خواتین اپنی حفاظت کیسے کریں؟ بھارتی وزیر کا انوکھا مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
نئی دہلی (نیوز ڈیسک)خواتین خود کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے کیا کریں اس حوالے سے بھارتی وزیر نے انوکھا مشوری دیدیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق شیو سینا کے رہنما اور مہارشٹر میں وزیر گلاب راؤ پٹیل نے خواتین کے بارے میں کہا کہ وہ لپ اسٹک کے ساتھ اپنی حفاظت کے لیے خنجر اور مرچ پاؤڈر ساتھ رکھیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مہارشٹر کے وزیر نے کہا کہ آج کل برے واقعات جنم لے رہے ہیں۔
بھارتی وزیر نے کہا کہ میں خواتین سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے ساتھ لپ اسٹک کے علاوہ خنجر اور مرچ پاؤڈر اپنی حفاظت کے لیے رکھا کریں۔
گزشتہ دنوں 26 سالہ لڑکی کے ریپ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
 مزیدپڑھیں:عمر ایوب نے حکومت کیخلاف تحریک تیز کرنے کا اعلان کردیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
دنیا کا انوکھا علاج
نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964 میں عجیب واقعہ پیش آیا‘ امریکی صدرلنڈن بی جونسن نے اسے وفد کا سربراہ بنا کر ماسکو بھجوایا‘ وہ کولڈ وار کا زمانہ تھا‘ نارمن ایٹمی تنصیبات کے خلاف تھا‘ اس کا خیال تھا یہ پہلے انسانیت اور پھر انسان کو کرہ ارض سے مٹا دیں گی۔
وہ بیک وقت انگریزی اور روسی زبانوں کا ماہر تھا لہٰذا صدر نے اسے انتہائی اہم وفد کا سربراہ بنا کر روس بھجوا دیا‘ یہ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان جوہری توانائی پر پہلا رابطہ تھا اور اس کی تمام تر ذمے داری نارمن کزنز پر تھی‘ دورہ بہت کام یاب رہا لیکن آخری دن ایک ایسی گڑ بڑ ہو گئی جس نے تمام کام یابیاں مٹی میں ملا دیں اور امریکا اور روس کے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
نارمن کزنز آخری دن کانفرنس ہال کے لیے نکلا‘ اس کے ہوٹل اور کانفرنس ہال کے درمیان 20 کلومیٹر کا فاصلہ تھا‘ ڈرائیور وقت پر آ گیا‘ وہ وقت پر روانہ ہوا لیکن ڈرائیور اسے منزل کی مخالف سائیڈ پر بہت دور لے گیا وہاں پہنچ کر پتا چلا ہم غلط آ گئے ہیں‘ اس کے بعد کزنز کے ساتھ کیا ہوا‘ میں اس طرف آتا ہوں لیکن اس سے پہلے آپ کو نارمن کزنز کا تعارف کراتا چلوں‘ نارمن امریکن یہودی تھا‘ نیوجرسی میں پیدا ہوا‘ کولمبیا یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور نیویارک پوسٹ جوائن کر لی‘ وہ بعدازاں اخبار کا منیجنگ ایڈیٹر بن گیا۔
وہ ترقی کرتا ہوا 1942میں ایڈیٹر انچیف ہو گیا اور 1972 تک اس پوزیشن پر رہا‘ وہ اپنے زمانے کے مشہور ترین امریکی صحافیوں میں شمار ہوتا تھا‘ جوہری تنصیبات کے خلاف تھا لہٰذا صدر نے اسے اہم ترین وفد کا سربراہ بنا کر روس بھجوا دیا لیکن اس دن اس کے ساتھ افسوس ناک واقعہ پیش آیا‘ ڈرائیور اسے مخالف سمت میں بہت دور لے گیا‘ جب ان لوگوں کو اندازہ ہوا تو بہت تاخیر ہو چکی تھی‘ وہ ہال کی طرف واپس مڑے لیکن ٹریفک میں پھنس گئے‘ وہ حساس انسان تھا اسے شدید ٹینشن ہوئی‘ وہ جب منزل پر پہنچا تو تقریب معاہدے کے بغیر ختم ہو چکی تھی اور وفد اسے نفرت سے دیکھ رہا تھا۔
وہ اس کے بعد وفد کے ساتھ ائیرپورٹ پہنچا تو فلائیٹ فل تھی‘ دوسری طرف ان کے ویزے کی مدت ختم ہو چکی تھی بہرحال قصہ مختصر پورا وفد دو دن خوار ہو کر مختلف ملکوں سے ہوتا ہوا امریکا پہنچا‘ امریکی صدر بھی اس سے ناراض ہو گیا‘ وہ چند ہفتے شدید ٹینشن میں رہا‘ اس ٹینشن کے دوران اس کے پورے جسم میں دردیں شروع ہو گئیں‘ وہ ڈاکٹر کے پاس گیا‘ اس کا طبی معائنہ ہوا تو پتا چلا اسے (Ankylosing spondylitis) نام کی بیماری ہو چکی ہے‘ یہ آٹو امیون بیماری ہے جس میں انسان کا جسم اپنے آپ کو کھانا شروع کر دیتا ہے‘ ڈاکٹر نے کزنز کو بتایا تمہاری بیماری کا کوئی علاج نہیں‘ پانچ سو بیماروں میں سے صرف ایک مریض بیماری کے بعد دس سال زندہ رہ سکتا ہے‘ ہم تمہارا علاج نہیں کر سکتے‘ صرف ’’پین کلرز‘‘ کے ذریعے تمہارا درد کم کر سکتے ہیں۔
کزنز کے جسم میں اس وقت تک ناقابل برداشت درد تھا‘ وہ بستر پر کروٹیں بدلتااور آہ وزاری کرتا رہتا تھا‘ ڈاکٹر اسے روزانہ 38 دردکش گولیاں دیتے تھے لیکن درد اس کے باوجود کنٹرول نہیں ہوتا تھا‘ اسے ریسرچ کی عادت تھی لہٰذا اس نے اسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے اپنی بیماری پر ریسرچ شروع کر دی‘ اسے پتا چلا پین کلرز اینڈ ریلین گلینڈ سے وٹامن سی ختم کر دیتی ہیں جب کہ ریکوری اور قوت مدافعت کا انحصار وٹامن سی پر ہوتا ہے‘ اس نے ڈاکٹروں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی لیکن ان کا جواب تھا ’’ڈاکٹرہم ہیں۔
آپ نہیں‘ یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے‘‘ کزنز بہت جلد اسپتال‘ ادویات اور ڈاکٹروں سے مایوس ہو گیا چناں چہ اس نے اپنا علاج جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا‘ وہ اسپتال سے نکلا اور ہوٹل میں مستقل کمرہ لے لیا‘ وہ کمرہ اسپتال سے سستا بھی تھا اور آرام دہ بھی‘ اس نے پین کلرز بھی بند کر دیں جس کے بعد وہ ساری ساری رات درد سے تڑپتا رہتا تھا لیکن اس کے بعد اس نے پین کلرز کو ہاتھ نہیں لگایا‘ اس کے کمرے میں ٹیلی ویژن تھا‘ وہ سارا دن ٹی وی دیکھتا رہتا تھا‘ ان دنوں چارلی چپلن کی فلمیں چل رہی تھیں‘ اس نے ایک دن محسوس کیا وہ جب چارلی چپلن کی فلم دیکھتا ہے تو اس کا درد کم ہو جاتا ہے‘ اس نے اس تبدیلی کو نوٹ کرنا شروع کر دیا‘ اس نے دیکھا فلم کے دوران وہ قہقہہ لگاتا ہے جس کے ساتھ ہی درد ختم ہو جاتا ہے۔
اس نے مزید نوٹ کیا دس منٹ کے قہقہوں کے بعد اسے دو گھنٹے تک درد نہیں ہوتا‘ اس نے اس تجربے کو بار بار دہرایا‘ ہر بار رزلٹ وہی نکلا‘ یہ ایک حیران کن دریافت تھی‘ اس نے تحقیق کی تو معلوم ہوا اسے ٹینشن کی وجہ سے بیماری ہوئی تھی اور قہقہہ اس کا علاج ہے‘ اسے یہ بھی معلوم ہوا دنیا میں جو بیماری گندگی سے ہوتی ہے اس کا علاج صفائی ہوتا ہے‘ جو خوراک سے ہوتی ہے وہ فاقے اور روزے سے ٹھیک ہو جاتی ہے‘ جو سستی سے ہوتی ہے اس کا علاج ایکٹویٹی اور حرکت ہوتا ہے چناں چہ دنیا کی تمام ٹینشنوں‘ ڈپریشنز اور اینگزائٹیز کا علاج مسکراہٹ‘ ہنسی اور قہقہہ ہے‘ آپ قہقہے لگاتے جائیں اور صحت مند ہوتے جائیں چناں چہ اس نے ہنسنا اور وٹامن سی لینا شروع کر دیا‘ وہ نہ صرف چند ہفتوں میں پاؤں پر کھڑا ہو گیا بلکہ اس کے جسم سے بیماری کے اثرات بھی ختم ہونے لگے۔
نارمن کزنز نے اس کے بعد اپنا طریقہ علاج دوسرے لوگوں پر آزمانا شروع کر دیا‘ نتائج یکساں نکلے‘ لوگوں کا درد اور تکلیف ختم ہو گئی‘ اس نے باقاعدہ اعدادوشمار کے ساتھ آرٹیکل لکھا اور یہ دنیا کے مشہور میڈیکل جرنل آف میڈیسن کو بھجوا دیا‘ ایڈیٹر اس کے پروفائل‘ میڈیکل ہسٹری اور اعدادوشمار سے متاثر ہوا اور اس نے آرٹیکل شایع کر دیا‘ یہ اس میڈیکل جرنل کی ہسٹری کا پہلا مضمون تھا جو کسی نان ڈاکٹر یا نان میڈیکل اسٹوڈنٹ نے لکھا تھا‘ آرٹیکل کے بعد نارمن کزنز ’’لافٹر تھراپی‘‘ کا بانی ہو گیا‘ یہ پہلا شخص تھا جس نے دنیا کو بتایا قہقہہ انسان کا درد ختم کر دیتا ہے‘ یہ دنیا کا بہترین پین کلر ہے‘ یہ پہلا شخص تھا جس نے بتایا ہنسی بھی علاج ہے۔
یہ انسان کی بے شمار بیماریاں ختم کر دیتی ہے‘ اسے انسانی زندگی میں خوراک اور ادویات جیسی اہمیت ملنی چاہیے‘ اس کا طریقہ علاج امریکا میں اتنا کام یاب اور مشہور ہو گیا کہ اسے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس نے پروفیسر کی نوکری کی آفر کر دی‘ اس نے یہ پیش کش قبول کر لی اور نیوجرسی سے لاس اینجلس شفٹ ہو گیا‘ وہ 1978سے 1990تک میڈیکل یونیورسٹی میں سائیکالوجی اینڈ بی ہیور سائنسز کے شعبے میں پروفیسر رہا‘ اس کا سبجیکٹ ’’انسانی رویوں کے صحت پر اثرات‘‘ تھا‘ وہ 1990میں فوت ہوا‘ اس وقت تک اس کے پہلے ہارٹ اٹیک کو 10 سال‘ آنتوں کے کینسر کو 26 سال اور دل کی بیماری کو 36 سال ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود وہ 75 سال زندہ رہا اور اس کی صحت عام لوگوں سے بہتر تھی۔
وہ پوری یونیورسٹی میں خوش ترین شخص تھا‘ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر صرف ایکسرسائز‘ اپنے کھیت کی قدرتی سبزیوں اورہنسی کی مدد سے اپنے دل کا علاج بھی کر لیا‘ اس نے اپنے تجربات پر مبنی ’’اناٹومی آف این ال نیس‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی جس پر بعدازاں فلم بھی بنی‘ آپ نے اگر فلم ’’منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ دیکھی ہو تو آپ کو اس میں میڈیکل کالج کے پرنسپل کا کردار ملے گا‘ یہ کردار بومن ایرانی نے ادا کیا‘ یہ اس کی زندگی کی پہلی بڑی فلم تھی جس نے اسے مین ایکٹر کی حیثیت سے متعارف کرایا‘ یہ کردار ڈاکٹر نارمن کزنز سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا تھا‘ کزنز کی عادت تھی وہ ٹینشن اور اینگزائٹی کے عالم میں مسکرانا بلکہ قہقہے لگانا شروع کر دیتا تھا اور اس کے نتیجے میں اینگزائٹی یا ٹینشن اس کے دماغ اور جسم کو متاثر نہیں کر پاتی تھی‘ لافٹر تھراپی اس کا کمال تھا‘ آپ نے اکثر بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلموں میں لوگوں کو پارکوں میں گروپ کی شکل میں ہنستے اور قہقہے لگاتے دیکھا ہو گا‘ یہ ڈاکٹر نارمن کی ریسرچ کا نتیجہ ہے‘ اس کی ریسرچ کے بعد باقاعدہ لطائف کی کتابیں شایع ہونی شروع ہوئیں اور نفسیات دان مریضوں کو ہنسنے کی تلقین کرنے لگے‘ یہ نسخہ بھی آزمودہ ہے اور اس کے نتائج بھی حیران کن ہیں۔
آپ اگر ایس پی عدیل اکبر کے خودکشی کیس کا دوبارہ مطالعہ کریں تو آپ کو اس میں بھی ہنسی کا عنصر کم ملے گا‘ غیرضروری سنجیدگی انسان کے اندر گھٹن پیدا کرتی ہے‘ آپ دنیا کے کسی بھی سنجیدہ آدمی سے ملیں آپ کو یہ ہمیشہ درد کی شکایت کرتا ملے گا‘ اس کے بدن کے کسی نہ کسی حصے میں ضرور درد ہوگا‘ اس میں ٹینشن‘ اینگزائٹی اور ڈپریشن بھی ہو گا جب کہ قہقہے لگانے اور ہنسنے والے لوگ جلد صحت مند بھی ہو جاتے ہیں اور انھیں عام حالات میں درد اور تکلیف بھی کم ہوتی ہے۔
اس طرح زندگی کے منفی پہلو دیکھنے اور ہمیشہ مایوس رہنے والے لوگ بھی جلد بیمار ہو جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ان کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے چناں چہ میرا مشورہ ہے آپ کم از کم دن میں ایک گھنٹہ ضرور مسکرایا اور قہقہے لگایا کریں‘ مزاحیہ فلمیں دیکھا کریں‘ لطائف کی کتابیں پڑھا کریں اور ہنسنے اور قہقہے لگانے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھا کریں‘ آپ کی بیماری‘ بیماری اور تکلیف ‘تکلیف نہیں رہے گی اگر آپ کے گھر یا اسپتال میں بھی کوئی مریض ہے تو آپ اسے دس منٹ ہنسا کر دیکھ لیں‘ اسے دو گھنٹے درد نہیں ہوگا‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہنسی میں اتنی طاقت رکھی ہوئی ہے۔