Islam Times:
2025-04-26@03:50:48 GMT

لبنان میں سیاسی تبدیلی اور حزب اللہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

لبنان میں سیاسی تبدیلی اور حزب اللہ

اسلام ٹائمز: نئے لبنانی صدر امریکہ کیساتھ تعلقات کے حوالے سے تاکید کرتے نظر آرہے ہیں۔ انکا کہنا ہے "میں ہمیشہ پرامید ہوں اور واضح طور پر کہتا ہوں کہ امریکہ کیساتھ تعلقات ضروری ہیں۔ ہم نے ابھی تک جو مالی، تربیتی اور سازوسامان کی امداد حاصل کی، اسکا 90 فیصد صرف امریکی فوجی کمانڈ سے آیا ہے۔" تاہم رائے عامہ کو قائل کرنے کا یہ حکومتی انداز یقیناً زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ لبنانی عوام حکومت کی نااہلی اور غیر ملکی طاقتوں کیطرف سے صہیونی فوج کو لبنان کے باقی حصوں پر قبضہ ختم کرنے پر مجبور نہ کرنے کی خواہش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ لبنانی عوام اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی سازشوں کیخلاف خود میدان میں اتریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لبنان کے سرحدی و علاقائی مفادات کے بنیادی محافظ حزب اللہ کے جوان ہی ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

لبنان میں نئے صدر کے انتخاب اور نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سیاسی صورتحال بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ نئی ​​کابینہ کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ہفتوں کے دوران، غیر ملکی طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے حزب اللہ اور مزاحمت کے ہتھیاروں پر حکومتی اہلکاروں کے زبانی حملوں کی تعداد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے، جس میں سکیورٹی اور سرحدوں کے دفاع کو صرف حکومتی ذمہ داری قرار دیا جائے۔ حزب اللہ کے ہتھیاروں کو ختم کرنے اور اسلامی مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا پروپگینڈا اس وقت زوروں پر ہے۔ لبنان کے نئے صدر اور سابق فوجی کمانڈر جوزف عون نے اپنے پہلے بیرونی دورے کے موقع پر سعودی میڈیا کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ "ہمارا مقصد یہ ہے کہ سکیورٹی اور سرحدوں کے دفاع کے لئے صرف حکومت جوابدہ ہو۔ یہ حکومت کے فرائض ہیں اور کسی کو بھی سرحدوں کی حفاظت کا فرض ادا کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ملک کے دفاع کا اختیار صرف حکومت اور ملک کے دفاعی اداروں کے پاس ہونا چاہیئے۔

کہا جا رہا ہے کہ بیس سالوں میں پہلی بار لبنانی وزاراء کے بیانات سے "مزاحمت" کی اصطلاح کو ہٹا دیا گیا ہے، جو آنے والے دور میں حزب اللہ کے عسکری کردار کے بارے میں بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ نے گیند حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ ملکی سلامتی اور سرحدوں کے دفاع کے حوالے سے  لبنان کے حکومتی اہلکاروں کا نیا موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے باوجود لبنان کے پانچ اسٹریٹجک مقامات پر صیہونی فوج کا قبضہ ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کے انخلاء کا مطالبہ لبنانیوں میں ان دنوں بہت زوروں پر ہے اور ماضی میں ان علاقوں (شبا فارم، شبا کفر ہل) میں دہشت گردی کے حوالے سے عوام کی رائے انتہائی تشویشناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سیاسی رہنماؤں اور عہدیداروں سے سنجیدہ کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ان حالات میں حزب اللہ اور مزاحمت، جس نے گذشتہ برسوں میں لبنانی فوج کی ارضی سالمیت اور لبنانی شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے دفاع میں ناکامی کا بوجھ اکیلے ہی اٹھایا ہوا تھا، اب اسے غیر مسلح کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں، بعض پارلیمانی نمائندوں اور مزاحمت کے قریبی شخصیات نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر آپ حزب اللہ کی حمایت کے بغیر، لبنان کی علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے فوج کی آزادانہ صلاحیت پر اصرار کرتے ہیں"یہ گھوڑا اور یہ میدان۔" جو چاہیں انجام دیں۔ اس سلسلے میں لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی دھڑے "وفاداری" کے نمائندے حسن فضل اللہ نے "عیتا الشعب" کے شہداء کی نماز جنازہ میں کہا: "ہم فخر و عظمت کے قصبے عیط الشعب سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے لبنان کو دہشت گردوں سے بے دخل کرنے کی ذمہ داری حکومت کو سونپ دی ہے۔

ایک اور تبصرے میں، مزاحمتی پارٹی کے ایک اور نمائندے حسین الجیشی نے نقورہ قصبے میں شہداء کی تغزیتی تقریب میں اپنی تقریر میں، حزب اللہ کی کامیابی اور نقورہ کے سکیورٹی بفر زون پر غلبہ پانے کے دشمن کے منصوبے کو ناکام بنانے پر زور دیا۔ حسین الجیشی کا کہنا تھا کہ حالیہ جنگ کی ذمہ داری کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حکومت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی۔ تمام لبنانی سرزمین سے قابضین کو نکال باہر کرنا اور صہیونی دشمن نے جو تباہ کیا ہے، اسے دوبارہ تعمیر کرنا، خاص طور پر مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع دیہات اور قصبات کو محفوظ بنانا اب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی روزمرہ کی جارحیتوں اور حملوں سے سنجیدگی اور فیصلہ کن انداز میں نمٹنے اور معاہدے پر عمل درآمد کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے اور ان حملوں کو روکنے کے لیے حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

ترقی اور آزادی کے بلاک کے نمائندے علی خریس نے بھی ایسا ہی بیان دیا اور کہا ہے کہ "آج ہمارے پاس جمہوریہ کا نیا صدر اور ایک نئی حکومت ہے اور یہ لبنانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ قابض کو ہماری تمام زمینوں اور علاقوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کرے اور دشمن نے جو تباہ کیا ہے، اسے دوبارہ تعمیر کرے۔ ان بیانات کے ساتھ حزب اللہ نے مزاحمتی ہتھیاروں کے خلاف حکومتی اہلکاروں کے جارحانہ مؤقف کے جواب میں مؤثر طریقے سے گیند کو حکومت کے کورٹ میں پھینک دیا ہے اور اب حکومتی اہلکاروں کو جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کرنے اور صیہونی حکومت کو مقبوضہ علاقوں سے نکالنے میں ناکامی پر رائے عامہ کو جواب دینا ہوگا۔

 اس اقدام سے حزب اللہ نے نہ صرف لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والے غیر ملکی عناصر کو بے نقاب کیا بلکہ مزاحمت کے خلاف سازشوں کو بھی طشت ازبام کردیا ہے۔ حزب اللہ نے اسی تناظر میں لبنانی فوج کو مضبوط بنانے اور جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد کرنے اور صہیونی فوج کو مقبوضہ علاقوں سے نکالنے کی ذمہ داری حکومتی افواج پر ڈال دی ہے۔ حزب اللہ کی اس سیاسی چال نے ملکی اور غیر ملکی سازشیوں کے لیے ایک چیلنجنگ صورت حال پیدا کر دی ہے، کیونکہ عوامی بیداری کے دباؤ میں لبنانی حکومت کے حکام پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ مغرب، امریکہ کی قیادت میں، لبنان میں صیہونی حکومت کے ناجائز مفادات کے خلاف کبھی بھی کارروائی نہیں کرے گا۔ حال ہی میں لبنان کا دورہ کرنے والے امریکی حکام نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ لبنان پر اسرائیل کو ترجیح دیتے ہیں۔

دوسری جانب جنگ بندی معاہدے کے بعد بھی لبنانی فوج پر اسرائیلی حملے بند نہیں ہوئے اور ان حملوں میں لبنانی فوج کی ہلاکتیں تقریباً ہر روز بڑھ رہی ہیں۔ امریکیوں نے جنگ بندی کی اس صریح خلاف ورزی کے باوجود زبانی بیان تک نہیں دیا۔ دوسری طرف لبنانی حکومت کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ اس معاملے کو غیر اہم قرار دے۔ وہ ذمہ داری سے بچنے کے لیے رائے عامہ کے سامنے غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ مثال کے طور پر، شرق الاوسط کے ساتھ ایک انٹرویو میں لبنانی صدر جوزف عون نے صہیونی فوج کے قبضے میں موجود پانچ علاقوں کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم فرانسیسی اور امریکیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، تاکہ وہ اسرائیلیوں پر دباؤ ڈالیں کہ لبنان کے پانچ علاقوں سے دستبردار ہو جائیں، کیونکہ ان کی کوئی فوجی اہمیت نہیں ہے۔"

پڑوسیوں پر صیہونی حکومت کی فوجی برتری کو برقرار رکھنے اور لبنانی فوج کو صیہونی حکومت کے حملوں کے خلاف مزاحمتی ہتھیاروں سے لیس نہ کرنے کی امریکی حکومت کی بنیادی حکمت عملی سے آگاہ ہونے کے باوجود نئے لبنانی صدر امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تاکید کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے "میں ہمیشہ پرامید ہوں اور واضح طور پر کہتا ہوں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ضروری ہیں۔ ہم نے ابھی تک جو مالی، تربیتی اور سازوسامان کی امداد حاصل کی، اس کا 90 فیصد صرف امریکی فوجی کمانڈ سے آیا ہے۔" تاہم رائے عامہ کو قائل کرنے کا یہ حکومتی انداز یقیناً زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ لبنانی عوام حکومت کی نااہلی اور غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے صہیونی فوج کو لبنان کے باقی حصوں پر قبضہ ختم کرنے پر مجبور نہ کرنے کی خواہش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ لبنانی عوام اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی سازشوں کے خلاف خود میدان میں اتریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لبنان کے سرحدی و علاقائی مفادات کے بنیادی محافظ حزب اللہ کے جوان ہی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حکومتی اہلکاروں صیہونی حکومت لبنانی عوام ساتھ تعلقات کے حوالے سے حزب اللہ کے حزب اللہ نے کی ذمہ داری لبنانی فوج علاقوں سے کہا ہے کہ حکومت کے غیر ملکی لبنان کے حکومت کی کے خلاف کے ساتھ کے دفاع کرنے کی کو غیر فوج کو کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند

سید سعادت اللہ حسینی نے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانیوں سے گریز کریں جو مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے ہولناک دہشتگرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس حملے میں 26 بے گناہ افراد بشمول غیر ملکی سیاح جاں بحق ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے اس المناک واقعہ پر اپنے گہرے رنج و غم اور غصے کا اظہار کیا اور فوری انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے بدترین دہشت گرد حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ اس حملے میں بے گناہ جانوں کا جانا، جن میں غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں، انتہائی افسوسناک ہے، ہماری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اس طرح کے وحشیانہ فعل کی کوئی بھی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکمل طور پر غیر انسانی حملہ ہے، اس کی واضح الفاظ میں غیر مشروط مذمت ہونی چاہیئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس حملے کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سخت ترین سزا دی جائے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے زور دے کر کہا کہ کوئی بھی مقصد، سیاسی ہو، نظریاتی یا کوئی اور ہو، اس طرح کی درندگی کا جواز قطعی نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر انسانی عمل ہے، جو ہر اخلاقی اور انسانی ضابطے کی سخت خلاف ورزی ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے ریاستی اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے فوری، فیصلہ کن اور شفاف اقدامات کرے اور کشمیر میں سکیورٹی کے انتظامات کو مؤثر بنائے اور کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرے۔ انہوں نے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانیوں سے گریز کریں، جو مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں یا بے گناہ گروہوں کو نشانہ بنا سکتے ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • ایک ہی خاندان کے 3 بچے ڈوب کر جاں بحق
  • ہم اپنے ہتھیار نہیں پھینکیں گے، لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر
  • دریائے راوی میں ایک ہی خاندان کے 3 بچے ڈوب کر جاں بحق
  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • غاصب صیہونی رژیم مسجد اقصی پر غاصبانہ قبضہ جمانا چاہتی ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • پاکستان دنیا کا 5 واں سب سے زیادہ آب و ہوا کا شکار ملک قرار
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند