آئی ایم ایف سے تیکنیکی سطح پر مذاکرات مکمل
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک : آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط کیلئے تیکنیکی سطح پر مذاکرات مکمل ہوگئے
پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے جائزہ مشن کے درمیان ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے لیے جاری تکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں جبکہ پالیسی سطع کے مذاکرات کا دوسرا مرحلہ پیر کو شروع ہوگا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف مشن کے درمیان مذاکرات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے تکنیکی سطح کے مزاکرات میں جمعے کو خیبرپختونخوا نمائندہ کی مشن سے ملاقات ہوئی جس میں خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے معاشی اقدامات کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔خیبرپختونخوا حکومت کے نمائندے نے صوبائی حکومت کی جانب سے زرعی انکم ٹیکس قانون سازی بارے آگاہ کیا گیا۔
ترقیاتی منصوبوں کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا:وزیراعلیٰ مریم نواز
صوبائی سطح پر محصولات میں اضافے کے لیے اقدامات پر بریفنگ دی گئی، اس کے علاوہ مذاکرات میں سرکاری افسران کی کارکردگی بڑھانے کے بارے میں امور کا بھی جائزہ لیا گیا اور گورننس میں بہتری کے لیے اقدامات بارے بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
آئی ایم ایف مشن کے ساتھ تکنیکی سطح کے مزاکرات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے اور اب اقتصادی جائزے کے لیے پالیسی سطح پر مذاکرات کا دوسرا مرحلہ پیر کو شروع ہوگا۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف کے لیے
پڑھیں:
بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ ضروری کیوں؟
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس کہنے کو اور کچھ ہے نہیں، بس وہ سیاسی ڈائیلاگ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ انھوں نیکراچی میں ساؤتھ ایشیا کے بدلتے حالات کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ ضروری ہیں اور ہم نے مسلم لیگ (ن) اس لیے چھوڑی تھی کہ اس نے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ بدل لیا تھا۔
شاہد خاقان اور ان کے والد خاقان عباسی شروع ہی سے مسلم لیگ (ن) میں رہے اور مری کے حلقے سے الیکشن بھی لڑتے رہے۔ ان کے والد مرحوم اپنے حلقے میں اپنا ووٹ بینک اس لیے بنانے میں کامیاب رہے تھے کہ وہ حلقے کی بہتری پر اپنا پیسہ خرچ کرتے تھے بلکہ جیب سے خرچہ کر کے مسئلہ حل کرا کر لوگوں کے پاس جاتے تھے ۔ شاہد خاقان کئی بار وفاقی وزیر بنے اور پھر وزیر اعظم بنے۔
ملک میں اس وقت صرف 5 وزرائے اعظم حیات ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ان میں شامل ہیں، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں اور مسلسل ان سے مذاکرات چاہتے ہیں کہ جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ووٹ کو عزت نہیں دیتے اور انھی کے ذریعے رہائی بھی چاہتے ہیں۔ دو سابق وزرائے اعظم کی اپنی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) سیاسی پارٹیاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنی پارٹی سے وفاداری بھی نبھا رہے ہیں اور اقتدار میں بھی ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی واحد سابق وزیر اعظم ہیں جن کی اپنی نئی پارٹی بنانے کے باوجود کوئی سیاسی اہمیت نہیں اور پی ٹی آئی حکومت دور کے جھوٹے مقدمات بھی بھگت رہے ہیں۔
ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کی بات بھی وہی کررہے ہے جب کہ انھیں معلوم ہے کہ کسی حکومت اور سزا یافتہ قیدی کے درمیان ڈائیلاگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہوئے بھی تھے جو پی ٹی آئی نے اپنی شرائط پیش کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیے تھے جب کہ حکومت نے ان کے مطالبے طلب بھی کیے تھے مگر بانی کسی صورت مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہی نہیں تھے اور ان کا زور اب بھی بالاتروں سے سیاسی مذاکرات پر ہے مگر بالاتر غیر آئینی ڈائیلاگ کرنا ہی نہیں چاہتے۔
اسٹیبلشمنٹ واضع کر چکی ہے کہ سیاستدانوں کو سیاسی حکومت سے سیاسی مذاکرات کرنے چاہئیں۔ صدر مملکت آصف زرداری اور موجودہ وزیر اعظم بھی سیاسی قوتوں کے مابین سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی متعدد بار پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر چکے ہیں مگر جیل میں بانی کی انا ختم ہونے میں نہیں آ رہی جس کی وجہ سے حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہے بلکہ بضد ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہے تو مجھ سے مذاکرات کرلے میں صرف انھی سے بات کر سکتا ہوں جب کہ بالاتروں کی کوئی مجبوری ہے اور نہ ہی ضرورت کہ وہ سزا یافتہ سے ڈائیلاگ کریں۔
شاہد خاقان عباسی سب کچھ جانتے ہوئے بھی سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں جس پر جیل والا فریق تیار ہی نہیں تو پھر بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ پر زور کیوں؟ جب کہ وہ خود اس پوزیشن میں نظر نہیں آتے کہ بانی کو ڈائیلاگ پر راضی کر سکیں ۔موجودہ حکومت جسے پی ٹی آئی جعلی اور بے اختیار قرار دیتی آ رہی ہے، اس نے سوا سال میں پی ٹی آئی سے متعدد بار ڈائیلاگ کی آفر دی اور اسپیکر قومی اسمبلی کی کوشش سے مذاکرات کا دور ہوا بھی جو ادھورا چھوڑ کر پی ٹی آئی اپنے بانی کے کہنے پر چھوڑ گئی تھی۔
اب پھر پی ٹی آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر شہباز شریف فیصلے کر سکتے ہیں تو ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ماضی میں اسپیکر قومی اسمبلی نے جو مذاکرات کرائے تھے ،وہ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کی رضامندی سے کرائے تھے مگر پی ٹی آئی نے وہاں حکومت کے طلب کرنے پر بھی شرائط پیش نہیں کی تھیں اور مذاکرات جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا تو اب یہ کہنا کہ ’’اگر شہباز شریف فیصلہ کر سکیں‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وزیر اعظم ان کے سزا یافتہ بانی کو رہا کرا دیں تو ہی ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ملکی معاملات پر ہم کسی سے بھی مذاکرات کرسکتے ہیں۔
وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اقتدار میں موجود جماعتوں کے ہاتھوں میں کچھ نہیں اور وزیر اعظم خود فیصلہ نہیں کر سکتے تو جس عدلیہ کے پاس فیصلے کا اختیار ہے تو اسی عدلیہ پر بانی کی رہائی کے لیے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔ وہ لوگ جو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے ملک میں سیاسی استحکام کی امید رکھتے ہیں، یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا معاملہ ہو یا دیگر اسیران کی رہائی، یہ کام عدلیہ ہی کر سکتی ہے ۔ بہتر ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے اور وہ فیصلہ بھی مانا جائے تو ممکن ہے کہ عدالتی فیصلہ سیاسی استحکام لے آئے ۔