VERMONT, US:

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ جمعہ کو اوول آفس وائٹ ہاؤس میں ہتک آمیز رویہ اختیار کرنے پر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے خلاف امریکی عوام نے مظاہرہ کیا۔

امریکہ میں ورمونٹ کے علاقے ویٹسفیلڈ میں جے ڈی وینس اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سیروتفریح کے لیے آ رہے تھے، احتجاجی مظاہرین نے بھی جے ڈی وینس کے خلاف مظاہرے کے لیے اسی علاقے کا انتخاب کیا جہاں سے نائب صدر کو گزرنا تھا۔

مظاہرین نے یوکرین کے حق میں نعرے اور بینر اٹھا رکھے تھے اور ان کا مقصد وینس اور اس کے خاندان کو پیغام دینا تھا۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ سے تلخ کلامی کے بعد یوکرینی صدر کا برطانیہ میں پر تپاک خیر مقدم

امریکی میڈیا کے مطابق مظاہروں کے بعد وینس کا خاندان اپنے متوقع اسکئی ریزورٹ کے بجائے نامعلوم غیر معروف مقام پر منتقل ہو گیا۔

نیویارک، لاس اینجلس اور بوسٹن میں بھی سینکڑوں افراد نے ہفتے کے روز یوکرین کی حمایت میں احتجاج کیا۔

وائٹ ہاؤس کے اندر ہونے والی اس غیر معمولی بات چیت میں وینس نے یوکرائنی صدر پر امریکہ کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا۔ ٹرمپ نے بھی زیلنسکی سے کہا کہ وہ روس کے ساتھ معاہدہ کریں ورنہ ہم پیچھے ہٹ جائیں گے اور انہیں تیسری جنگ عظیم سے کھیلنے کا الزام عائد کیا۔

مزید پڑھیں: یوکرینی صدر کی ٹرمپ سے لڑائی کے بعد برطانوی بادشاہ چارلس سے ملاقات

ویٹسفیلڈ میں ہونے والا احتجاج پہلے ہی اس ہفتے کے شروع میں منظم کیا گیا تھا، لیکن ٹرمپ اور وینس کے ساتھ زیلنسکی کی جھگڑے کے بعد مزید افراد اس میں شامل ہو گئے۔ احتجاج کے منتظمین نے کہا کہ اس واقعے نے لوگوں کو زیادہ جوش دلا دیا ہے۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس جو اپنی اہلیہ اُشا اور تین بچوں کے ساتھ ورمونٹ آ رہے تھے، نے ابھی تک ان احتجاجات پر کوئی عوامی بیان نہیں دیا۔

ویٹسفیلڈ میں ٹرمپ اور وینس کے حامیوں کی طرف سے بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جے ڈی وینس کے ساتھ وینس کے کے بعد

پڑھیں:

یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز

یوکرین کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ اس کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان آئندہ چند ہفتوں میں براہِ راست مذاکرات کیے جائیں۔

دوسری جانب روس نے استنبول میں ہونے والے تازہ مذاکرات میں کسی بڑی پیشرفت کی امیدوں کو کمزور کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پیٹریاٹ میزائل کیا ہیں، اور یوکرین کو ان کی اتنی اشد ضرورت کیوں ہے؟

روسی میڈیا کے مطابق روسی مذاکرات کار نے کہا کہ ماسکو نے قیدیوں کے تبادلے کے ایک اور مرحلے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے اور جنگی محاذوں پر ہلاک و زخمی فوجیوں کی بازیابی کے لیے مختصر جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔

میزبان ملک ترکی نے پائیدار جنگ بندی اور امن معاہدے کی طرف پیشرفت پر زور دیا، تاہم کریملن نے 3 سال سے زائد عرصے پر محیط جنگ کے بعد کسی فوری بریک تھرو کی توقعات کو کم قرار دیا۔

یوکرین کے مرکزی مذاکرات کار رستم عمراؤف نے مذاکرات کے بعد صحافیوں کو بتایا ’ہماری اولین ترجیح دونوں صدور کی ملاقات کا انعقاد ہے‘۔

ان کے مطابق یوکرین نے تجویز دی ہے کہ یہ ملاقات اگست کے اختتام تک ہو، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان بھی شریک ہوں۔

روسی مذاکرات کار ولادیمیر میدینسکی نے بتایا کہ دونوں فریقوں کے درمیان طویل گفت و شنید ہوئی، مگر انہوں نے اعتراف کیا کہ فریقین کے مؤقف ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔ ہم نے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین جنگ پر معاہدہ نہ ہوا تو روس پر سخت ٹیرف نافذ کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

ان کے مطابق دونوں ممالک نے 12 سع قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا، اور روس نے یوکرین کو 3 ہزار ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشیں واپس دینے کی پیش کش کی۔

انہوں نے مزید کہا ہم نے ایک بار پھر یوکرینی فریق کو تجویز دی ہے کہ رابطہ لائن پر 24 سے 48 گھنٹوں کی مختصر جنگ بندی کی جائے تاکہ طبی ٹیمیں زخمیوں کو اٹھا سکیں اور کمانڈر اپنے فوجیوں کی لاشیں لے جا سکیں۔

گزشتہ ماہ صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ روس اور یوکرین کے امن مطالبات ’بالکل متضاد‘ ہیں، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کا مقصد ان اختلافات کو کم کرنا ہے۔

گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے روس کو 50 دن کی مہلت دی تھی کہ وہ جنگ ختم کرے، ورنہ اسے پابندیوں کا سامنا ہو گا، لیکن کریملن نے کسی مصالحت کی نیت ظاہر نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین کا اپنی خفیہ ایجنسی کے افسر کو قتل کرنے والے روسی ایجنٹس کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے قبل ازیں کہا تھا کہ کسی بڑی پیشرفت کی توقع رکھنا ’غلط فہمی‘ ہو گی، کیونکہ مذاکرات میں کئی پیچیدہ عوامل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

پیسکوف نے مزید کہا کہ کوئی بھی آسان مذاکرات کی توقع نہیں کر رہا۔ یہ فطری طور پر ایک نہایت مشکل گفتگو ہو گی، کیونکہ دونوں فریقوں کی تجاویز ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔

دوسری جانب صدر زیلنسکی نے ایک بار پھر پیوٹن سے براہِ راست ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے، لیکن کریملن کا کہنا ہے کہ زیلنسکی کی جانب سے 2022 میں جاری کردہ ایک صدارتی فرمان کے تحت ان کا پیوٹن سے براہِ راست مذاکرات کرنا قانونی طور پر ممنوع ہے۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرینی میزائل حملے میں روس کی ایلیٹ میرین یونٹ کا کمانڈر ہلاک

یاد رہے کہ روس اور یوکرین اس سال 2 مرتبہ براہِ راست امن مذاکرات کر چکے ہیں، پہلی بار 16 مئی اور دوسری بار 2 جون کو۔

اگرچہ ان بات چیت کے نتیجے میں قیدیوں کے تبادلے کی پیش رفت ہوئی، لیکن وسیع جنگ بندی یا مکمل جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

استنبول امریکا پیوتن پیوٹن ترکیہ جنگ بندی زیلنسکی صدر ٹرمپ یوکرین

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ، امام جمعہ علامہ غلام حسنین وجدانی کی رہائی کیلئے احتجاج
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں: اسد
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات طے
  • (26 نومبر احتجاج کیس)تحریک انصاف کارکنوں کیخلاف عدالتی فیصلوں کا سیلاب
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، آج امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات طے
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، آج امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کرینگے
  • یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار 25جولائی کو امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات کرینگے
  • اسحاق ڈار کی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات طے، اہم امور پر بات چیت کا امکان
  • نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !