UrduPoint:
2025-04-25@11:59:27 GMT

ٹرمپ کی دوسری میعاد: بھارت کے لیے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

ٹرمپ کی دوسری میعاد: بھارت کے لیے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) واشنگٹن میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہو کے بعد، ایسے دوسرے اہم رہنما تھے جنہوں نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ بھارتی میڈیا میں اس ملاقات کو دونوں رہنماؤں کے درمیان بہترین کیمسٹری اور دونوں ملکوں کے درمیان قربت کو اجاگر کرنے کے لیے خوب اچھالا گیا اور کہا گیا کہ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے دوران بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں "قوت رفتار" کا امکان ہے۔

تاہم خارجہ امور کے متعدد ماہرین نے ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران نئی دہلی کے لیے مشکلات کی پیش گوئی کی ہے اور خبردار کیا کہ آگے چل کر بھارت کو "متعدد چیلنجز" کا سامنا ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی بات چیت کے بعد بعض معاہدوں کا اعلان ہوا، تاہم اس کے چند گھنٹے قبل ہی ٹرمپ نے بھارت میں امریکی کاروبار کے لیے خراب ماحول اور باہمی محصولات کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی۔

ایف 35 طیاروں کی امریکی پیشکش ایک تجویز ہے، بھارتی عہدیدار

دونوں رہنماؤں کی پریس کانفرنس اور میڈیا میں آنے والی خبروں کے بعد ایسا لگا کہ شاید ٹرمپ نے عالمی شراکت داری میں بھارت کے اہم کردار پر بات چیت کے لیے مودی کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ تاہم اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ مودی کو یہ بتانے کے لیے واشنگٹن طلب کیا گیا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے اور نئی انتظامیہ کی ترجیحات مختلف ہیں اور اس بدلتے منظر نامے میں اگر نئی دہلی الگ تھلگ نہیں پڑنا چاہتا، تو اسے تجارت اور اقتصادی روابط میں امریکی مفادات کا خیال رکھنا ہو گا اور اس کے ساتھ ہی دفاعی تعاون میں بھی واشنگٹن کی بات سننا پڑے گی۔

لہذا، بھارت کو امریکہ کے ساتھ صرف ٹیرف، تجارتی یا اقتصادی مسائل کا سامنا نہیں ہے، بلکہ ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے مقابلے میں اس بار اسے مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

تجارتی پالیسی کا امتحان

وائٹ ہاؤس میں اقتدار کی تبدیلی کو ابھی صرف ڈیڑھ ماہ ہوئے ہیں اور اس مختصر عرصے میں دنیا کئی جغرافیائی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔

بھارت بھی ان ممالک میں سے ایک ہے، جس پر اس کے اثرات سب سے زیادہ مرتب ہو سکتے ہیں اور اس سلسلے میں، اس کا پہلا چیلنج یہ ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف کی دھمکیوں کے درمیان سست رو معیشت کو کیسے مستحکم کیا جائے۔

امریکہ سے ملک بدری: غیر قانونی تارکین وطن کا پہلا گروپ واپس بھارت میں

مودی سے ملاقات کے بعد بھی ٹرمپ نے کئی بار اس بات پر زور دیا ہے کہ جہاں تک تجارتی اور اقتصادی روابط کا تعلق ہے، دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف ایک بڑا مسئلہ ہے اور اقتصادی ماہرین کے مطابق اس سے صاف ظاہر ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں بھارت کے برآمدی سیکٹر کے لیے چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں۔

سابق بھارتی سفیر محمد افضل نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا بھارت کو نہ صرف اقتصادی محاذ پر بلکہ اسٹریٹجک امور میں بھی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے، "جیو پولیٹیکل تعلقات ٹرمپ کی ترجیح نہیں ہیں، ان کے لیے تجارتی اور اقتصادی فائدے اہم ہیں، اس لحاظ سے بھارت کو آنے والے دنوں میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

"

امریکہ نے غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس بھیجنا شروع کر دیا

ان کا مزید کہنا تھا، "معاشی اور جغرافیائی سیاسی تعلقات متاثر ہوں گے، تاہم یہ مودی کی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان مسائل سے کیسے نمٹتی ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اصل میں کیا ہونے والا ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے ایک ماہ کے اندر ہی اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں اور مودی حکومت نقصانات کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔

"

تاہم بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ وہ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہے اور وہ پہلے ہی امریکی حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے اور بہت جلد دونوں ممالک کے درمیان ایک جامع تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔

تجارت اور صنعت کے وزیر پیوش گوئل نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ آنے والی تجارتی بات چیت کے بارے میں حوصلہ افزائی کی اور جلد ہی امریکہ کے ساتھ "دو طرفہ تجارتی معاہدے" کی یقین دہانی کرائی ہے۔

بھارت پہلے ہی ٹرمپ کے دباؤ کے سامنے جھک چکا ہے اور بہت سے امریکی سامان پر اضافی محصولات کو ختم کیا جا چکا ہے، البتہ کئی امور پر اب بھی تعطل برقرار ہے اور اطلاعات ہیں کہ بھارت کے پاس امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ٹرمپ اور مودی کی فون پر گفتگو، دو طرفہ تجارت بھی اہم موضوع

مصنف اور خارجہ امور کے ماہر پرکاش بھنڈاری کہتے ہیں، "امریکہ جارحانہ موڈ میں ہے، بھارت کو ایک سازگار ماحول بنا کر سمجھوتہ کرنا چاہیے، یہی آگے کا راستہ ہے۔

آپ کو نئی حقیقتوں کو قبول کرنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے، دہلی یہی کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔"

اشارے یہ ہیں کہ چند مہینوں میں معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں، تاہم، نئی تبدیلیوں سے تجارتی سرگرمیوں میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔ بھارتی منڈیوں نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ممکنہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی اثرات کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کیے ہیں۔

کیا انڈو پیسیفک ڈومین برقرار ہے؟

ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ بھارتی تجارت اور معیشت کو تو نقصان پہنچ سکتا ہے، تاہم امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں نئی دہلی کو فائدہ ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے انڈو پیسیفک خطے میں دلچسپی ہے اور اس طرح وہ بھارت کے قریب تر ہونا چاہتا ہے۔

بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین سے متعلق ٹرمپ کی حکمت عملی میں بھارت کا کردار اہم ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کی انتظامیہ کے بیشتر اہلکار بیجنگ کو واشنگٹن کے لیے ایک بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں بھی پڑوسی چین کی فوجی سرگرمیوں کے تعلق سے بے چینی پائی جاتی ہے، اس لیے دونوں کا اتحاد مضبوط ہو گا۔ لیکن نئی دہلی میں بعض ماہرین اس بات پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب دفاعی تعاون بھی خالصتاً امریکی مفادات سے وابستہ ہے۔

امریکہ: بھارتی ارب پتی گوتم اڈانی پر دھوکہ دہی کے الزام میں فرد جرم عائد

اسٹریٹجک اور خارجہ امور کے ماہر کلول بھٹاچارجی نے ٹرمپ کی "امریکہ فرسٹ" پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "بھارت کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ معاشی، تجارتی اور عسکری تعلقات امریکہ کی بہتری کے لیے کیسے استعمال ہوں، جبکہ نئی دہلی کو اپنے مفادات اور اپنی خارجہ پالیسی کا خیال رکھنا ہے۔

"

واضح رہے کہ انڈو پیسیفک ڈومین 2017 میں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دور میں وجود میں آیا تھا، جس کی بنیاد اسٹریٹجک تعاون پر تھی۔ اس وقت اس میں چائنا فیکٹر، امریکہ بھارت کے نئے تعلقات اور جاپان وغیرہ جیسے مختلف عوامل کو شامل کیا گیا تھا۔

لیکن کلول کے مطابق، "وہ ڈومین اب غیر یقینی صورتحال میں ہے۔ یہ ایک ساتھ چلنے کے لیے ایک جامع اسٹریٹجک نقطہ نظر تھا، جس کے تحت انڈو پیسیفک کا آغاز ہوا۔

لیکن اب ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ میں، ہند بحرالکاہل فاؤنڈیشن، مکمل طور پر لین دین پر مبنی تجارت بنتی جا رہی ہے۔ اب ٹرمپ زور دے رہے ہیں کہ انڈو پیسیفک، ٹھیک ہے، تاہم اسے بھی بنیادی طور پر معاشی مفاد سے وابستہ ہونا چاہیے، یعنی کامرس اور کاروبار۔۔۔ سب کچھ میری شرائط پر ہو گا۔"

پرکاش بھنڈاری کلول سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، "گزشتہ ماہ کے دوران، عالمی سطح پر بہت بڑی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ ہند-بحرالکاہل فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد اپنی چمک کھو چکا ہے، اور اب جو اہم ہے، وہ صرف امریکہ کا مفاد ہے۔

لیکن اس کے مستقبل کے بارے میں فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔"

اس غیر یقینی صورتحال کا الزام نئی دہلی پر ڈالتے ہوئے کلول کہتے ہیں، "ہر رشتے کی اپنی حد ہوتی ہے، آپ امریکہ کے ساتھ اس تعلق کو اس حد تک آگے لے گئے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ امریکی انتظامیہ اچانک اس طرح بدل بھی سکتی ہے۔"

روس پر اختلاف کے باجود بھارت جرمن تعلقات میں گرمجوشی

کیا امریکہ بھارت کو ایف-35 خریدنے پر مجبور کر رہا ہے؟

وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ اور مودی نے ایک دوسرے کی تعریف کی اور انڈو پیسیفک میں سکیورٹی تعاون کو گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔

اس کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ "ہم بالآخر بھارت کو ایف- 35 جنگی طیارے فراہم کرنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ سے فوجی ساز و سامان خریدے گا اور امریکہ بھارت کو اپنا جدید ترین لڑاکا طیارہ فروخت کرے گا۔"

بھارتی میڈیا میں صدر ٹرمپ کے اس بیان کو امریکہ بھارت دفاعی تعلقات میں ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم اپوزیشن جماعتوں اور کئی بھارتی دفاعی ماہرین نے صدر ٹرمپ کی طرف سے ایف 35 طیارے کی پیشکش کو امریکہ کا دباؤ قرار دیتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے لیے اس طیارے کی افادیت پر سوالات اٹھائے۔

واضح رہے کہ بھارت نے اس طیارے کی خریداری میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی اور دفاعی ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی یہ پیشکش بظاہر یکطرفہ ہے۔

بعد میں بھارتی سکریٹری خارجہ وکرم مصری کو وضاحت کرنا پڑی کہ "ایف 35 ڈیل اس وقت محض ایک تجویز ہے، جس پر کوئی عمل شروع ہی نہیں کیا گیا۔"

اس حوالے سے بھارت میں بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایف 35 کی خریداری کے حوالے سے مودی حکومت سے کئی سوالات پوچھے۔

انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں ایف - 35 کی آپریشنل خامیوں، اس کی زیادہ قیمت، اور گھریلو پیداوار کے لیے "ٹیکنالوجی کی منتقلی" کو محفوظ بنانے میں ناکامی جیسے مسائل پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے مزید کہا کہ "وزیر اعظم مودی امریکہ سے ایف – 35 طیارے خرید رہے ہیں۔

لیکن کیا صدر ٹرمپ کے کہنے پر طیارے خریدنے کا یہ یکطرفہ فیصلہ لینے سے پہلے مودی حکومت نے قومی مفاد میں ان پہلوؤں پر غور کیا ہے؟"

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف 35 بہت مہنگا جنگی طیارہ ہے، جس کی بھارتی فضائیہ کے خیال میں اب ضرورت نہیں، تاہم امریکہ اسے بھارت کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کانگریس پارٹی نے مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مودی ٹرمپ کے دباؤ میں جھک رہے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ٹرمپ کے اعلان کے بعد بھارت نے امریکہ سے ایف 35 طیاروں کی خریداری پر رضامندی ظاہر کی ہے، بھارتی سکریٹری خارجہ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ یہ صرف امریکہ کی ایک تجویز ہے اور ان کے حصول کے طویل عمل کے بارے میں ابھی سوچا تک نہیں گیا ہے۔"

کلول کہتے ہیں کہ ایف 35 کا یہ معاملہ، "پوری طرح سے واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ معاشی، تجارتی اور عسکری تعلقات کو کس طرح امریکہ کے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

عیاں ہے کہ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے دور میں انڈو پیسفک فاؤنڈیشن لین دین کی تجارت بن رہی ہے۔"

نئی دہلی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید 2014 میں ایف - 35 جنگی طیارے بھارت کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتے تھے، تاہم اب بھارت اتنے مہنگے جنگی طیاروں کی بجائے بہترین ڈرون اور اس کی ٹیکنالوجی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ بھارتی فضائیہ کا کہنا ہے کہ اسے اتنے مہنگے جہازوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

چیلنجز اور مواقع

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی کو اس بات کا خدشہ ہے کہ شاید ٹرمپ چین کے ساتھ ایک معاہدہ کرسکتے ہیں، جس میں بھارت کو شامل ہی نہ کیا جائے اور یہ عنصر بھی نئی دہلی پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔

13 فروری کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مدد کی پیشکش کے لیے تیار ہے۔

تاہم بھارت نے ٹرمپ کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کرنے کا انتخاب کیا کہ بھارت ایسے مسائل دو طرفہ طور پر حل کرنے کو ترجیح دے گا۔

محمد افضل کہتے ہیں کہ، "نئی صورتحال بھارت کے لیے کافی دلچسپ ہے، یہ امریکہ کی جانب سے کچھ چیلنجز کے ساتھ ہی بھارت کو بھی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے نئے مواقع بھی پیش کرتا ہے، تاہم یہ اب مودی حکومت پر منحصر ہے کہ نئے راستوں کو کیسے تلاش کیا جائے۔

"

پرگاش بھنڈاری کہتے ہیں، "یہ ایڈجسٹ کرنے کا وقت ہے، کچھ رعایتیں دیں اور آگے بڑھیں۔ بھارت امریکہ کی حمایت سے محرومی کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے اسے امریکہ کو اقتصادی تعلقات، خاص طور پر تجارت، ٹیرف وغیرہ میں زیادہ رعایتیں دینا ہوں گی اور پھر اسٹریٹجک محاذ پر کچھ فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔"

کلول بھٹاچرجی کی تجویز یہ ہے کہ نئی امریکی پالیسیوں سے نمٹنے کے لیے نئی دہلی کو اپنی "بعض پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں" کرنی ہوں گی۔

"ہمیں ابھی تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کس سمت میں آگے بڑھتے ہیں۔ یہ بہت اہم وقت ہے اور حتمی طور پر کچھ بھی کہنا بہت جلد بازی ہو گی۔"

انہوں نے مزید کہا، "ٹرمپ امریکہ 'پہلے' کے ایجنڈے پر عمل کریں گے اور ظاہر ہے یہ بہت سے معاملات میں بھارتی مفادات اور خیالات سے متصادم رویہ ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی دوسری ہے کہ ٹرمپ کی امریکہ بھارت کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے انتظامیہ کے اور اقتصادی کے بارے میں تجارتی اور مودی حکومت امریکہ کی میں بھارت کے درمیان بھارت میں امریکہ سے سکتے ہیں کا سامنا کہ بھارت بھارت کو کہتے ہیں کے مطابق کی پیشکش کے دوران نئی دہلی انہوں نے ٹرمپ کے ہو سکتے رہے ہیں بات چیت کیا گیا ہیں اور سکتا ہے میں بھی ہے اور رہی ہے بہت سے اور اس چکا ہے اس بات کے بعد رہا ہے ہیں کہ کیا جا کہا کہ

پڑھیں:

ن لیگ والے ضیا الحق کے وارث تو ہو سکتے ہیں پنجاب کے نہیں: پی پی رہنما

---فائل فوٹوز

پیپلز پارٹی رہنماؤں نے کہا ہے کہ ن لیگ والے ضیا الحق کے وارث تو ہو سکتے ہیں لیکن پنجاب کے نہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں چوہدری منظور نے کہا کہ کون سی نہر بند کر کے نئی نہروں میں پانی دیا جائے گا؟ 

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت پارلیمان کے بل اور آرڈیننس کی منظوری دیتے ہیں، صدر کے پاس انتظامی کام کی منظوری دینے کا کوئی اختیار نہیں، کینالز منصوبہ کی منظوری صدر مملکت نےنہیں دی۔

پیپلز پارٹی سندھ میں 16 سال سے ہے، اپنی کارکردگی پر دھیان دے: عظمیٰ بخاری

وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے پیپلز پارٹی سندھ میں 16 سال سے اقتدار میں ہے، اپنی کارکردگی پردھیان دے۔

 ان کا کہنا ہے حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے اب تک مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا گیا، پنجاب حکومت کسانوں کے ساتھ ظلم کرنے جارہی ہے۔ 

چوہدری منظور نے کہا کہ آبی ماہرین کہتے ہیں یہ منصوبہ نا قابل عمل ہے، فلڈ تو 3 ماہ کے لیے ہوتا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب بتائیں کون سی نہر کا پانی بند کرکے چولستان کو دیں گی؟ اس وقت سسٹم میں پانی کی 43 فیصد کمی ہے۔

ندیم افضل چن نے کہا کہ ن لیگ پنجاب کی جعلی وارث ہے، یہ لوگ ضیا الحق کے وارث تو ہوسکتے ہیں پنجاب کے نہیں، ان لوگوں نے پنجاب کی اربوں کی زمین بیچ دی اور خود کو پنجاب کا وارث کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ خریدار اور بیچنے والے تو ہو سکتے ہیں پنجاب کے وارث نہیں، پنجاب حکومت بنیادی صحت مراکز کی تزئین و آرائش کر کے نجکاری کر رہی ہے، کینال کی وجہ سے صوبوں کو آپس میں نہ لڑائیں، سرمایہ داروں کے لیے عوام کو آپس میں نہ لڑائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کے اتحادی نہیں سسٹم کے اتحادی ہیں، پنجاب حکومت نے سرکاری اسکولوں کو بیچنا شروع کر دیا ہے، کسانوں کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے، کسان کو 1100 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ 

پی پی رہنما نے کہا کہ ہم تہذیب کا دامن نہیں چھوڑیں گے دیگر سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، اگر کینالز کے معاملے پر وزیراعظم بے بس ہیں تو پھر اقتدار چھوڑ دیں، وزیر اعظم سی سی آئی کا اجلاس بلا کر کینالز  کے معاملے کو ٹیک اپ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نئے دلدل میں
  • امریکہ نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو دہشت گردی قرار دیدیا
  • مودی جی ڈرامہ بند کرو، اگر آپ انصاف نہیں دے سکتے تو کیاپاکستان سے مدد لیں؟ بھارتی فوجی کی دھائی
  • کل کی ہڑتال اسرائیل‘ بھارت‘ امریکہ پر مشتمل شیطانی ٹرائی اینگل کیخلاف: حافظ نعیم
  • پاکستان رینجرز نے سرحد عبور کرنے پر بھارتی فوجی اہلکار کو  گرفتار کرلیا
  • بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات
  • نیٹ ورک مسائل سے کاروبار کے تسلسل اور صارفین کے اعتماد کو خطرہ: کاسپرسکی
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • ن لیگ والے ضیا الحق کے وارث تو ہو سکتے ہیں پنجاب کے نہیں: پی پی رہنما
  • ٹرمپ ٹیرف کے اثرات پر رپورٹ جاری، پاکستان پسندیدہ ترین ملک قرار