صدر ٹرمپ نے یوکرین کے لیے امریکی امداد روک دی
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک _ وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو دی جانے والی امداد روک دی ہے۔
امریکی حکومت کے ایک سینئر عہدے دار نےنام ظاہر کیے بغیر وائس آف امریکہ کو پیر کی شب ایک ای میل میں بتایا ہےکہ صدر ٹرمپ یوکرین کے معاملے پر واضح رائے رکھتے ہیں اور ان کی توجہ امن پر ہے۔
عہدیدار کے مطابق یوکرین کو دی جانے والی امداد روک رہے ہیں اور جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ کسی حل میں معاون ثابت ہو۔
اس سے قبل پیر کو صدر ٹرمپ نے یوکرین کے ساتھ نایاب معدنیات کے لیے معاہدے کو امریکہ کی یوکرین کے لیے حمایت جاری رکھنے کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر منگل کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں اعلان کریں گے۔
پیر کو ہی صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ نایاب معدنیات پر معاہدے کے لیے تیار ہے اور انہیں یقین ہے کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بحال کر سکتے ہیں۔
صدر زیلنسکی نے کہا تھا "یوکرین کی ناکامی صرف (روس کے صدر ولادیمیر) پوٹن کی کامیابی نہیں ہے۔ یہ یورپ کی ناکامی ہے۔ یہ امریکہ کی ناکامی ہے۔ میرے خیال سے ہم سب اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ پوٹن کو جیتنے کا موقع نہ دیا جائے۔”
گزشتہ ہفتے صدر زیلنسکی کے دورۂ واشنگٹن کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کا امکان تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس سے ہونے والی زیلنسکی کی ملاقات میں تلخی کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔
صدر ٹرمپ یوکرین میں جنگ ختم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن یوکرین کے صدر زیلنسکی نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ٹرمپ اس تنازع کو ان شرائط پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کیف کے مقابلے میں ماسکو کے زیادہ حق میں ہیں۔
صدر ٹرمپ نے پیر کو مزید واضح کیا ہے کہ اگر یوکرین اپنی بقا چاہتا ہے تو زیلنسکی کو ایک معاہدہ کرنا ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ "یہ بہت جلدی کیا جا سکتا ہے۔ اب شاید کوئی شخص معاہدہ نہیں کرنا چاہتا اور اگر کوئی شخص معاہدہ نہیں کرنا چاہتا تو میرے خیال میں وہ شخص زیادہ عرصہ نہیں رہ پائے گا۔ اُس شخص کی بات زیادہ عرصے تک نہیں سنی جائے گی۔ کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ روس معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یوکرین کے لوگ یقینی طور پر معاہدہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ تکلیف اٹھائی ہے۔”
اس سے قبل ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے زیلنسکی کے اس اندازے پر کہ یوکرین میں روس کی جنگ کا خاتمہ "ابھی بہت دور ہے۔” پر تنقید کرتے ہوئے اسے "بدترین بیان” قرار دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ "امریکہ اسے زیادہ دیر برداشت نہیں کرے گا!”
جمعے کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات میں ہونے والی تکرار کے بعد زیلنسکی نے اپنے یورپی اتحادیوں سے بھی ملاقات کی تھی۔
لندن میں ہونے والی ملاقات میں برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے امن فوجی دستوں کی پیشکش کو دہراتے ہوئے یوکرین کے لیے پانچ ہزار فضائی دفاعی میزائلز کے لیے دو ارب ڈالر کا اعلان کیا تھا۔
کیئر اسٹامر نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو برطانیہ ایک اہم کردار ادا کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ یورپ اپنے برِاعظم میں امن کی حمایت کے لیے بھاری بوجھ اٹھائے۔ لیکن اس کی کامیابی کے لیے اس کوشش کو امریکہ کی مضبوط حمایت بھی حاصل ہونی چاہیے۔
اس رپورٹ کے لیے کم لوئس نے معاونت کی ہے۔ اسٹوری میں بعض معلومات اے پی/اے ایف پی/رائٹرز سے لی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: صدر زیلنسکی زیلنسکی نے یوکرین کے رہے ہیں نے کہا کے لیے
پڑھیں:
سیلاب زدگان کی فوری امداد
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر قدرتی آفات کے سامنے کھڑی ہے۔ رات کے وقت جب خیموں میں یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ اندھیرے میں کہیں کوئی سانپ نہ آجائے، بوڑھا کسان جب یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی کو بھارتی آبی جارحیت نے لوٹ لیا، اس کے کھیتوں میں کھڑی فصل ڈوب گئی ہے، وہ جس کنارے پر بیٹھا ہے، چند انچ نیچے سیلابی پانی موجود ہے، خطرہ ہے کہ مزید سیلابی پانی آ گیا تو یہ کیمپ بھی ڈوب جائیں گے۔
روزنامہ ایکسپریس کی اس خبر پر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جس میں یہ چھپا تھا کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا ہے، جنوبی پنجاب میں ہر طرف تباہی، مزید 8 افراد ڈوب گئے، جلال پور پیر والا میں موٹروے کا حصہ بہہ گیا۔
متاثرین کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، ریلے سکھر میں داخل، مزید دیہات ڈوب گئے، ایسے میں کسان سوچ رہا ہوگا کہ میرا تو سب کچھ نقصان ہو گیا اور ایسا نقصان جسے وقتی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو میرے کئی عشرے کھا جائے گا، کیوں کہ یہ نقصان اب قلیل مدت کا نہیں رہا، یہ تو کئی سالوں کے مضر اثرات والا ہے۔
ایسے میں کسی نے اسے تسلی دی ہوگی کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں یوں کہا ہے کہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو قلیل مدتی طور پر متاثر کیا ہے۔ کسان کی پیشانی کی لکیروں پر ارتعاش پیدا ہوا۔ چہرہ فق ہونے لگا، سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہا تھا۔
اسے معلوم نہیں کہ یہ پاکستان کی معیشت کی بات ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے اس کی معیشت اجڑ گئی، کھیتوں کی لہلہاتی فصلیں زمین میں دفن ہوکر رہ گئیں، مال مویشی اس سے جدا ہو گئے، کئی عزیز و اقارب پانی کی نذر ہوگئے، ایسے میں یہ خبر بھی مزید پریشانی کا باعث تھی کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا۔ مزید 8 افراد ڈوب گئے۔
اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کا امکان ظاہرکیا ہے۔ 2010 میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے بڑی تباہی مچائی تھی، اس وقت سیلاب کا نقصان10 ارب ڈالر بتایا گیا تھا۔
ہ سیلاب اس سے کہیں زیادہ پیمانے پر ہے، بہت سے افراد کا بالکل صحیح خیال ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسا سیلاب نہیں دیکھا۔ اتنا زیادہ پانی، اتنا نقصان، اتنے سانپ، اتنی اموات، ہر طرف پانی ہی پانی، پانی کا ایک ریلا گزرتا نہیں، بھارت دوسرا ریلا چھوڑ دیتا ہے۔
15 تاریخ کو ایک اور بہت بڑا ریلا چھوڑ دیا، یہ سیلاب کوئی معمولی نقصان، وقتی نقصان، قلیل مدتی متاثر کن نہیں ہے اس نے مستقبل اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا، برآمدات کم ہوں گی اور غذائی درآمدات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
اس سیلاب نے کپاس کی فصل بالکل ہی تباہ کر کے رکھ دی ہے، ہماری مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 55 سے 60 فی صد تک بنتا ہے، اب کارخانوں کی شفٹیں کم ہوں گی، بے روزگاری بھی بڑھے گی۔
گزشتہ مالی سال 32 ارب ڈالرکی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان پھر پیچھے جا کر 25 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر پائے گا اور درآمدات 58 ارب ڈالر سے بڑھ کر 65 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہے۔
اس طرح تجارتی خسارہ بڑھ کر رہے گا۔ حکومت اسے وقتی نقصان کہتی رہے لیکن عالمی موسمیاتی تبدیلی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ اب مستقل کا معاملہ اختیار کر چکا ہے۔ پہلے سے بھی کہیں زیادہ تیاری کرنا ہوگی۔ ابھی ہم اس سیلاب کے نقصان کو برسوں تک پھیلا ہوا دیکھ رہے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی جس نے پاکستان کے پہاڑوں، گلیشیئروں، دریاؤں، کھیتوں کا مستقل رخ کر لیا ہے اور پاکستان کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کئی عشروں کے خواب ڈبو دیے ہیں۔ ہمیں سنبھلنا پڑے گا، وقتی نقصان قرار دینے کے علاوہ عملاً مستقبل کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہوگی۔ 2022 میں جن علاقوں سے سیلاب ہو کرگزرگیا تھا، وہاں کے کسان مدتوں تک اپنے کھیتوں سے پانی نکالنے کے لیے حکومتی پلان کا انتظار کرتے رہے۔ یہ سب سستی کاہلی ہماری معاشی ناتوانی، منصوبہ بندی کا فقدان اور بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔
اس مرتبہ سیلاب کے اترنے کے فوری بعد تمام زمینوں کو کاشت کے قابل بنا کر دینا، ہر صوبائی اور وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔ سڑکیں جس طرح ٹوٹ پھوٹ کر گڑھوں کی شکل اختیارکرچکی ہیں ان کی فوری تعمیر کی ضرورت ہے۔
ہماری حکومت تنقید کے جواب میں اپنی توانائی ضایع کرتی ہے حکومت چاہے صوبائی ہو یا مقامی انتظامیہ، وہ سب اپنی پھرتی، کارکردگی دکھائیں تو جواب عملی طور پر سامنے آجائے گا۔ اس وقت پوری قوم مشکل میں ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع سیلاب کی شدید لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
مخیر حضرات اب آگے بڑھیں، خاص طور پر اشرافیہ اپنی بڑی بڑی دیوہیکل گاڑیاں لے کر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گڑھوں کو عبور کرتے ہوئے خوراک، ادویات،کپڑے، جوتے، مچھردانیاں اور ضرورت کا بہت سا سامان، خاص طور پر پکا پکایا کھانا یہ سب لے کر ضرورت مندوں، بھوکوں کو لے جا کر دیں اور یہ ثواب کمانے کا نادر موقعہ ہے۔