کراچی کے علاقے ڈیفنس میں چینی شہریوں کو کرائے پر گھر دینا مکان مالک کو مہنگا پڑگیا، اور سندھ ہائیکورٹ نے اس کیس میں ایس ایس پی سیکیورٹی ون کو طلب کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں کراچی: چینی شہریوں پر فائرنگ کے واقعہ میں کالعدم تنظیم کے ملوث ہونے کا انکشاف

سندھ ہائیکورٹ میں چینی شہری کو گھر کرائے پر دینے سے متعلق پولیس کا مکان مالک سے سیکیورٹی کے نام پر جگہ اور وسائل مانگنے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیاکہ پولیس اہلکار چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے نام پر ہراساں کررہے ہیں، پولیس افسران کہتے ہیں چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے اہلکاروں کے لیے گھر میں جگہ بنائی جائے۔

وکیل نے کہاکہ اہلکاروں کا روز کا خرچہ بھی مکان مالک کو اٹھانے کا کہا جارہا ہے، حالانکہ درخواست گزار کا گھر حساس مقام کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

انہوں نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ درخواست گزار کے گھر کے اندر پولیس اہلکاروں کو ٹھہرانے کا مطالبہ غیر آئینی قرار دیا جائے، کرائے داروں کی سیکیورٹی کے لیے مکان مالک کے بنیادی حقوق ختم نہیں کیے جاسکتے۔

دوران سماعت جج نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر آپ کو سیکیورٹی نہیں چاہیے تو آپ اپنی ذمہ داری پر سیکیورٹی کی فراہمی ختم کردیں۔

وکیل درخواست گزار نے کہاکہ ہم نے سیکیورٹی سے انکار نہیں کیا، لیکن پولیس اہلکاروں کو گھر کے اندر رہائش نہیں دی جاسکتی، پولیس اہلکار رہائش گاہ کے باہر ٹینٹ لگا کر رہ سکتے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کے گھر میں داخلے سے رہائشیوں کی پرائیویسی متاثر ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں چینی سرمایہ کاروں کا عدالت سے رجوع، سندھ حکومت اور پولیس کا ردعمل سامنے آگیا

بعد ازاں عدالت نے عدالت نے حکم امتناع میں 8 اپریل تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پولیس اہلکار چینی شہری حکم امتناع سیکیورٹی عدالت کراچی مالک مکان مہنگا پڑگیا ہراساں وکیل وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پولیس اہلکار چینی شہری سیکیورٹی عدالت کراچی مالک مکان مہنگا پڑگیا وکیل وی نیوز درخواست گزار چینی شہریوں سیکیورٹی کے مکان مالک کے لیے

پڑھیں:

شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی ( تحقیقاتی رپورٹ: محمد علی فاروق )روشنیوں کا شہر آج گڑھوں، ٹوٹ پھوٹ اور ابلتے گٹروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہی شہر جس کے شہریوں نے صرف گاڑیاں سڑک پر چلانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے موٹر وہیکل ٹیکس کی صورت میں ادا کیے، آج بنیادی سفری سہولیات سے محروم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 سے 2024-25 تک سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر سے موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھاری رقم اکٹھی کی۔ 2019- اور 2020 میں 5.94 ارب روپے جبکہ 2020- اور2021: میں 9.52 ارب روپے اسی طرح 2021 اور 2022 میں 12.17 ارب روپے ، علاوہ ازیں 2022- اور 2023 میں 10.36 ارب روپے دریں اثناء 2023 اور-2024: میں 10.83 ارب روپے دیگر میں 2024 اور 2025: میں 13.60 ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔یعنی محض ایک سال میں شہریوں نے 13 ارب 60 کروڑ روپے “سڑک پر گاڑی چلانے کے حق” کے نام پر ادا کیے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ سڑکیں کہاں ہیں۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتی ہیں۔کورنگی، نارتھ کراچی، ماڑی پور، اورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کی مرکزی شاہراہوں پر گڑھوں، ملبے، اور بارش کے پانی کے باعث گاڑیاں نہیں، قسمتیں آزمائی جاتی ہیں۔جہاں کبھی ٹریفک بہتا تھا، آج وہاں پانی کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔چالیس فیصد سے زائد سڑکیںانتہائی خستہ حال قرار دی جا چکی ہیں، جبکہ محکمہ بلدیات اور سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کے مصرف پر خاموشی نے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔کراچی کے شہری ہر سال اربوں روپے اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ بدلے میں حکومت انہیں بہتر روڈز، ٹریفک سگنلز، زیبرا کراسنگ، اور اوورہیڈ برج جیسی بنیادی سہولیات دے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس بند، سگنل ناکارہ، اور فٹ پاتھ غائب ہیں۔یونیورسٹی روڈ، سپر ہائی وے، نارتھ ناظم آباد، اور ایم اے جناح روڈ کے اطراف جگہ جگہ ٹوٹی لائنیں، غائب کیٹ آئیز، اور تباہ شدہ یو ٹرن شہریوں کی گاڑیوں کو روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ صوبائی خزانے میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں ضم ہو جاتا ہے۔یعنی وہ رقم جو سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک سسٹم کی بہتری پر خرچ ہونی تھی، وہ تنخواہوں، ایڈمن اخراجات، اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے۔ٹریفک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر یہ فنڈز شفاف طریقے سے صرف کراچی کی سڑکوں پر لگائے جائیں توصرف دو سال میں پورا شہر ازسرِنو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدلے میں ملتا ہے گڑھا، گرد، اور گندہ سیورج ملا پانی کیا یہی ترقی ہے۔ایک شہری کا کہناتھا کہ حکومت نے ٹریفک سگنل تو لگائے نہیں، البتہ گاڑی کے شاکس ضرور بدلوا دیے ہیں۔کراچی کا بنیادی ڈھانچہ اربوں روپے کے ٹیکس کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر اس رقم کے شفاف استعمال کا نظام نہ بنایا گیا تو کراچی صرف ٹریفک حادثوںکا نہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی کا استعارہ بن جائے گا۔شہریوں کا مطالبہ صاف ہے کہ ٹیکس ہم نے دیا ، حساب تم دو، اور سڑک ہمیں دو۔

محمد علی فاروق گلزار

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام، سیکیورٹی فورسز نے 2 افغان شہریوں سمیت 3 دہشتگرد ہلاک کردیے
  • کراچی میں شہریوں کو ای چالان، ٹریفک پولیس کی اپنی خلاف ورزیاں
  • غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کے خلاف آپریشن تیز، راولپنڈی میں 216 افغان شہری گرفتار
  • راولپنڈی ؛ افغان باشندوں کو مکان کرایہ پر دینے والے 18 مالک مکان گرفتار
  • جویر‌یہ سعود کا کراچی کے دفاع میں بیان، شہریوں کی سوچ پر تنقید
  • لاہور: رائیونڈ میں افغان مہاجرین کو رہائش دینے والے کیخلاف مقدمہ درج
  • شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
  • افغانیوں کو دکان و گھر کرائے پر دینے والے مالکان پر 79 مقدمات درج
  • راولپنڈی: افغانیوں کو مکان کرائے پر دینے والے 16 مالکان گرفتار
  • کراچی میں 4سال قبل چوری شدہ موٹرسائیکل کا چالان مالک کو بھیج دیا گیا