پی ڈی پی نے جموں و کشمیر کی اسمبلی میں شراب پر پابندی کا بل پیش کیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
محبوبہ مفتی نے خط میں لکھا کہ یہ بل عوام کے اہم مسائل سے متعلق ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ انہیں کسی ایک جماعت کی کاوش کے بجائے عوامی فلاح کے اقدامات کے طور پر دیکھیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر اسمبلی کے پہلے بجٹ اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے نیشنل کانفرنس کی اتحادی جماعت کانگریس سے اپنے تین نجی بلوں کی حمایت طلب کی ہے، جن میں شراب پر بندی کا بل بھی شامل ہے۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کانگریس کے سینیئر لیڈر غلام احمد میر کو ایک خط میں ان بلوں کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے حمایت کی درخواست کی۔ پی ڈی پی کے پلوامہ سے رکنِ اسمبلی وحید الرحمن پرہ نے اسمبلی میں تین بل پیش کئے ہیں، جن میں جموں و کشمیر میں شراب پر بندی، عوامی اراضی پر رہائش پذیر افراد کے حقوق کی منظوری اور عارضی ملازمین کی مستقلی سے متعلق قوانین شامل ہیں۔ محبوبہ مفتی نے خط میں لکھا کہ یہ بل عوام کے اہم مسائل سے متعلق ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ انہیں کسی ایک جماعت کی کاوش کے بجائے عوامی فلاح کے اقدامات کے طور پر دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی نظریات مختلف ہوسکتے ہیں لیکن عوامی مسائل مشترک ہیں اور ہمیں ان کے حل کے لئے متحد ہونا ہوگا۔
کانگریس کے لیڈر غلام احمد میر جو جنوبی کشمیر کے کے ڈورو حلقے سے ایم ایل اے ہیں، اس وقت کانگریس ورکنگ کمیٹی (CWC) کے رکن بھی ہیں۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں کانگریس کے چھ اور پی ڈی پی کے تین اراکین ہیں، جبکہ نیشنل کانفرنس 49 رکنی حکومت کی قیادت کر رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے ترجمان اور ایم ایل اے تنویر صادق نے پہلے ہی عندیہ دیا ہے کہ حکومت شراب بندی کے بل کی حمایت نہیں کرے گی، کیونکہ ان کے مطابق کشمیر ایک سیاحتی مقام ہے۔ کانگریس نے تاحال اس حوالے سے کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے خط میں مزید کہا ہے کہ 2019ء کے بعد جموں و کشمیر کے لوگوں کو بے مثال چیلنجز کا سامنا ہے، سیاسی غیر یقینی، اقتصادی جمود اور سماجی مشکلات بڑھ رہی ہیں، ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم اپنے اختلافات بھلا کر عوام کے حقوق اور ان کی منفرد شناخت کے تحفظ کے لئے یکجا ہوں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محبوبہ مفتی نے پی ڈی پی
پڑھیں:
کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی لیکن کانگریس نے نہیں کی تو یہ کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشور مانا۔ عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840ء کی دہائی میں نو آبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا، ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ عرفان حبیب نے مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1947ء تک، کانگریس اور مسلم لیگ دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عرفان حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی، تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے۔ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔ عرفان حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئے، ایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں، یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک "ہندو پارٹی" مان لیا گیا۔ انہوں نے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940ء) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظرانداز کر دیا، جو مسلم لیگ کے تئیں اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔