داعش کمانڈر کو پاکستانی اداروں نے اسپیشل آپریشن کے دوران گرفتار کیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
کابل ایئرپورٹ پر حملے کے دوران 13 امریکی فوجی مارنے میں ملوث داعش کمانڈر محمد شریف اللہ عرف جعفر کو پاکستانی اداروں نے اسپیشل آپریشن کے دوران حراست میں لیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل ایئرپورٹ پر حملے میں ملوث دہشت گرد کی گرفتاری پر پاکستان سے اظہار تشکر کیا ہے۔
پاکستان نے امریکی انٹیلی جنس لیڈ کے بعد افغانستان کے شہری اور سینئر داعش کمانڈر محمد شریف اللہ کو پاک افغان بارڈر ایریا سےگرفتار کیا تھا۔ داعش کمانڈر محمد شریف اللہ 2021ء میں کابل ایئرپورٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔
صدر ٹرمپ نے امریکی انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر حملے کو امریکی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ قرار دیا۔ کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے داعش کمانڈر کی گرفتاری کا اعلان کیا اورحکومت پاکستان سے انسداد دہشت گردی میں کلیدی کردار پر اظہار تشکر کیا۔
کابل ایئرپورٹ پر حملے کے دوران 13 امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ داعش کمانڈر محمد شریف اللہ عرف جعفر کو پاکستانی اداروں نے اسپیشل آپریشن کے دوران حراست میں لیا۔26 اگست 2021ء کے حملے کے باعث داعش کمانڈر محمد شریف اللہ امریکی انٹیلیجنس کا ہائی ویلیو ٹارگٹ تھا۔
کمانڈر شریف اللہ کی گرفتاری پاکستان اور ٹرمپ انتظامیہ کے انٹیلیجنس اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کا مظہر ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: داعش کمانڈر محمد شریف اللہ کابل ایئرپورٹ پر حملے کے دوران
پڑھیں:
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی بے جا مداخلت اور مذہبی خودمختاری پر حملے تیز ہو چکے ہیں۔
بھارت میں سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ’خالصتانی‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے، جبکہ 1984 کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کے بجائے بی جے پی کی حکومت قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کےلیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ رپورٹ میں سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر موجود ہے، جبکہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں دو سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے میں دانستہ طور پر کمل ناتھ کے کردار کو نظرانداز کیا گیا، جو انصاف کے نظام پر بڑا سوال ہے۔ وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔
صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ اور پولیس ریکارڈز میں شواہد کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظرانداز کرنا مودی کی قیادت اور جانبدار عدالتی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
بی جے پی حکومت سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر ’خالصتانی‘ کہہ کر گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرتی ہے، جبکہ گردوارہ بورڈز کی تشکیل نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک یہ اقدامات منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی، اور 1984 کی سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔