کینیڈا، امریکہ اور پاکستان میں بھارتی دہشتگردی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے سفارتی وفد کے سربراہ نے کہا کہ بھارت کہتا کچھ، اور کرتا کچھ اور ہے، جب بھارت پاکستان پر الزام لگارہا تھا تو دنیا میں کوئی بھی ملک اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، سب جانتے ہیں کہ بھارت دہشت گرد تنظیموں کو پیسہ دیکر دہشتگردی کرانے میں ملوث ہے، سکھ رہنمائوں کے کینیڈا میں قتل پر کینیڈین وزیر اعظم کا بیان بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک بھی بھارتی دہشتگردی سے متاثر ہوئے ہیں، ہم بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں اپنی خارجہ پالیسی سے دہشتگردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی ختم کرے، بلوچستان میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کی فنڈنگ ختم کرنی چاہیے، تاکہ اس کے دہشتگردی کیخلاف بیانات کو سنجیدہ لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم پر مسلمانوں کے قتل، ٹارگٹ کرکے لوگوں کو مروانے کے الزامات ہیں، پاکستان کے ساتھ تنازع بڑھانے کے لیے جھوٹے بیانیے کے تحت الزامات لگاکر حملے کرنا بہادری نہیں، بلکہ خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے، پاکستان نے اس سے قبل بھی ابھینندن کو گرفتار کرکے چائیپلا واپس بھیجا تھا، یہ پاکستان میں دراندازی کا ثبوت ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت خود جانتا ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہ ان کی انٹیلی جنس ناکامی تھی، جسے کور کرنے اور بہار میں الیکشن کے حوالے سے مارجن لینے کے لیے پاکستان پر الزامات لگائے گئے، تاہم پاکستان نے منہ توڑ جواب دیکر خطے میں بھارتی بالادستی کی سازش ناکام بنائی۔سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر اور بارہا یہ کہا ہے کہ خطے میں امن ہونا چاہیے، ہم تو صدر ٹرمپ کے بیانات کو وعدے سمجھتے ہیں، ان کے امن کی کوششوں کے لیے دیے گئے بیانات کو بھارت سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، ہم سمجھتے کہ اگر امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہے، تاکہ خطے کے ممالک قیام امن کے بعد ترقی کرسکیں اور آگے بڑھیں۔انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں بھارت نے کشمیر پر متنازعہ قانون پاس کرکے اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دیا، تاہم صدر ٹرمپ کے بیان سے مسئلہ کشمیر پھر سے زندہ ہوگیا، ٹرمپ کے بیان سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان تنازعہ ہے، یہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں، ہم نے برطانیہ میں تمام جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقات کی، جن کا کہنا تھا کہ اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات کرنا زیادہ کارآمد ہوگا، اور آسانیاں ہوں گی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے جو کردار ادا کیا، اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں، ہم دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں اور امید ظاہر کرتے ہیں کہ ٹرمپ پوری کوشش کریں گے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اپنے دیگر تمام دوستوں کی مدد سے مل کر حل کروائیں گے، اس حوالے سے بھارت کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے ایک سوال پر کہا کہ برطانیہ کے ارکان پارلیمنٹ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا پیغام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں جنگ چاہتے ہیں، جب کہ پاکستان کا پیغام ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں، جنگ جیسے خطرناک مرحلے سے نوجوانوں کو نہیں گزارنا چاہتے، بھارت کے بہت سے لوگ ہماری بات سنتے ہیں تو وہ بھی جنگ کی بات چھوڑ کر امن کی بات کرتے ہیں۔ وفد برسلز پہنچ گیا۔