صدر ٹرمپ کا امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے پہلا خطاب
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 مارچ 2025ء) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ از بیک" یعنی امریکہ واپس آگیا ہے۔
ٹرمپ جب خطاب کے لیے پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے 43 دنوں میں اتنی کامیابی حاصل کی ہے جو کئی حکومتوں نے چار یا آٹھ سال میں حاصل نہیں کی۔
امریکہ: یوکرین کے لیے فوجی امداد روکنے کا حکم جاری
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں متعدد ملکی اور غیر ملکی امور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
کانگریس سے خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلا کا ذکر کرتے ہوئے اسے امریکی تاریخ کا "سب سے شرمناک لمحہ" قرار دیا۔
(جاری ہے)
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس انخلا کے موقع پر دھماکے میں مرنے والے امریکی فوجیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا،"ساڑھے تین سال قبل افغانستان میں آئی ایس ایس (داعش) کے دہشت گردوں نے 13 امریکی فوجیوں اور دیگر کو قتل کر دیا تھا۔"
ٹرمپ کے دور میں امریکہ سے تعلقات مزید گہرے ہوں گے، پاکستان
انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا، "مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے اس ظلم کے ذمہ دار ٹاپ دہشت گرد کو پکڑ لیا ہے اور وہ اس وقت امریکہ لایا جا رہا ہے تاکہ امریکی انصاف کی تیز دھار تلوار کا سامنا کر سکے۔
انہوں نے اس موقع پر پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا، "میں اس حیوان کو حراست میں لینے میں مدد کرنے پر پاکستانی حکومت کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔"
ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا،"یہ ان 13 خاندانوں کے لیے بہت بڑا دن تھا۔۔۔ افغانستان میں اس اندوہ ناک دن میں 42 لوگ بری طرح زخمی بھی ہوئے تھے۔"
تاہم امریکی صدر نے حراست میں لیے جانے والے شخص یا پاکستان کے حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے آیا ہے۔
ٹرمپ کی جیت افغانستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی اٹارنی جنرل پیم بونڈی نے کہا ہے کہ اس شخص کو، جس کی شناخت انہوں نے واضح نہیں کی، امریکی محکمہ انصاف، ایف بی آئی اور سی آئی اے کے ذریعے امریکی حراست میں لیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ کے حوالے کیے جانے والے شخص کا نام ’محمد شریف اللہ ہے‘ جو مبینہ طور پر بم دھماکے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ "یوکرین میں وحشیانہ تنازعہ کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ امریکہ نے یوکرین کو سینکڑوں ارب ڈالر کی فوجی امداد بھیجی ہے۔ انہوں نے ڈیموکریٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، "کیا آپ اسے مزید پانچ سال تک جاری رکھنا چاہتے ہیں؟"
ٹرمپ نے دعویٰ کیا، "یورپ نے افسوس کی بات ہے کہ یوکرین کے دفاع پر جتنا پیسہ خرچ کیا ہے اس سے زیادہ رقم روسی تیل اور گیس خریدنے میں خرچ کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ کییف ایک "پائیدار امن" کے قیام کے لیے "مذاکرات کی میز پر آنے" کے لیے تیار ہے۔ 'ابراہم معاہدے' پر زور
ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران ابراہم معاہدے پر دستخط کرنے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے، اسے " کئی نسلوں میں سب سے اہم امن معاہدوں میں سے ایک" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں "زیادہ پرامن اور خوشحال مستقبل" کے قیام کے لیے "اس بنیاد کو استوار" کرے گی۔
ٹرمپ نے بظاہر غزہ کے تنازع اور دیگر تنازعات کے حوالے سے کہا کہ "مشرق وسطیٰ میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔" گرین لینڈ، پانامہ کینال کے حصول کے منصوبے کا اعادہ
ٹرمپ نے ایک بار پھر پاناما کینال کو دوبارہ حاصل کرنے کا عہد کرتے ہوئے کہا، "ہم نے اسے چین کو نہیں دیا، ہم نے اسے پاناما کو دیا اور ہم اسے واپس لے رہے ہیں۔
"انہوں نے کہا کہ ہمیں قومی سلامتی اور حتیٰ کہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے گرین لینڈ کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا،"اور مجھے لگتا ہے کہ ہم اسے حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ ایک یا دوسرا راستہ اپنا کر ہم اسے حاصل کرنے جا رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ وہ گرین لینڈ کے عوام کے اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں۔ گولڈ کارڈ منصوبہ
صدر ٹرمپ نے گولڈ کارڈ منصوبے کا ذکر کیا اور کہا کہ گرین کارڈ کے مقابلے میں گولڈ کارڈ زیادہ بہتر ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ دنیا بھر سے ایسے کامیاب افراد کو امریکہ آنے کی اجازت دیں گے جو امریکہ میں روزگار کے مواقع پیدا کریں گے اور 50 لاکھ ڈالر کے کارڈ کے عوض ایسے افراد کے لیے امریکی شہریت کی راہ ہموار ہو گی۔
امریکی صدر نے 26 فروری کو گولڈ کارڈ متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے "وفاقی بجٹ میں توازن پیدا کرنے" میں مدد ملے گی۔ سابق صدر بائیڈن پر تنقید
ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن کی اقتصادی اور توانائی کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا "جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں سابقہ انتظامیہ سے معاشی تباہی اور مہنگائی کا ڈراؤنا خواب وراثت میں ملا ہے۔
"انہوں نے دعویٰ کیا، "بطور صدر میں اس نقصان کو دور کرنے اور امریکہ کو دوبارہ قابل برداشت بنانے کے لیے ہر روز لڑ رہا ہوں۔"
ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے امریکہ میں "امن و امان" بحال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے شہروں اور قصبوں میں امن و امان کو واپس لانا چاہیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نظام انصاف کو "الٹا کر دیا گیا ہے۔"
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی).
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کرتے ہوئے کہا نے کہا کہ ان گولڈ کارڈ رہے ہیں کا ذکر کے لیے
پڑھیں:
امریکی کانگریس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی حکام پر پابندیوں کا بل
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )امریکی کانگریس میں اکثریتی جماعت ریپبلکن کے قانون سازوں کی جانب سے ڈیموکریٹ اراکین کی مددسے پاکستان فریڈم اینڈ اکاﺅنٹیبلٹی ایکٹ (H.R. 5271) متعارف کرا دیا گیاہے جس کا مقصد ان پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوریت کو کمزور کرنے والے اقدامات کے ذمہ دار ہیں.(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق یہ بل ہاﺅ س سب کمیٹی برائے جنوبی اور وسطی ایشیا کے چیئرمین اور مشی گن سے ریپبلکن پارٹی کے رکن بل ہوی زینگا اور کیلیفورنیا سے ڈیموکریٹ رہنما سڈنی کاملاگر ڈو نے مشترکہ طور پر پیش کیا دیگر معاون اراکین میں ریپبلکن جان مولینار، ڈیموکریٹ جولی جانسن اور ریپبلکن جیفرسن شریو شامل ہیں شریک اسپانسرز میں ریپبلکن رِچ میکورمک، ریپبلکن جیک برگمین، ڈیموکریٹ واکین کاسترو اور ریپبلکن مائیک لاولر شامل ہیں. یہ بل امریکی صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ گلوبل میگنیٹسکی ہیومن رائٹس اکاﺅنٹیبلٹی ایکٹ کے تحت پابندیاں عائد کریں یہ قانون واشنگٹن کو ایسے افراد کو نشانہ بنانے کا حق دیتا ہے جو سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا بدعنوانی کے مرتکب ہوں اس صورت میں یہ پاکستان کی حکومت، فوج یا سیکیورٹی فورسز کے موجودہ یا سابقہ اعلی حکام پر لاگو ہوگا. قانون سازی میں امریکا کی جانب سے پاکستان میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کے لیے حمایت کو دوبارہ اجاگر کیا گیا اور جمہوری اداروں اور انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے یہ بل ہاﺅس ریزولوشن 901 (H.Res. 901) پر مبنی ہے جو جون 2024 میں بھاری 2 جماعتی حمایت کے ساتھ منظور کیا گیا تھا اس قرارداد میں پاکستان میں جمہوریت کے لیے بھرپور حمایت کا اظہار کیا گیا تھا آزاد اور منصفانہ انتخابات کے تحفظ پر زور دیا گیا تھا اور امریکی انتظامیہ پر زور دیا گیا تھا کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لئے رابطہ رکھے. نئے قانون پر بات کرتے ہوئے کانگریس مین ہوی زینگا نے کہا کہ امریکا ایسی صورت حال میں خاموش تماشائی نہیں بنے گا کہ جب وہ افراد جو پاکستان کی حکومت، فوج یا سیکیورٹی فورسز میں خدمات انجام دے رہے ہیں یا دے چکے ہیں، کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کریں یا انہیں نظرانداز کریں رپورٹ کے مطابق پاکستان فریڈم اینڈ اکانٹیبلٹی ایکٹ ایک دو جماعتی اقدام ہے، جس کا مقصد پاکستان کے عوام کا تحفظ کرنا ہے، برے عناصر کو جوابدہ بنانا ہے اور یہ یقینی بنانا ہے کہ نہ تو جمہوری عمل اور نہ ہی آزادی اظہار کو دبایا جائے. رکن کانگریس کاملاگر ڈو نے زور دیا کہ جمہوریت کا فروغ اور انسانی حقوق کا تحفظ امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول ہیں اور انہیں پاکستان سے متعلق حکومتی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل رہنی چاہیے، ایسے وقت میں جب جمہوری اقدار کمزور ہو رہی ہیں اور دنیا عدم استحکام کا شکار ہے، امریکا کو ان اقدار کا دفاع گھر اور باہر دونوں جگہ کرنا ہوگا اور ان لوگوں کو جوابدہ بنانا ہوگا جو انہیں نقصان پہنچاتے ہیں. ٹیکساس سے ڈیموکریٹ رہنما جولی جانسن نے کہا کہ جب ہم ان حکام کو جوابدہ ٹھہراتے ہیں جو آزاد اور منصفانہ انتخابات کو کمزور کرتے ہیں یا سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں تو ہم ایک مضبوط پیغام دیتے ہیں جو لوگ جمہوریت پر حملہ کریں گے انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے اور وہ عالمی سطح پر محفوظ پناہ گاہ نہیں پا سکیں گے . پاکستانی نژاد امریکی ایڈووکیسی گروپس نے فریڈم اینڈ اکانٹیبلٹی بل اور H.Res. 901 کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے پاکستانی امریکن پبلک افیئرز کمیٹی کے سابق صدر اسد ملک نے کہا کہ یہ قانون پاکستان کے عوام کو بااختیار بناتا ہے اور یقینی بناتا ہے کہ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوریت کو پامال کرنے والے جوابدہ ہوں اور ان پر مناسب نتائج لاگو ہوں. فرسٹ پاکستان گلوبل کے ڈاکٹر ملک عثمان نے کہا کہ یہ پاکستانی ڈائسپورا کی کانگریس میں مسلسل وکالت اور کمیونٹیز میں گراس روٹس مہم کا ثبوت ہے، یہ تاریخی بل 25 کروڑ پاکستانی عوام کے ساتھ جمہوریت، انسانی حقوق اور تمام سیاسی قیدیوں، بشمول عمران خان کی رہائی کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے اور حقیقی آزادی کی طرف ایک بڑا قدم ہے. بل مزید جائزے کے لئے ہاﺅس کی خارجہ امور اور عدلیہ کمیٹیوں کو بھیج دیا گیا ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ دو جماعتی حمایت اور H.Res. 901 کے ساتھ اس کی ہم آہنگی سے اس کے کانگریس میں آگے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں اسد ملک نے کہا کہ یہ صرف ایک بل نہیں ہے یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ امریکی کانگریس سن رہی ہے اور پاکستانی امریکن اس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک پاکستان میں عمران خان اور تمام سیاسی قیدی آزاد، جمہوریت اور انسانی حقوق بحال نہیں ہو جاتے اکاﺅنٹیبلٹی بل کے ذریعے امریکا ایک بار پھر پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کےلئے اپنی طویل مدتی حمایت کا اعادہ کرتا ہے اور ان افراد کو جوابدہ بناتا ہے جو ان اقدار کو خطرے میں ڈالتے ہیں.