حکومت اسرائیلی جارحیت پر کیوں خاموش ہے؟، حزب الله
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اپنے ایک جاری بیان میں حسن عز الدین کا کہنا تھا کہ صیہونی جارحیت کے خلاف حکومت کی کوتاہی یا سستی کے باعث عوام کو خود قابضین کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے پارلیمانی دھڑے "الوفاء للمقاومۃ" سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی "حسن عز الدین" نے کہا کہ دشمن آج بھی اپنی جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ دشمن نے جنوبی لبنان میں ایک نجی گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں سوار حزب الله کے رکن "خضر ھاشم" شہید ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی مانیٹرنگ کمیٹی اور لبنانی حکومت کی توجہ دلاتے ہیں کہ وہ ہماری قومی خودمختاری کی خلاف ورزی کو رکوائیں۔ انہوں نے اس صیہونی جارحیت پر لبنانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس ضمن میں حسن عز الدین نے کہا کہ ہماری حکومت کب تک اس قتل و غارت گری پر اپنی آنکھیں بند رکھے گی۔
حکومت ان مذموم افعال کے خلاف اقدامات یا کوئی موقف کیوں نہیں اپناتی؟۔ حالانکہ وہ اپنے شہریوں اور ملت کے دفاع کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان جرائم کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہئے تا کہ قابض اسرائیل کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کریں۔ اس مسئلے میں حکومت کی کوتاہی یا سستی کے باعث عوام کو خود قابضین کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے کچھ ہی دیر قبل جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لبنان میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ جنوبی لبنان کے ضلع صور کے علاقے "رشکنانیه" میں پیش آیا۔ اس حملے میں کم از کم 1 شخص شہید ہو گیا۔ یہ حملہ لبنانی بارڈر سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے گاوں میں پیش آیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔
اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔
اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔
اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔
نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔