آئی ایم ایف سے مذاکرات کی شروعات اچھے انداز میں ہوئی، وزیرخزانہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کی شروعات اچھے انداز میں ہوئی ہے، ہم اچھے نتیجے کیلیے پرامید ہے، عدالتوں میں پھنسے ہوئے اربوں روپے کے ٹیکسز کی ریکوری کی صورت میں رواں مالی سال کے دوران ٹیکس خسارہ ایک ہزار ارب روپے سے کم رہے گا۔
حکومت عدالتوں میں پھنسے ہوئے اربوں روپوں کے ٹیکس کی ریکوری کو یقینی بنانے کیلیے متعدد اقدامات کرے گی۔
منگل کے روز آئی ایم ایف سے مذاکرات کے رسمی آغاز کے بعد ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جاری بات چیت کے دوران اگلے بجٹ پر بھی بات کی جائے گی، تاکہ کچھ شعبوں میں ریلیف دینے کو ممکن بنایا جاسکے۔
انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے پیر کو کراچی میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور پاکستان بزنس کونسل سے بھی نتیجہ خیز میٹنگز کی ہیں، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ فروری تک ٹیکس خسارہ 450 ارب روپے رہا ہے، تاہم جون تک اس خسارے میں مزید اضافہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔
تاہم پالیسی اقدامات پر ناقص عملدرآمد کی وجہ سے مزید 540 ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے، کیوں کہ حکومت تاجروں اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی مضبوط لابی کو کچلنے میں ناکام رہی ہے، اس طرح کم معاشی گروتھ، تاجروں اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکسز کے عدم نفاذ، اور زیادہ تخمینوں کی وجہ سے مجموعی طور پر 990 ارب روپے کا شارٹ فال ہوسکتا ہے۔
تاہم آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ اس شارٹ فال کو عدالتوں میں مقدمات کی صورت میں پھنسے ہوئے ٹیکسز کی ریکوری کو ممکن بنا کر کم کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے بھی ملاقات کی ہے، جس میں حکام نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ عدالتوں میں 4 ہزار ارب روپے کے ٹیکس معاملات پھسنے ہوئے ہیں، جن میں سے 300 ارب روپے ملنے کی امید ہے، جبکہ مزید 100 ارب روپے سگریٹ اور مشروبات پر ٹیکس کم کرکے حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ ا ئی ایم ایف عدالتوں میں ارب روپے ہے کہ ا
پڑھیں:
ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک
صحیفہ جبار خٹک نے کہا ہے کہ ریٹنگز کی خاطر ڈرامے جبر اور ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں دکھا رہے ہیں۔حال ہی میں انسٹاگرام پر صحیفہ جبار نے ایک اسٹوری شیئر کی، جس میں انہوں نے پاکستانی ڈراموں میں خواتین کی غیر حقیقی نمائندگی اور جبر و ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں پیش کیے جانے پر شدید تنقید کی ہے۔صحیفہ جبار نے لکھا کہ کیا واقعی پاکستانی گھروں میں خواتین روزانہ ساڑھیاں پہنتی ہیں؟ کیا وہ ہر روز اتنا میک اپ کرتی ہیں؟ ہمارے ڈراموں میں یہ سب دکھانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کا تعلق نچلے یا متوسط طبقے سے ہے، جہاں روزمرہ زندگی میں مہنگے کپڑے پہننا عام بات نہیں ہے۔اداکارہ نے مزید کہا کہ ہمارے ڈراموں میں غلط طرزِ زندگی دکھایا جا رہا ہے اور ایسا پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہر عورت اسی انداز میں زندگی گزارتی ہو۔اداکارہ نے ڈراما سیریلز کے بار بار دہرائے جانے والے مواد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جیسے کہ ساس بہو کی لڑائیاں، مظلوم عورت کا عزت بچانے کی جدوجہد اور ظلم کو رومانی انداز میں دکھانا۔انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ ڈراموں کی کہانیاں ایک جیسی کیوں ہو گئی ہیں؟ ہر کہانی میں ایک ہی بات کیوں ہوتی ہے؟ ہر لڑکی اپنی عزت کی وضاحت کیوں دیتی ہے؟ ہر ساس اپنی بہو پر ظلم کیوں کرتی ہے؟ ہر رشتہ زبردستی اور جبر پر کیوں مبنی دکھایا جا رہا ہے؟اداکارہ کے مطابق جبری شادی، ناپسندیدہ تعلق اور شوہر کا بیوی پر ظلم، یہ سب کچھ کئی ڈراموں میں اس طرح دکھایا جا رہا ہے جیسے یہ محبت کا حصہ ہو یا جیسے یہ سب عام اور قابلِ قبول بات ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب آخر کیوں ہو رہا ہے؟ صرف ریٹنگز کے لیے؟ یا ہم واقعی اپنے معاشرے کو مزید خراب کر رہے ہیں؟