مضبوط صوبائی حکومتیں کیسے ممکن ہونگی؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
اٹھارویں ترمیم کے پیچھے ایک علمی اور فکری سوچ یہ ہی کارفرما تھی کہ مرکز صوبوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دے گا تاکہ صوبے ایک خود مختار اور مضبوط صوبائی حکومتوں کے نظام کو چلا سکیں۔اسی بنیاد پر مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کے نظام کی حمایت کی گئی۔
ماضی میں صوبوں کو سیاسی طور پر یہ گلہ تھا کہ مرکز ہمیں زیادہ اختیارات نہیں دیتا اور صوبوں پر مرکزی کنٹرول زیادہ ہوتا تھا۔اب اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ خود مختار اور مضبوط ہیں۔بلکہ اب تو وفاق کو یہ شکوہ ہے اس کے اختیارات میں کمی ہوئی ہے۔مرکز کے مقابلے میں صوبائی حکومتوں کا مضبوط ہونا ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ اسی فیصلے کے تحت ہی ہم صوبائی سطح پر گورننس یا اچھی حکمرانی کے نظام کو یقینی بناسکتے ہیں۔عام آدمی کے بنیادی نوعیت کے مسائل بھی صوبائی سطح پر ہی حل ہو سکتے ہیں اور اس میں ایک مضبوط صوبائی حکومت کا ہونا بنیادی شرط سمجھا جاتا ہے۔
اب بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کا براہ راست تعلق عوام یا عوامی نوعیت سے ہے، ان کے مسائل کے حل کا تعلق بھی صوبائی حکومتوں اور صوبائی انتظامیہ کے ساتھ ہے۔ اگر ایک اچھی صوبائی حکومت نہیں ہے تو اس صوبے میں بری حکمرانی کے مختلف پہلوؤں زیادہ نظر آتے ہیں ہے۔اس لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں ایک مضبوط صوبائی حکومت اور ایک واضح روڈ میپ یا جامع پروگرام کا ہونا یقینی طور پر ظاہر کرے گا کہ ہم صوبے کی ترقی کا کیا ماڈل رکھتے ہیں۔
آج کل ہم تین صوبوں کے درمیان سیاسی مقابلہ بازی کے مختلف مناظر دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان میں پنجاب،سندھ اور خیبر پختون خواہ شامل ہیں۔ ہر صوبائی حکومت یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ پچھلے ایک برس میں ان کی کارکردگی دیگر صوبوں یا ان کے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں بہت زیادہ مثالی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صوبائی حکومتیں نہ صرف اپنی کارکردگی کی بہتر مثالیں پیش کر رہی ہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو جہاں ان کی دیگر صوبوں میں صوبائی حکومتیں ہیں ان پر کارکردگی کے تناظر میں شدید تنقید کر رہی ہیں۔
صوبائی حکومتوں میں اس طرح کی سیاسی مقابلہ بازی کا ہونا فطری امر سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ جب صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی صوبائی حکومتیں ہوں گی تو اس طرح کے مقابلہ بازی کا رجحان کا پیدا ہونا سیاسی حکمت عملی کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ویسے بھی صوبائی حکومتوں کے درمیان اپنی کارکردگی کے تناظر میں مقابلہ بازی کا رجحان کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ اس سے صوبوں میں ایک دوسرے کے مقابلے میں اچھی کارکردگی کا مقابلہ کرنے یا سبقت حاصل کرنے کے لیے ماحول پیدا ہوتا ہے جومثبت پہلو ہے۔
لیکن اگر یہ مقابلہ بازی حقائق اور شواہد کے بجائے محض جذباتیت پر مبنی ہو تو پھر منفی رجحانات کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔
صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے کچھ بنیادی اشارئیے موجود ہیں اور ان اشاریوں کی مدد سے یہ اندازہ اور تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ صوبائی حکومتیں اچھی حکمرانی کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہیں۔اول، 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی پہلی بنیادی ذمے داری یہی بنتی تھی کہ جس طرح سے وفاق نے صوبائی خود مختاری کے اصول کو تسلیم کر کے ایک مضبوط صوبائی حکومتوں کے تصور کو پیش کیا ہے تو صوبوںمیں موجود صوبائی حکومت اسی تصور کے تحت آئین پاکستان میں دی گئی شق 140اے کے تحت ضلعی سطح پر ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بنائے۔
مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی کے بغیر اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم ممکن نہیں۔لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں اول تو مقامی حکومتوں کے نظام میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور دوئم اگر بلدیاتی ادارے تشکیل کرنا پڑے تو وہ صوبوں کے طاقتور حلقے انھیں مضبوط بنانے کے بجائے مفلوج بنا دیتے ہیں۔اگر صوبائی حکومتوں نے واقعی اپنے اپنے صوبوں میں اچھی حکمرانی اور گورننس کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہے اور عوام تک اس نظام کی رسائی کو یقینی بنانا ہے تو یہ کام مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کے بغیر ممکن نہیں۔
صوبائی حکومتوں کا کام چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینا اور ان کی مدد سے روزگار پیدا کرنا ہے۔ لیکن صوبائی حکومتیں بھی حقیقی ترقی کے منصوبوں کے بجائے خیراتی منصوبے تشکیل دیتی ہیں۔ جس سے حقیقی معاشی ترقی کے معاملات بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ایک اور معاملہ پبلک سیکٹر سے جڑے اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے یا ان کی فعالیت کو یقینی بنانے کے بجائے ہم نجی شعبوں کو فروغ دے رہے ہیں۔نجی بنیاد پر شعبوں کو فروغ دینا اور ان میں عدم ریگولیٹ نظام کی موجودگی عام آدمی کے لیے اور زیادہ مسائل کا سبب بن رہی ہے۔پاکستان میں عام آدمی جو بہت زیادہ معاشی معاملات میں کمزور ہے وہاں سارے معاملات کو نجی شعبوں تک منتقل کرنے کی پالیسی ان کے مسائل میں بڑی سطح کی مشکلات کو پیدا کرے گی۔
اصولی طور پر تو ہمیں ان امور کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ صوبائی حکومتوں نے ایسے کیا سیاسی، انتظامی، قانونی، معاشی اور مالی اقدامات کیے ہیں اور ان کی بنیاد پر صوبائی سطح پرموجود ڈھانچوں میں عوامی مفادات کے تناظر میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد گورننس کی بہتری کے نظام کی ذمے داری وفاق کے مقابلے میں صوبائی حکومتوں کی ہے۔اصل میں ہماری صوبائی حکومتیں رد عمل کی بنیاد پر چلتی ہیں اور ان کے فیصلے مستقل بنیادوں پر کم روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والے امور پر زیادہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح سیاسی حکومتوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی اقدامات سے سیاسی قد بھی بڑھائیں۔اس سیاسی قد میں ہم ذاتی تشہیر بھی دیکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سندھ میں ہمیں بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو،پنجاب میں مریم نواز اور شہباز شریف جب کہ خیبر پختون خواہ میں علی امین گنڈاپور اور بانی تحریک انصاف کی ذاتی تشہیر بھی نمایاں دیکھنے کو ملتی ہے اور کئی منصوبے تو ان کے ناموں سے چلائے جاتے ہیں۔اس کا ایک عملی سطح کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب بھی نئی صوبائی حکومتیں آتی ہیں تو وہ پہلے سے چلنے والے سیاسی منصوبوں یا سیاسی افراد کے نام سے چلنے والے منصوبوں کو ختم کر کے اپنے ناموں سے چلاتے ہیں اور یہ مقابلہ بازی کا رجحان قومی سیاست کو ایک بڑے نقصان کی طرف دھکیل رہاہے اور کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
اسی طرح صوبائی حکومتوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ محض نمائشی کاموں کی مدد سے ہم لوگوں کو وقتی طور پر تو مطمئن کرسکتے ہیں لیکن صوبہ حقیقی ترقی نہیں کرسکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مقامی حکومتوں کے نظام مضبوط صوبائی حکومت صوبائی حکومتیں صوبائی حکومتوں مقابلہ بازی کا کے مقابلے میں حکومتوں کی کے نظام کو ایک مضبوط خود مختار بنیاد پر کے بجائے ترمیم کے کو یقینی ہیں اور نظام کی اور ان
پڑھیں:
بڑھتی آبادی، انتظامی ضروریات کے باعث نئے صوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں، عبدالعلیم خان
وفاقی وزیر برائے مواصلات عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ نئے صوبوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور پھیلتی ہوئی انتظامی ضروریات نئے صوبوں کے قیام کو ایک فوری قومی تقاضا بناتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے موجودہ 4 صوبوں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو 3 نئے انتظامی حصوں میں تقسیم کریں، جن کے نام شمال، مرکز، اور جنوب رکھے جائیں، جب کہ ان کی اصل صوبائی شناخت برقرار رہے۔
I firmly believe that Pakistan’s growing population and expanding administrative needs make the creation of new provinces an urgent national requirement.
It is time to reorganize our four existing provinces — Punjab, Sindh, Khyber Pakhtunkhwa, and Balochistan — into three new…
— Abdul Aleem Khan (@abdul_aleemkhan) October 31, 2025
 
 عبدالعلیم خان استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے صدر اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اتحادی ہیں، انہوں نے اپنی تجویز کو بہتر طرزِ حکمرانی کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔
 انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی انتظامی از سرِ نو تقسیم سے حکومت عوام کے زیادہ قریب آئے گی، عوامی خدمات کی فراہمی زیادہ مؤثر بنے گی، اور چیف سیکریٹریز، انسپکٹر جنرلز پولیس اور ہائی کورٹس کو اپنی حدودِ کار میں بہتر انداز میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔
 انہوں نے کہا کہ دہائیاں گزر گئیں لیکن نئے صوبوں پر بحث صرف سیاست اور نعروں تک محدود رہی، اب وقت آ گیا ہے کہ سنجیدہ اور مشاورتی عمل کے ذریعے اس تصور کو حقیقت میں بدلا جائے۔
عبدالعلیم خان نے کہا کہ نئے صوبے بنانا پاکستان کو تقسیم نہیں کرے گا بلکہ قومی یکجہتی کو مضبوط، معاشی نظم و نسق کو بہتر اور متوازن علاقائی ترقی کے ذریعے استحکام کو فروغ دے گا۔
انہوں نے زور دیا کہ آئیے ہم سب مل کر ایسے انتظامی طور پر قابلِ عمل اور عوامی مفاد پر مبنی صوبے قائم کریں، تاکہ ہر شہری کی آواز سنی جا سکے اور اس کے مسائل اس کی دہلیز پر حل ہوں۔
ایران کے سفیر سے ملاقات
 بعد ازاں، ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سے ملاقات کے دوران، وفاقی وزیرِ مواصلات عبدالعلیم خان نے پاکستان اور ایران کے درمیان اشیائے تجارت کی سرحد پار نقل و حرکت کو مزید آسان بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 10 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے، اور یقین دلایا کہ ایرانی تجارتی ٹرکوں کی سرحدی داخلی و خارجی کارروائیوں سے متعلق تمام مسائل حل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔