غزہ کے 82 فیصد بچے خون کی کمی کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے بچوں میں خون کی کمی کی شرح 82 فیصد تک جا پہنچی ہے اسلام ٹائمز۔غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل منیر البرش نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں طبی آلات کی قلت 70 فیصد ہو گئی ہے جبکہ قابض صیہونی رژیم اب بھی اس علاقے میں ضروری ادویات و طبی سامان کے داخلے کی اجازت نہیں دے رہی۔ الجزیرہ مباشر کو انٹرویو دیتے ہوئے منیر البرش نے بتایا کہ قابض صہیونی، معذوری سے دوچار فلسطینی نسل چاہتے ہیں درحالیکہ غزہ کے طبی شعبے نے جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک غزہ کی پٹی میں معذوری کے 156 سے زائد کیسز ریکارڈ کئے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پوری پٹی میں اسقاط حمل کے کیسز میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ غزہ کے مکینوں کے خلاف قابض صیہونی رژیم کی جانب سے بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کئے جانے کے باعث غزہ کی پٹی میں سبھی لوگ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ غزہ کے بچوں میں ''خون کی کمی'' کی شرح بھی 82 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
اس بارے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین - انروا (UNRWA) نے بھی گذشتہ روز اعلان کیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں موسم سرما نے قدم جما لئے ہیں جبکہ پناہ گزین اپنے گھروں کی تباہی کے بعد آندھی اور بارش میں کسی بھی قسم کی پناہ گاہ کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ انروا نے تاکید کی تھی کہ اس کے پاس اردن اور مصر کے اپنے گوداموں میں فلسطینی پناہ گزینوں کو پناہ دینے کے لئے بطور کافی سامان موجود ہے تاہم اس ساز و سامان کے غزہ کی پٹی میں داخلے کے لئے صرف ''اجازت'' درکار ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غزہ کی پٹی میں کہ غزہ کی غزہ کے
پڑھیں:
برطانیہ میں پناہ گزینوں کیلئے بُری خبر، پالیسی میں بڑی تبدیلی
برطانیہ نے پناہ گزینوں سے متعلق اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کردی ہے جس کے تحت اب پناہ گزینوں کو مستقل رہائش نہیں مل سکے گی۔
میڈی رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں اب پناہ لینے والوں کا تحفظ وقتی ہوگا جس کے کچھ عرصے بعد ان کا کیس دوبارہ چیک کیا جائے گا۔
پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ان کے آبائی ملک کو "دوبارہ محفوظ" قرار دیا جائے گا تو ممکن ہے وہ واپس اپنے وطن بھیج دیے جائیں۔ مستقلاً رہائش جہاں 5 سال کے بعد ملتی تھی، اب نئی تجویز کے مطابق اس مدت کو 20 سال تک بڑھایا جائے گا۔
مزید برآں وہ لوگ جو ’انڈر کنٹریبیوشن‘ (مثلاً کام کرنا، سوشل سیکیورٹی میں حصہ ڈالنا، رضاکارانہ کام) میں شامل ہونگے، انہیں زیادہ ترجیح ملے گی۔
اس کے علاوہ پناہ گزینوں کے خاندانی ری یونین حقوق ختم یا محدود کیے جائیں گے۔ جو لوگ پناہ گزین تسلیم کیے جائیں گے انہیں خود اپنے خاندان کو برطانیہ لانے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
نئی فیملی امیگریشن کی شرائط ان کے لیے ایسی ہونگی جیسے برطانوی شہریوں یا دوسرے امیگرنٹویز ہولڈرز کے لیے ہوتی ہیں، مثلاً معیّن سالانہ آمدنی کا ثبوت دینا۔ پناہ کے دعوے کرنے والوں کو دی جانے والی مالی اور رہائشی مدد اختیاری ہوگی۔
نئی پالیسی کے مطابق اب ہوم آفس سرکاری طریقہ کار کے بعد یہ فیصلہ کرے گا کہ کس پناہ کے متلاشی کو ہاؤسنگ اور مالی امداد ملے گی اور کس کو نہیں۔
علاوہ ازیں ان پناہ گزینوں کے لیے جو غیر قانونی راستوں سے آئے ہیں، شہریت حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ ان سے ’اچھا کردار‘ کا ٹیسٹ زیادہ سخت لیا جائے گا جبکہ ان کی درخواستیں عموماً مسترد بھی کی جاسکتی ہیں۔