UrduPoint:
2025-06-09@11:51:40 GMT

ٹرمپ کی دوسری میعاد: بھارت کے لیے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

ٹرمپ کی دوسری میعاد: بھارت کے لیے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) واشنگٹن میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہو کے بعد، ایسے دوسرے اہم رہنما تھے جنہوں نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ بھارتی میڈیا میں اس ملاقات کو دونوں رہنماؤں کے درمیان بہترین کیمسٹری اور دونوں ملکوں کے درمیان قربت کو اجاگر کرنے کے لیے خوب اچھالا گیا اور کہا گیا کہ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے دوران بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں "قوت رفتار" کا امکان ہے۔

تاہم خارجہ امور کے متعدد ماہرین نے ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران نئی دہلی کے لیے مشکلات کی پیش گوئی کی ہے اور خبردار کیا کہ آگے چل کر بھارت کو "متعدد چیلنجز" کا سامنا ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی بات چیت کے بعد بعض معاہدوں کا اعلان ہوا، تاہم اس کے چند گھنٹے قبل ہی ٹرمپ نے بھارت میں امریکی کاروبار کے لیے خراب ماحول اور باہمی محصولات کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی۔

ایف 35 طیاروں کی امریکی پیشکش ایک تجویز ہے، بھارتی عہدیدار

دونوں رہنماؤں کی پریس کانفرنس اور میڈیا میں آنے والی خبروں کے بعد ایسا لگا کہ شاید ٹرمپ نے عالمی شراکت داری میں بھارت کے اہم کردار پر بات چیت کے لیے مودی کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ تاہم اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ مودی کو یہ بتانے کے لیے واشنگٹن طلب کیا گیا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے اور نئی انتظامیہ کی ترجیحات مختلف ہیں اور اس بدلتے منظر نامے میں اگر نئی دہلی الگ تھلگ نہیں پڑنا چاہتا، تو اسے تجارت اور اقتصادی روابط میں امریکی مفادات کا خیال رکھنا ہو گا اور اس کے ساتھ ہی دفاعی تعاون میں بھی واشنگٹن کی بات سننا پڑے گی۔

لہذا، بھارت کو امریکہ کے ساتھ صرف ٹیرف، تجارتی یا اقتصادی مسائل کا سامنا نہیں ہے، بلکہ ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے مقابلے میں اس بار اسے مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

تجارتی پالیسی کا امتحان

وائٹ ہاؤس میں اقتدار کی تبدیلی کو ابھی صرف ڈیڑھ ماہ ہوئے ہیں اور اس مختصر عرصے میں دنیا کئی جغرافیائی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔

بھارت بھی ان ممالک میں سے ایک ہے، جس پر اس کے اثرات سب سے زیادہ مرتب ہو سکتے ہیں اور اس سلسلے میں، اس کا پہلا چیلنج یہ ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف کی دھمکیوں کے درمیان سست رو معیشت کو کیسے مستحکم کیا جائے۔

امریکہ سے ملک بدری: غیر قانونی تارکین وطن کا پہلا گروپ واپس بھارت میں

مودی سے ملاقات کے بعد بھی ٹرمپ نے کئی بار اس بات پر زور دیا ہے کہ جہاں تک تجارتی اور اقتصادی روابط کا تعلق ہے، دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف ایک بڑا مسئلہ ہے اور اقتصادی ماہرین کے مطابق اس سے صاف ظاہر ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں بھارت کے برآمدی سیکٹر کے لیے چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں۔

سابق بھارتی سفیر محمد افضل نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا بھارت کو نہ صرف اقتصادی محاذ پر بلکہ اسٹریٹجک امور میں بھی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے، "جیو پولیٹیکل تعلقات ٹرمپ کی ترجیح نہیں ہیں، ان کے لیے تجارتی اور اقتصادی فائدے اہم ہیں، اس لحاظ سے بھارت کو آنے والے دنوں میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

"

امریکہ نے غیر قانونی بھارتی تارکین وطن کو واپس بھیجنا شروع کر دیا

ان کا مزید کہنا تھا، "معاشی اور جغرافیائی سیاسی تعلقات متاثر ہوں گے، تاہم یہ مودی کی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان مسائل سے کیسے نمٹتی ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اصل میں کیا ہونے والا ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے ایک ماہ کے اندر ہی اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں اور مودی حکومت نقصانات کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔

"

تاہم بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ وہ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہے اور وہ پہلے ہی امریکی حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے اور بہت جلد دونوں ممالک کے درمیان ایک جامع تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔

تجارت اور صنعت کے وزیر پیوش گوئل نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ آنے والی تجارتی بات چیت کے بارے میں حوصلہ افزائی کی اور جلد ہی امریکہ کے ساتھ "دو طرفہ تجارتی معاہدے" کی یقین دہانی کرائی ہے۔

بھارت پہلے ہی ٹرمپ کے دباؤ کے سامنے جھک چکا ہے اور بہت سے امریکی سامان پر اضافی محصولات کو ختم کیا جا چکا ہے، البتہ کئی امور پر اب بھی تعطل برقرار ہے اور اطلاعات ہیں کہ بھارت کے پاس امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ٹرمپ اور مودی کی فون پر گفتگو، دو طرفہ تجارت بھی اہم موضوع

مصنف اور خارجہ امور کے ماہر پرکاش بھنڈاری کہتے ہیں، "امریکہ جارحانہ موڈ میں ہے، بھارت کو ایک سازگار ماحول بنا کر سمجھوتہ کرنا چاہیے، یہی آگے کا راستہ ہے۔

آپ کو نئی حقیقتوں کو قبول کرنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے، دہلی یہی کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔"

اشارے یہ ہیں کہ چند مہینوں میں معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں، تاہم، نئی تبدیلیوں سے تجارتی سرگرمیوں میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔ بھارتی منڈیوں نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ممکنہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی اثرات کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کیے ہیں۔

کیا انڈو پیسیفک ڈومین برقرار ہے؟

ایک بات یہ کہی جا رہی ہے کہ بھارتی تجارت اور معیشت کو تو نقصان پہنچ سکتا ہے، تاہم امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں نئی دہلی کو فائدہ ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے انڈو پیسیفک خطے میں دلچسپی ہے اور اس طرح وہ بھارت کے قریب تر ہونا چاہتا ہے۔

بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین سے متعلق ٹرمپ کی حکمت عملی میں بھارت کا کردار اہم ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کی انتظامیہ کے بیشتر اہلکار بیجنگ کو واشنگٹن کے لیے ایک بڑا حریف سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں بھی پڑوسی چین کی فوجی سرگرمیوں کے تعلق سے بے چینی پائی جاتی ہے، اس لیے دونوں کا اتحاد مضبوط ہو گا۔ لیکن نئی دہلی میں بعض ماہرین اس بات پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب دفاعی تعاون بھی خالصتاً امریکی مفادات سے وابستہ ہے۔

امریکہ: بھارتی ارب پتی گوتم اڈانی پر دھوکہ دہی کے الزام میں فرد جرم عائد

اسٹریٹجک اور خارجہ امور کے ماہر کلول بھٹاچارجی نے ٹرمپ کی "امریکہ فرسٹ" پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "بھارت کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ معاشی، تجارتی اور عسکری تعلقات امریکہ کی بہتری کے لیے کیسے استعمال ہوں، جبکہ نئی دہلی کو اپنے مفادات اور اپنی خارجہ پالیسی کا خیال رکھنا ہے۔

"

واضح رہے کہ انڈو پیسیفک ڈومین 2017 میں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دور میں وجود میں آیا تھا، جس کی بنیاد اسٹریٹجک تعاون پر تھی۔ اس وقت اس میں چائنا فیکٹر، امریکہ بھارت کے نئے تعلقات اور جاپان وغیرہ جیسے مختلف عوامل کو شامل کیا گیا تھا۔

لیکن کلول کے مطابق، "وہ ڈومین اب غیر یقینی صورتحال میں ہے۔ یہ ایک ساتھ چلنے کے لیے ایک جامع اسٹریٹجک نقطہ نظر تھا، جس کے تحت انڈو پیسیفک کا آغاز ہوا۔

لیکن اب ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ میں، ہند بحرالکاہل فاؤنڈیشن، مکمل طور پر لین دین پر مبنی تجارت بنتی جا رہی ہے۔ اب ٹرمپ زور دے رہے ہیں کہ انڈو پیسیفک، ٹھیک ہے، تاہم اسے بھی بنیادی طور پر معاشی مفاد سے وابستہ ہونا چاہیے، یعنی کامرس اور کاروبار۔۔۔ سب کچھ میری شرائط پر ہو گا۔"

پرکاش بھنڈاری کلول سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، "گزشتہ ماہ کے دوران، عالمی سطح پر بہت بڑی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ ہند-بحرالکاہل فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد اپنی چمک کھو چکا ہے، اور اب جو اہم ہے، وہ صرف امریکہ کا مفاد ہے۔

لیکن اس کے مستقبل کے بارے میں فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔"

اس غیر یقینی صورتحال کا الزام نئی دہلی پر ڈالتے ہوئے کلول کہتے ہیں، "ہر رشتے کی اپنی حد ہوتی ہے، آپ امریکہ کے ساتھ اس تعلق کو اس حد تک آگے لے گئے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ امریکی انتظامیہ اچانک اس طرح بدل بھی سکتی ہے۔"

روس پر اختلاف کے باجود بھارت جرمن تعلقات میں گرمجوشی

کیا امریکہ بھارت کو ایف-35 خریدنے پر مجبور کر رہا ہے؟

وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ اور مودی نے ایک دوسرے کی تعریف کی اور انڈو پیسیفک میں سکیورٹی تعاون کو گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔

اس کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ "ہم بالآخر بھارت کو ایف- 35 جنگی طیارے فراہم کرنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ سے فوجی ساز و سامان خریدے گا اور امریکہ بھارت کو اپنا جدید ترین لڑاکا طیارہ فروخت کرے گا۔"

بھارتی میڈیا میں صدر ٹرمپ کے اس بیان کو امریکہ بھارت دفاعی تعلقات میں ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم اپوزیشن جماعتوں اور کئی بھارتی دفاعی ماہرین نے صدر ٹرمپ کی طرف سے ایف 35 طیارے کی پیشکش کو امریکہ کا دباؤ قرار دیتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے لیے اس طیارے کی افادیت پر سوالات اٹھائے۔

واضح رہے کہ بھارت نے اس طیارے کی خریداری میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی اور دفاعی ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی یہ پیشکش بظاہر یکطرفہ ہے۔

بعد میں بھارتی سکریٹری خارجہ وکرم مصری کو وضاحت کرنا پڑی کہ "ایف 35 ڈیل اس وقت محض ایک تجویز ہے، جس پر کوئی عمل شروع ہی نہیں کیا گیا۔"

اس حوالے سے بھارت میں بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایف 35 کی خریداری کے حوالے سے مودی حکومت سے کئی سوالات پوچھے۔

انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں ایف - 35 کی آپریشنل خامیوں، اس کی زیادہ قیمت، اور گھریلو پیداوار کے لیے "ٹیکنالوجی کی منتقلی" کو محفوظ بنانے میں ناکامی جیسے مسائل پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے مزید کہا کہ "وزیر اعظم مودی امریکہ سے ایف – 35 طیارے خرید رہے ہیں۔

لیکن کیا صدر ٹرمپ کے کہنے پر طیارے خریدنے کا یہ یکطرفہ فیصلہ لینے سے پہلے مودی حکومت نے قومی مفاد میں ان پہلوؤں پر غور کیا ہے؟"

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف 35 بہت مہنگا جنگی طیارہ ہے، جس کی بھارتی فضائیہ کے خیال میں اب ضرورت نہیں، تاہم امریکہ اسے بھارت کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کانگریس پارٹی نے مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مودی ٹرمپ کے دباؤ میں جھک رہے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ٹرمپ کے اعلان کے بعد بھارت نے امریکہ سے ایف 35 طیاروں کی خریداری پر رضامندی ظاہر کی ہے، بھارتی سکریٹری خارجہ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ یہ صرف امریکہ کی ایک تجویز ہے اور ان کے حصول کے طویل عمل کے بارے میں ابھی سوچا تک نہیں گیا ہے۔"

کلول کہتے ہیں کہ ایف 35 کا یہ معاملہ، "پوری طرح سے واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ معاشی، تجارتی اور عسکری تعلقات کو کس طرح امریکہ کے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

عیاں ہے کہ ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کے دور میں انڈو پیسفک فاؤنڈیشن لین دین کی تجارت بن رہی ہے۔"

نئی دہلی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید 2014 میں ایف - 35 جنگی طیارے بھارت کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتے تھے، تاہم اب بھارت اتنے مہنگے جنگی طیاروں کی بجائے بہترین ڈرون اور اس کی ٹیکنالوجی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ بھارتی فضائیہ کا کہنا ہے کہ اسے اتنے مہنگے جہازوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

چیلنجز اور مواقع

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی کو اس بات کا خدشہ ہے کہ شاید ٹرمپ چین کے ساتھ ایک معاہدہ کرسکتے ہیں، جس میں بھارت کو شامل ہی نہ کیا جائے اور یہ عنصر بھی نئی دہلی پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔

13 فروری کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مدد کی پیشکش کے لیے تیار ہے۔

تاہم بھارت نے ٹرمپ کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کرنے کا انتخاب کیا کہ بھارت ایسے مسائل دو طرفہ طور پر حل کرنے کو ترجیح دے گا۔

محمد افضل کہتے ہیں کہ، "نئی صورتحال بھارت کے لیے کافی دلچسپ ہے، یہ امریکہ کی جانب سے کچھ چیلنجز کے ساتھ ہی بھارت کو بھی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے نئے مواقع بھی پیش کرتا ہے، تاہم یہ اب مودی حکومت پر منحصر ہے کہ نئے راستوں کو کیسے تلاش کیا جائے۔

"

پرگاش بھنڈاری کہتے ہیں، "یہ ایڈجسٹ کرنے کا وقت ہے، کچھ رعایتیں دیں اور آگے بڑھیں۔ بھارت امریکہ کی حمایت سے محرومی کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے اسے امریکہ کو اقتصادی تعلقات، خاص طور پر تجارت، ٹیرف وغیرہ میں زیادہ رعایتیں دینا ہوں گی اور پھر اسٹریٹجک محاذ پر کچھ فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔"

کلول بھٹاچرجی کی تجویز یہ ہے کہ نئی امریکی پالیسیوں سے نمٹنے کے لیے نئی دہلی کو اپنی "بعض پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں" کرنی ہوں گی۔

"ہمیں ابھی تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کس سمت میں آگے بڑھتے ہیں۔ یہ بہت اہم وقت ہے اور حتمی طور پر کچھ بھی کہنا بہت جلد بازی ہو گی۔"

انہوں نے مزید کہا، "ٹرمپ امریکہ 'پہلے' کے ایجنڈے پر عمل کریں گے اور ظاہر ہے یہ بہت سے معاملات میں بھارتی مفادات اور خیالات سے متصادم رویہ ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی دوسری ہے کہ ٹرمپ کی امریکہ بھارت کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے انتظامیہ کے اور اقتصادی کے بارے میں تجارتی اور مودی حکومت امریکہ کی میں بھارت کے درمیان بھارت میں امریکہ سے سکتے ہیں کا سامنا کہ بھارت بھارت کو کہتے ہیں کے مطابق کی پیشکش کے دوران نئی دہلی انہوں نے ٹرمپ کے ہو سکتے رہے ہیں بات چیت کیا گیا ہیں اور سکتا ہے میں بھی ہے اور رہی ہے بہت سے اور اس چکا ہے اس بات کے بعد رہا ہے ہیں کہ کیا جا کہا کہ

پڑھیں:

تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔

ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ گذشتہ دو صدیوں کے اندر اخلاقی ترقی ہوئی ہے لیکن حکومتیں بری طرح سے غیر اخلاقی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اس کے نزدیک دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ان کے اندر وہ اخلاقی جرأ ت پیدا ہوجائے جس سے وہ ظالموں کے استحصال کا عدم تشدد کے ذریعے مقابلہ کرسکیں ۔ وہ کہتا ہے ” یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے”۔ ستمبر 1860 میں ایک انگلستان کے عظیم ناول نگار چالس ڈکنس نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دیئے ۔ ڈکنس کو ”زمانہ ” کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شیکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectationایسے افراد کی داستا ن ہے جنہوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خو دتنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ”غیر انسان ” ہوتے جارہے تھے اس ماحول میں انسان محض ”چیز ” بنتا جارہا تھا ۔ اس ناول میں کردار وں کی اہم خصو صیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ” انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔ سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جبکہ کیرک گرد کہتا تھا ” میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے ”۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو ۔ خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھو دتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں او ر اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے ۔ خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے ۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔ بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکو سلے بازی بند کرو یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے ۔ تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمہ دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں ۔جب سکندر اعظم 325قبل از مسیح میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھو ما تو اس نے پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جو ش و خروش پیدا کرسکے کہ و ہ طاقتور شاہی نند ا خاندان پر حملہ کرسکیں ۔ جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا ، ( جو اب پٹنہ کہلا تا ہے ) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیا ر نہیں تھا ایک روز پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا ”بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے ہی حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں ۔ اپنے گھر سے اتنے میل ہامیل دور سفر کررہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو، آپ جلد ہی مر جائو گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپا نے کے لیے کافی ہوگی ”۔ میر ے ملک کے امیروں ، بااختیاروں ، طاقتوروں ، حکمرانوںیہ ہی بات تمہارے سو چنے کی بھی ہے کہ تم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پر یشانی کا باعث ہو۔ آج نہیںتو کل تمہیں مر ہی جانا ہے اور اس وقت تم صرف اتنی ہی زمین کے مالک ہوگے جو تمہیں اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی ۔ باقی تمہاری ساری دولت ساری چیزوں کے مزے دوسرے لے رہے ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بہاولپور: ایک بہن نے دوسری بہن کو گولی مار دی
  • امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
  • امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ
  • امریکہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا
  • عید کے بعد سپریم کورٹ میں سیاسی مضمرات کے حامل کونسے مقدمات زیر سماعت آئیں گے؟
  • پاکستان اور بھارت جنگ کے اگلے مرحلے میں جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے تھے، امریکی صدر
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول
  • صدر ٹرمپ بھارت کو پاکستان کیساتھ مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کریں، بلاول بھٹو
  • بلاول بھٹو نے بھارت کیخلاف پاکستان کا مقدمہ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے پیش کردیا