معاشی مسائل، مہنگائی اور اشیا کی بلند قیمتوں کا حل
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
تعارف۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، معیشتی عدم استحکام، اور عام آدمی کی قوتِ خرید میں کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ان مسائل کی بنیادی وجہ درمیان کے غیر ضروری مڈل مین (واسطہ کار) ہیں، جو پیداوار سے صارف تک رسد میں رکاوٹیں ڈال کر قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھاتے ہیں۔
اس کا بہترین حل ایک ایسا سپلائی چین سسٹم (رسدی نظام) متعارف کروانا ہے جس میں کسان، ماہی گیر، اور دیگر چھوٹے پروڈیوسرز اپنی مصنوعات براہِ راست صارفین یا ریٹیلرز (خوردہ فروشوں)کو فروخت کریں، بغیر کسی مڈل مین کے۔ اس ماڈل سے قیمتیں کم ہوں گی، معیشت مستحکم ہوگی، اور عام آدمی کو بنیادی اشیا مناسب نرخوں پر میسر آئیں گی۔
حکومت کے لیے تجویز کردہ اقدامات۔-1 براہِ راست پروڈیوسر سے فروخت کا ماڈل متعارف کروایا جائے۔
کسانوں، ماہی گیروں، اور دیگر چھوٹے پروڈیوسرز کو اجازت دی جائے کہ وہ براہِ راست ریٹیلرز یا صارفین کو فروخت کریں۔ حکومت ایسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور کوآپریٹو گروپس تشکیل دے، جہاں پروڈیوسر اور خریدار براہ راست لین دین کر سکیں۔
-2 موثر رسدی نظام کی تشکیل:حکومت کو چاہیے کہ پروڈیوسر کی زیرِ ملکیت تقسیم کاری کے نیٹ ورکس اور مشترکہ ٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کرے تاکہ پروڈیوسرز اپنی اشیا خود مارکیٹ تک پہنچا سکیں۔کولڈ اسٹوریج اور ڈی سینٹرلائزڈ ویئر ہائوسز میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ قابلِ خرابی اشیا تازہ اور کم قیمت پر صارفین تک پہنچ سکیں۔
-3 شفافیت اور کارکردگی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال:* حکومتی سرپرستی میں ڈیجیٹل مارکیٹ پلیس اور موبائل ایپلی کیشنز بنائی جائیں، جہاں پروڈیوسر اور خریدار بغیر کسی واسطہ کار کے براہ راست لین دین کر سکیں۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے مصنوعات کی قیمتوں، معیار اور سپلائی چین کو شفاف بنایا جائے۔
-4 حکومتی پالیسی اور ریگولیشن کی مدد: ایسے قوانین بنائے جائیں جو غیر ضروری مڈل مین کو محدود کریں اور قیمتوں میں بلاجواز اضافے کو روکا جا سکے۔براہِ راست تجارت کے ماڈلز کو اپنانے والے کاروباروں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی فراہم کی جائے۔کسانوں اور پروڈیوسرز کے لیے مارکیٹ تک آسان رسائی کے لیے بیوروکریسی کے مسائل کو کم کیا جائے۔
-5 چھوٹے پروڈیوسرز اور کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی: حکومت چھوٹے کاروباری افراد اور کسانوں کے لیے تربیتی پروگرام شروع کرے، تاکہ وہ براہِ راست مارکیٹ میں تجارت کے طریقے سیکھ سکیں۔پروڈیوسر کوآپریٹوز قائم کیے جائیں، جہاں چھوٹے پروڈیوسرز مل کر زیادہ موثر طریقے سے مارکیٹ میں داخل ہو سکیں۔
متوقع فوائد کم قیمتیں:درمیانی واسطہ کار ختم ہونے سے مصنوعی مہنگائی کم ہوگی اور عام آدمی کو اشیا ء مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں گی۔
مہنگائی پر قابو:جب مارکیٹ میں سپلائی چین مستحکم ہوگی اور اشیا براہِ راست خریداروں تک پہنچیں گی، تو قیمتوں میں غیر ضروری اتار چڑھائو ختم ہوگا۔
پروڈیوسرز کو زیادہ منافع:کسانوں اور دیگر پروڈیوسرز کو براہِ راست منافع ملے گا اور وہ مڈل مین کے استحصال سے بچ سکیں گے۔
معاشی استحکام:جب قیمتیں مستحکم ہوں گی، تو معاشی بے یقینی کم ہوگی، جس سے سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
روزگار اور معیشت کی ترقی:نئے لاجسٹکس نیٹ ورکس، ڈیجیٹل ٹریڈ پلیٹ فارمز، اور پروڈیوسر کوآپریٹوز کے ذریعے بے شمار نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی، جو ملکی معیشت کو مزید ترقی دیں گی۔نتیجہ یہ ماڈل پہلے ہی دنیا کے کئی ممالک میں کامیابی سے نافذ کیا جا چکا ہے، اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ براہِ راست تجارت کا نظام مہنگائی پر قابو پانے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان کو بھی اس سمت میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے، کاروبار کو فروغ دیا جا سکے، اور ایک مستحکم اور پائیدار معیشت تشکیل دی جاسکے۔ ہم حکومتِ پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس تجویز کو سنجیدگی سے زیرِ غور لائے اور عملی اقدامات کرے تاکہ ملک میں معاشی استحکام اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہو سکے۔یہ محض ایک تجویز نہیں، بلکہ ایک پائیدار حل ہے، جو پاکستان کی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کم ہوگی مڈل مین کے لیے ہوں گی
پڑھیں:
قومی اقتصادی سروے پر تاجروں کا ردعمل سامنے آگیا
اسلام آباد: فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)عاطف اکرام شیخ نے زراعت کے شعبے میں ترقی ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رواں مالی سال میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ بڑے پیمانے پر کمی تشویش ناک ہے۔
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے قومی اقتصادی سروے رپورٹ 25-2024 پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ ایک سال میں معاشی محاذ پر بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاشی کامیابیوں کے اقتصادی سروے میں اس طرح سے عکاسی نہیں ہے، پاکستان نے اچھی معاشی ریکوری کی ہے، حکومت کو اس ریکوری کو استحکام کی جانب لے جانے کی ضرورت ہے۔
عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ معاشی بہتری کا سفر جاری رکھنے کے لیےپالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے، رواں سال پہلی بار معیشت کا حجم 400 ارب ڈالر سے زائد رہا جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کامیابیوں کے علاوہ معیشت کے بہت سارے شعبوں پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، رواں مالی سال میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں بڑی کمی تشویش ناک ہے۔
صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ ملکی زرعی شعبے کی کارکردگی مایوس کن ہے، زرعی شعبے کی نمو 0.56 فیصد رہی، زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس کی گروتھ میں اضافہ ناگزیر ہے۔