پی ٹی آئی کو حکومت مخالف مہم شروع کرنے کیلئے فضل الرحمٰن کی واپسی کا انتظار
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عید کے بعد اپوزیشن کی متوقع عوامی تحریک کے بارے میں پراعتماد نظر آرہے ہیں اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مذاکرات ان کی بیرون ملک سے واپسی کے بعد شروع ہوں گے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے بانی عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ ’جے یو آئی (ف) اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت جاری ہے اور جلد ہی قومی ایجنڈے کا اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’مولانا ملک سے باہر ہیں اور جیسے ہی وہ واپس آئیں گے، ایک نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کا اعلان کیا جائے گا۔‘
ایک ہفتہ قبل، پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا اور حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ تنازع پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر سے پہلے، پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کی کوششیں کیں لیکن معاہدہ نہیں ہو سکا تھا، جس کے بعد پارٹی کو حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے لیے اپنی طاقت پر انحصار کرنا پڑا۔
اب، پی ٹی آئی نے کثیرالجماعتی اتحاد کے لیے جے یو آئی (ف) کو اعتماد میں لینے کے لیے دوبارہ کوششیں تیز کردی ہیں۔
اسد قیصر کے ساتھ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے کہا کہ ان کی پارٹی ریاستی اداروں کے خلاف نہیں ہے اور اس کا ماننا ہے کہ پاکستان کے استحکام کے لیے ایک مضبوط ادارہ (فوج کی تعریف) ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر اسے عوام کی حمایت نہ ملے تو ادارہ کمزور ہو جائے گا، ایک اور (انسداد دہشت گردی) آپریشن کی صورت میں، لوگ ادارے کا ساتھ نہیں دیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کسی فرد سے شکایات ہوسکتی ہیں لیکن ہم ادارے کی حمایت کرتے ہیں، ہمارا ماننا ہے کہ مضبوط ادارہ ہی ملک کو مضبوط بناتا ہے۔‘
جنید اکبر نے کہا کہ گو کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال ابتر ہو رہی ہے، لیکن عوام کسی اور فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر جو موجودہ حکومت لے کر آئے وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ایک ادارہ سب سے بڑھ کر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ادارے کے خلاف ’غصہ‘ بڑھتا جارہا ہے، میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ایجنڈے میں کامیاب نہیں ہو سکتے، آپ ذوالفقار علی بھٹو کو ختم نہیں کر سکے جو ایک نسل کے لیڈر تھے، تو عمران خان کو کیسے ختم کریں گے جو تین نسلوں کا لیڈر ہے؟
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے حالات بلوچستان کی طرح خراب ہو رہے ہیں، دارالحکومت اسلام آباد میں رہنے والے صوبے کے رہائشیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ایف آئی آر میں ملوث کیا جا رہا ہے۔
’رابطوں سے شرمندہ نہیں‘
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور ڈائیلاگ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں پی ٹی آئی کے رہنما نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی کے طاقتور ادارے سے بالواسطہ اور بالواسطہ رابطے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ اس میں شرمندہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے اپنے اداروں سے ملاقات کرنے اور ان سے بات کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہے تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ عوام اور ادارے کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے اور انہیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے،‘ انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی اداروں کو قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔
رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے دعویٰ کیا کہ افغان پالیسی کی وجہ سے سابقہ فاٹا میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہو رہی ہے، میں تجویز کروں گا کہ افغان پالیسی پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے، سرحد کے ساتھ رہنے والے لوگوں کا کاروبار افغانستان اور ایران سے جڑا ہوا ہے، وہ ملک کے مسائل کو کنٹرول اور حل نہیں کر سکتے۔ نئے انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے والی حکومت اقتدار میں آسکے۔’
ان کا کہنا تھا کہ حکومت، امریکا کی جانب سے ’شکریہ‘ کے لفظ پر پرجوش ہوگئی، وہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ملک کی خودمختاری کی پروا کیے بغیر امریکا کی توثیق حاصل کر لی ہے، میں یہ کہوں گا کہ ملک کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔’
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان اور کے پی میں حکومتی رٹ نہیں، دہشتگردی کا خاتمہ تو دور کی بات، مولانا فضل الرحمٰن
اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، افسوس حکومت نام کی رٹ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بالکل بھی نہیں۔
ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دن کے وقت بھی دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بدامنی ریاستی اداروں کی نااہلی ہے یا شعوری طور پر کی جا رہی ہے، اس حوالے سے ہمیں جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ افغانستان پر جب امریکا نے حملہ کیا اس وقت ایک انتشاری کیفیت تھی، اس وقت ملک میں متحدہ مجلس عمل فعال تھی، اتحاد امہ کے لیے ہم اس وقت جیلوں میں بھی گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے بھی اسلحے کو اٹھانا غیر شرعی قرار دیا، پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ہم حرام قرار دے چکے اور اس وقت سے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر جو مہاجر ہوئے وہ آج بھی دربدر ہیں، یہ لوگ جو افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟
26ویں ترمیم
مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ ہم نے 26 ویں ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبرداری پر مجبور کیا، اس کے بعد یہ 22 نکات پر منحصر ہوا جس میں ہم نے پھر مزید اقدامات کیے۔
انہوں نے بتایا کہ سود کے خاتمے کے حوالے سے 31 دسمبر 2027ء کی تاریخ آخری ہے اور اب باقاعدہ دستور میں درج ہے کہ یکم جنوری 2028ء تک سود کا مکمل خاتمہ ہوگا، ہم سب کو اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کورٹ میں گئے تو حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ہی آئین کے خلاف اٹارنی جنرل کھڑا کرے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی سپریم کورٹ کا اپیلٹ کورٹ میں جائے تو وہ معطل ہو جاتا ہے، اب صورتحال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یکم جنوری 2028ء کو اس پر عمل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس کے خلاف کوئی اپیل ہوئی تو ایک سال کے اندر یہ مہلت ختم ہوگی اور فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کا کوئی چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا لیکن اب شرعی عدالت کا جج شرعی عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بحث کے لیے پیش کی جائیں گے، پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش ہوتی تھیں اب اس پر بحث ہوگی۔
غیرت کے نام پر قتل
انہوں نے کہا کہ یہ کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے کہ زنا بالرضا کی سہولت اور جائز نکاح کے لیے دشواری؟
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل انتہائی قابل مذمت اور غیر شرعی ہے، قانون سازی معاشرے کی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر معاشرتی اقدار کا خیال نہ رکھا جائے تو قانون سازی پر دونوں طرف سے طعن و تشنیع ہوتی ہے۔
مسئلہ کشمیر و فاٹا انضمام
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاستی موقف واضح اور دو ٹوک ہوتا ہے، کس طرح مشرف نے کہا تھا کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا اور بتدریج جس طرح پاکستان کشمیر سے پیچھے ہٹا یہ سب ہمارے سامنے ہوا۔ مودی نے جب خصوصی حیثیت ختم کی اس وقت ہم مذمتی قرارد میں خصوصی آرٹیکل 370 کا تذکرہ تک نہ کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فاٹا کا انضمام کر دیا اور اس وقت بھی کہا تھا یہ غلط کیا جا رہا ہے، خطے میں امریکی ایجنڈے کے نفاذ کے لیے جغرافیائی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی گئیں۔ اب صوبائی حکومت خود کہتی ہے کہ انضمام کا فیصلہ درست نہیں تھا کمیشن بناتے ہیں، اب اگر آپ واپس ہٹیں گے یا صوبہ بنائیں دو تہائی اکثریت صوبائی و وفاق میں چاہیے ہوگی۔
اسرائیلی جارحیت
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہے اور دو ریاستی حل صرف ایک دھوکا ہے، اسرائیل غاصب ہے۔ خالد مشعل نے گزشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 70 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پہلے صدر نے کہا تھا کہ نوزائیدہ مسلم ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی ہوگی، پاکستان نے 1940ء میں فلسطینیوں کے حق کے لیے آواز بلند کی اور سب سے پہلے ہم نے اسے ناجائز ریاست قرار دیا۔ حرمین بھی ہمارا ہے اور قبلہ اول بھی ہمارا ہے، مگر آج قبضہ یہود کا ہے، آج جو کچھ فلسطینیوں پر گزر رہی ہے یہ حضور اکرم کی حدیث ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایران نے اس کا جواب دیا ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہم اس کی بھی کھل کر مذمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاک انڈیا جنگ میں ایران نے جس طرح پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا وہ بھی لائق تحسین ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھی اتحاد امت کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔