ٹرمپ کا آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط‘جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور نیا معاہدہ کرنے کی پیشکش
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 مارچ ۔2025 ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے جس میں تہران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور اس معاہدے کی جگہ نیا معاہدہ کرنے کی پیشکش کی گئی ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق خامنہ ای کے دفتر نے ابھی تک خط کی وصولی کی تصدیق نہیں کی صدر ٹرمپ نے یہ بات” فاکس نیوز“ سے انٹرویو میں کہی ہے جو اتوار کو نشر ہو گا یہ واضح نہیں کہ ایرانی سپریم لیڈر اس پر کیا ردعمل دیں گے کیونکہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے 2015 کے جوہری معاہدے کے مذاکرات سے پہلے خامنہ ای کو لکھے گئے خطوط کو خفیہ رکھا تھا.
(جاری ہے)
ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران خط کا براہ راست ذکر نہیں کیا تاہم انہوں نے ایک ممکنہ فوجی کارروائی کا عندیہ دیا کہ ہمیں ایران سے متعلق ایک صورت حال کا سامنا ہے اور کچھ بہت جلد ہونے والا ہے، بہت جلد انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ ہمارے درمیان ایک امن معاہدہ کر لیں میں طاقت یا کمزوری کے لحاظ سے بات نہیں کر رہا میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ میں امن معاہدہ چاہوں گا لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو دوسرے راستے سے بھی مسئلہ حل ہو جائے گا. ٹرمپ کے اس اقدام کا پس منظر یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تہران کی جانب سے ہتھیاروں کی سطح کے قریب یورینیم افزودہ کرنے کے بعد خطے میں فوجی تصادم کا خدشہ بڑھ گیا ہے ٹرمپ نے فاکس نیوزسے انٹرویو میں کہا کہ میں نے انہیں ایک خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ مجھے امید ہے کہ آپ مذاکرات کریں گے کیونکہ اگر ہمیں فوجی کارروائی کرنی پڑی تو یہ بہت خوفناک ہو گا اقوامِ متحدہ نے ٹرمپ کے سفارتی اقدام کا خیرمقدم کیا اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے بیان میں کہا کہ اصولی طور پر ہم ایک بار پھر اس موقف کی توثیق کرتے ہیں کہ سفارت کاری ہی ایران کے جوہری پروگرام کو پرامن رکھنے کا بہترین طریقہ ہے ہم اس مقصد کے لیے کی جانے والی تمام سفارتی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں. وائٹ ہاﺅس نے تصدیق کی کہ ٹرمپ کا خط ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کی کوشش ہے اوول آفس میں گفتگو کے دوران ٹرمپ نے یہی جذبات دہرائے جو انہوں نے اپنے انٹرویو میں ظاہر کیے تھے انہوں نے کہاکہ میں کسی معاہدے پر مذاکرات کرنا زیادہ پسند کروں گا مجھے یقین نہیں کہ ہر کوئی مجھ سے اتفاق کرے گا، لیکن ہم ایسا معاہدہ کر سکتے ہیں جو اتنا ہی موثر ہوگا جتنا کہ جنگ جیتنا لیکن وقت ابھی آ چکا ہے وقت قریب ہے کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے، کسی نہ کسی طرح. انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ کرنا ہوگا کیونکہ ہم انہیں جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا انہوں نے اپنے خط میں ایران کو کوئی مخصوص پیشکش کی ہے یا نہیں دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بیان میں کہا کہ ایران امریکہ سے جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری نہیں رکھے گا ایران کا جوہری پروگرام فوجی حملے سے تباہ نہیں ہو سکتا یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو ہم نے حاصل کی ہے دماغ اور ذہن میں موجود اس ٹیکنالوجی پر حملہ نہیں ہو سکتا یہ اقدام ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو لکھے گئے خطوط کی یاد دلاتا ہے جس کے نتیجے میں براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں مگر پیانگ یانگ کے جوہری ہتھیاروں اور بین البراعظمی میزائل پروگرام کو محدود کرنے کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے نہ پا سکا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری پروگرام پروگرام کو خامنہ ای انہوں نے میں کہا کرنے کی ہیں کہ کہا کہ
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کا ’روس کے قریب‘ جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) صدر ٹرمپ کا ’روس کے قریب‘ جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو جوہری آبدوزیں ’روس کے قریب‘ مناسب علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ پیشرفت واشنگٹن اور ماسکو کے مابین جاری لفظی جنگ کو ایک سنگین عسکری رخ دے رہی ہے۔
ٹرمپ نے روسی قومی سکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف کے حالیہ بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ انہوں نے یہ قدم ’’احمقانہ اور اشتعال انگیز‘‘ روسی بیانات کے تناظر میں اُٹھایا ہے تاکہ اگر ان بیانات سے آگے کوئی اقدام ہوا تو امریکہ تیار ہو۔(جاری ہے)
جمعہ کی شب نیوز میکس ٹی وی کو انٹرویو میں ٹرمپ نے واضح کیا کہ آبدوزیں ’’روس کے قریب‘‘ تعینات کی گئی ہیں اور یہ فیصلہ انہوں نے میدویدیف کے ’’جوہری‘‘ حوالے سے دیے گئے بیانات کے بعد کیا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’جب کوئی جوہری کا لفظ استعمال کرے، تو میں سنجیدگی سے لیتا ہوں۔ یہ حتمی خطرہ ہوتا ہے۔‘‘یہ کشیدگی ایسے وقت میں بڑھی ہے، جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک نے اوریشنک نامی ہائپرسانک جوہری صلاحیت والے میزائل کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع کر دی ہے، جنہیں سال کے اختتام تک بیلا روس میں نصب کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ نے روس کو اگلے ہفتے تک یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کا الٹی میٹم دیا ہے، بصورتِ دیگر نئی پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔ اس کے باوجود روسی افواج یوکرین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں جولائی کے دوران ڈرون حملوں کی ریکارڈ تعداد دیکھی گئی ہے۔
دوسری طرف میدویدیف نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کو ’’الٹی میٹم کھیلنے والا‘‘ قرار دیا اور روس کی جوہری طاقت کی یاد دہانی کرواتے ہوئے ’’ڈیڈ ہینڈ‘‘ سسٹم کا حوالہ دیا، جو سرد جنگ کے دوران تیار کردہ ایک خفیہ خودکار جوہری ردعمل کا نظام تھا۔
ٹرمپ نے جواباً انہیں ’’ناکام سابق صدر‘‘ قرار دے کر خبردار کیا کہ وہ ’’خطرناک حدود‘‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔میدویدیف، جو 2008 سے 2012 تک روس کے صدر رہے اور بعد ازاں پوٹن کے صدر بننے کی راہ ہموار کرتے رہے، اب روسی بیانیے کے ایک جارح آن لائن ترجمان بن چکے ہیں، اگرچہ ان کا اصل سیاسی اثر ورسوخ محدود سمجھا جاتا ہے۔
ادھر یوکرین میں جمعے کو دارالحکومت کییف میں حالیہ روسی حملے میں ہلاک ہونے والے 31 افراد کی یاد میں یوم سوگ منایا گیا، جن میں پانچ بچے بھی شامل تھے۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر پوتن سے براہ راست ملاقات کی پیشکش دہرائی، یہ مؤقف اپناتے ہوئے کہ جنگ کا خاتمہ صرف پوٹن کے ہاتھ میں ہے۔