پیکا ترمیمی ایکٹ، حکومتی جواب نہ آنے پر ہائیکورٹ کا اظہار برہمی
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
پنجاب حکومت اور پی ٹی اے کا جواب نہ آنے پر جسٹس فاروق حیدر نے واضح کیا کہ اگر آئندہ سماعت پر فریقین کی جانب سے جواب نہ آیا تو قانون اپنا راستہ لے گا۔ بعدازاں عدالت نے پی ٹی اے اور حکومت پنجاب سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 13 مارچ تک ملتوی کر دی۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کیخلاف درخواستوں پر پنجاب حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ لاہور ہائیکورٹ میں پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ جسٹس فاروق حیدر نے صحافی تنظیم سمیت دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں پر سماعت کی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت میں جواب جمع کروا دیا گیا تاہم حکومت پنجاب اور پی ٹی اے کی جانب سے جواب جمع نہ کروانے پر عدالت نے اظہارِ برہمی کیا۔ پی ٹی اے کے وکیل نے استدعا کی کہ ہمیں جواب جمع کروانے کیلئے مزید مہلت دی جائے، جس پر جسٹس فاروق حیدر نے واضح کیا کہ اگر آئندہ سماعت پر فریقین کی جانب سے جواب نہ آیا تو قانون اپنا راستہ لے گا۔
بعدازاں عدالت نے پی ٹی اے اور حکومت پنجاب سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 13 مارچ تک ملتوی کر دی۔ یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے فیک انفارمیشن پر 3 برس قید، جرمانے کی سزا ہوگی، ماضی میں پیکا ایکٹ کو ایک خاموش ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، جبکہ پیکا ترمیمی ایکٹ میں نئی سزاؤں کے اضافے سے تھوڑی سی آزادی بھی ختم ہو جائے گی۔ درخواستگزاروں کا مزید کہنا تھا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ بل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر پیش کیا گیا، جس کے باعث اس کی شفافیت مشکوک ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کی متنازعہ شقوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پیکا ترمیمی ایکٹ کی جانب سے پی ٹی اے کہ پیکا جواب نہ سے جواب
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود کو جج کے اختیارات سے روک دیا گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی ورک سے روک دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے میاں داؤد کی درخواست پر سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔
تحریری حکم نامے کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کسی بھی کیس کی سماعت نہیں کر سکیں گے۔
عدالت نے اس معاملے میں مزید معاونت کے لیے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف کو عدالتی معاون مقرر کیا ہے، جب کہ اٹارنی جنرل کو بھی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر رائے دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی انتظامیہ نے نیا ڈیوٹی روسٹر جاری کر دیا ہے۔ 17 سے 19 ستمبر تک جاری ہونے والے اس روسٹر میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کا نام شامل نہیں ہے، جس کے تحت انہیں سنگل بینچ اور ڈویژن بینچ دونوں میں کیسز کی سماعت سے روک دیا گیا ہے۔
یہ اقدام اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، جو اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ریفرنس کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔